آج تو واقعی کالم سے چھٹی منانے کی نیت ہے۔ چڑیوں‘کوئوں اور درختوں کا ذکر روز روز کون سنتا ہے‘ نیز یہ کہ یہ پرندے کس کے نہیں دیکھے ہوئے جبکہ سبزہ اور درخت کس کے لیے اجنبی ہو سکتے ہیں، جو اگرچہ حکومت نے کینال بینک سے ہزاروں کی تعداد میں کاٹ ڈالے ہیں لیکن کچھ چھوڑ بھی دیے ہیں تاکہ لاہوریے گھروں سے نکل کر کبھی کبھار انہیں دیکھ بھی سکیں۔ پھرکوئی آیا گیا بھی نہیں‘ ماسوائے ان دو مہمانوں کے جن کا ذکر پیشگی کر دیا تھا۔ البتہ جنہوں نے آنا تھا لیکن نہیں آئے‘ ان کا ذکر کیا جا سکتا ہے جن میں ایک تو حسین مجروح ہیں جنہوں نے یہ بطور خاص پوچھا تھا کہ میں ماڈل ٹائون میں کس دن دستیاب ہو سکتا ہوں، ان کے علاوہ میاں جاوید اقبال ارائیں اور مہر جہانگیر ایڈووکیٹس بھی وعدہ کر کے نہ آئے۔ میاں جاوید اقبال کا خاکسار سے رابطہ اس وقت سے ہے جب وہ سکول میں پڑھا کرتے تھے اور بعد میں جا کر انہیں معلوم ہوا کہ ان کی کاپی پر لکھے ہوئے سارے کے سارے پسندیدہ اشعار خاکسار کے ہیں۔ ان کے ساتھ پہلی ملاقات اردو سائنس بورڈ کے دفتر میں ہوئی جبکہ میرے بائی پاس کے دنوں میں بھی ان کی سرگرمیاں قابل دید رہیں اور آج تک یہ دو طرفہ عاشقی برقرار چلی آ رہی ہے۔ مہر جہانگیر کے ساتھ تعلق بھی انہی کے ذریعے استوار ہوا۔
میرے کلیات ''اب تک‘‘ کی اشاعت کے سلسلے میں ان کے علاوہ ''بابو نگری‘‘ کے مصنف حسین احمد شیرازی کی دلچسپی اور تعاون بطور خاص قابل ذکر ہے۔ میرے پبلشر اظہر غوری میں تو اتنا دم خم تھا ہی نہیں کہ سات آٹھ سو صفحے کی یہ کتاب اور اس کی بھی تین چار جلدیں چھاپ سکتے؛ چنانچہ اس ضمن میں جو سازش کی گئی اس کے مطابق تین جلدوں کے لیے کاغذ شیرازی صاحب نے مہیا کر دیا اور ہر جلد کے لیے چالیس چالیس ہزار کا چندہ جاوید اقبال ارئیں نے ڈالا اور تب کہیں جا کر یہ تین جلدیں یکے بعد دیگرے اشاعت پذیر ہو سکیں، جس میں اظہر غوری کا اپنا حصہ بھی بدستور موجود رہا۔ البتہ چوتھی جلد کے لیے کاغذ غوری صاحب کو خود خریدنا پڑا۔ اب اس کی پانچویں جلد کراچی سے رنگ ادب والے شاعر علی شاعرؔ چھاپ رہے ہیں جو اسی ماہ آئوٹ ہونے کا پورا پورا امکان موجود ہے، جس کے بعد پہلی سے لے کر چوتھی جلد تک کے تازہ ایڈیشن بھی وہیں سے شائع ہوں گے بلکہ نثری مجموعے جن میں ''لاتنقید‘‘ کی دوسری جلد اور میری سوانح عمری ''درگزشت‘‘ کے نام سے شائع ہوگی جس کی قسطیں ''ادبیات‘‘ اور ''مکالمہ‘‘ میں شائع ہو رہی ہیں۔ یہ تفصیلات غیر ضروری ہی سہی‘ لیکن یہ کون سا کالم ہے جس میں صرف ضروری تفاصیل ہی کی گنجائش ہو کیونکہ یہ تو کالم سے چھٹی کا دن ہے۔ ڈی ایس پی غلام عباس جن کا تعلق گوجرانوالہ سے ہے، جو نہ صرف میرے کالم کے باقاعدہ قاری ہیں بلکہ خود بھی یہ کام کرتے رہتے ہیں، پولیس مین ہونے کے باوجود ان کے ادبی ذوق سے میں بھی متاثر ہوں‘ کل لاہور آئے ہوئے تھے اور ملنے کے لیے آنا چاہتے تھے لیکن میں اپنی مصروفیات کے باعث
طرح دے گیا۔ پچھلے دنوں ان کا فون آیا کہ جان کاشمیری صاحب اس وقت میرے پاس بیٹھے ہیں جن کے (غالباً) دس شعری مجموعے ایک ساتھ شائع ہوئے ہیں اور پیش کرنا چاہتے ہیں؛ چنانچہ جان صاحب کا اپنا فون بھی کل آ گیا کہ وہ کتابیں ڈاک سے بھجوا رہے ہیں۔
مون سون شروع ہو چکا ہے‘ اگرچہ یہ بھی کوئی خبر یا انکشاف نہیں ہے لیکن یہ تحریر ہے ہی ایسی کہ لکھنے بیٹھا ہوں تو لکھے بغیر ہی کیسے اٹھ جائوں اور ایسی صورت کے آنے سے بھی ڈرتا ہوں کہ بقول احمد مشتاق ؎ ؎
رو پڑا ہوں کاغذِ خالی کی صورت دیکھ کر
جن کو لکھنا تھا وہ سب باتیں زبانی ہو گئیں
یہ کہنے کی تو ضرورت ہی نہیں کہ میں احمد مشتاق کے ماننے والوں میں سے ہوں اور گاہے امریکہ سے ان کا فون بھی آتا رہتا ہے جو چند ماہ سے موقوف ہے‘ خدا کرے وہ ٹھیک ٹھاک ہوں‘ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مجھ سے ناراض ہوں کیونکہ میں نے ان کی تازہ کتاب ''اوراقِ خزانی‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اس مجموعے میں احمد مشتاق کہیں نظر نہیں آتا اور نظر آتا بھی ہے تو خال خال ہی۔ اور یہ کہ یہ کتاب انہیں شائع نہیں کرنی چاہیے تھی کیونکہ یہ ان کے بنے بنائے امیج کو خراب یا ختم کرنے کا باعث بھی ہو سکتی ہے!
احمد مشتاق میرے ہی ایج گروپ سے تعلق رکھتے ہیں‘ شاید مجھ سے ایک آدھ سال بڑے ہی ہوں؛ اگرچہ امیج بنانا بھی اتنا آسان نہیں ہے بلکہ اسے قائم رکھنا زیادہ مشکل ہے ۔ ایک اعلیٰ درجے کے شاعر کا تخلیقی سوتا کسی وقت بھی خشک ہو سکتا ہے، خود میرے بارے میں کئی حضرات کا یہی خیال ہے‘ مثلاً شمس الرحمن فاروقی نے ایک جگہ کہا ہے کہ ظفر اقبال نے جو شاعری کرنا تھی کر چکے ہیں ۔کم و بیش ایسا ہی خیال ڈاکٹر تبسم کاشمیری کا بھی ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایسی باتوں کو آپ دل سے لگا کر ہی بیٹھ جائیں۔ تاہم شاعر کو پتا ہوتا ہے اور اگر نہیں تو ہونا چاہیے کہ وہ کتنے پانی میں ہے۔ اور یہ بھی ضروری نہیں کہ اگر اس کے ہاں وہ اگلا سا وفور ختم ہو جائے تو وہ لکھنا ترک کر دے؛ اگرچہ عقلمند لوگ ایسا کر بھی گزرتے ہیں لیکن شعر تو شاعر اپنی اندر کی مجبوری کی بنا پر کہتا ہے اور وہی اس سے شعر کہلواتی بھی ہے۔ تاہم اسے چاہیے کہ اس مجبوری کا بھرم بھی رکھے اور بھرتی کے اشتہار سے اجتناب کرے کہ اس کا کوئی جواز ہے نہ ضرورت‘ بلکہ اس انداز کی پیروی شاعر کو شروع ہی سے کرنی چاہیے کہ شعر اگر اور کچھ نہیں تو ذرا مختلف ضرور ہو تاکہ اسے دوسروں کی جگالی شمار نہ کیا جا سکے‘ بلکہ شاعر کو تو اپنی جگالی سے بھی حتی الامکان گریز کرنا چاہیے۔ اور میں جو ایسی باتیں لکھتا رہتا ہوں تو یہ کوئی ''ہدایت نامہ شاعر‘‘ قسم کی چیز نہیں ہوتی بلکہ یہ میری گفتگو اپنے آپ سے ہوتی ہے کیونکہ دوسرے تو مرضی کے مالک ہوتے ہیں اور اپنی اپنی راہ پہلے ہی متعین کر چکے ہوتے ہیں جس میں وہ اس طرح کی مداخلت پسند بھی نہیں کرتے اور دوسروں کے آپ ٹھیکیدار بھی نہیں ہیں‘ یعنی ع
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تُو
چنانچہ میں اپنی ہی نبیڑنے کی کوشش کرتا ہوں‘ وہ نبڑتی ہے یا نہیں، یہ الگ بات ہے۔ یاد آیا کہ کوئی سو سال پہلے مغرب میں ''ڈاڈا‘‘ نام کے ایک صاحب گزرے ہیں جن کا نعرہ ہی لایعنیت تھا۔ انہوں نے شاعری‘ موسیقی اور زبان تک کا حلیہ تبدیل کر کے رکھ دیا حتیٰ کہ ان کے اس نظریے کو باقاعدہ ''ڈاڈا ازم‘‘ کا نام دیا گیا۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ لایعنیت ایک ایسی پناہ گاہ ہے جہاں آپ کو بوریت اور تکرار وغیرہ سے کچھ عرصے کے لیے نجات مل سکتی ہے کیونکہ معانی تو بے معنویت کے اپنے بھی ہوتے ہیں۔ چنانچہ شاعری بلکہ پورا ادب ہی ایک ایسا کھلا میدان ہے کہ آپ اپنا راستہ چھوڑ کر کسی طرف کو بھی نکل جائیں، ایک سکون محسوس ہو گا‘ آپ کو بھی اور آپ کے پڑھنے والوں کو بھی۔ اور یہ کام مکھی پر مکھی مارتے چلے جانے سے بدرجہا بہتر ہے کہ آپ کریش کے ڈھیر لگاتے چلے جائیں‘ صرف اس بات کا فائد اٹھاتے ہوئے کہ ملک عزیز میں بری شاعری پر کوئی قدغن نہیں ہے؛ حالانکہ اس کی باقاعدہ سزا ہونی چاہیے۔اب تو یہ بات ظاہر ہو چکی ہے کہ اگر کالم نہ لکھنا ہو تو کس طرح کی باتیں کی جا سکتی ہیں!
آج کا مقطع
چل بھی دیے دکھلا کے تماشہ تو‘ ظفرؔ ہم
بیٹھے رہے تادیر تماشائی ہمارے