غالبؔ... گیانی چند
مکاتیبِ غالبؔ کے چند اقتباسات:
1۔ میرا حال یہ ہے کہ انگریزی تنخواہ گھر میں اور کچھ قرض کی قسط میں جاتی ہے۔ حضور کے عطیہ پر میرا اور شاگرد پیشہ اور حسین علی کا گزارہ ہے۔ عالم الغیب جانتا ہے جس طرح گزرتی ہے۔ چارسو ساڑھے چار سو کا قرض باقی ہے۔ اب کوئی قرض بھی نہیں دیتا۔ آئندہ کو حکم ہو جائے کہ ہر مہینے کی پہلی دوسری کو فقیر کی تنخواہ کہ وہ محض صیغہ خیرات ہے بھیجی جایا کرے (عریضہ84‘ مورخہ 10اگست 1866ء)
غالب نے اپنی بیوی کے بھانجے عارف مرحوم کے دو بیٹوں کو اپنے گھر رکھا ہوا تھا۔ ان کے لیے علیحدہ سے وظیفے کی درخواست کرتے ہیں حالانکہ اس کا کوئی جواز دکھائی نہیں دیتا۔
2۔ اگر دونوں لڑکوں کا پچاس روپے مہینہ جنوری سن1867ء یعنی ماہِ حال و سال حال جاری ہو جاوے گا تو آپ کا نمک خوار پھر کبھی قرض دار نہ ہو گا۔ (عریضہ 75، 8جنوری1867ء)
3۔ حسین علی خاں کی شادی کے سلسلے میں''میںدر دولت کا گدائے خاک نشیں! اور وہ آپ کا غلام‘ تفصیل یہ کہ میرے پاس نقد‘ جنس‘ اسباب‘ املاک اور میرے گھر میں زیور زرینہ و سیمینہ کا نام و نشان نہیں۔ نیت ادھار قرض کوئی دیتا نہیں۔ آپ روپیہ عنایت فرمائیں تا یہ کام سر انجام پائے اور بوڑھے فقیر کی برادری میں شرم رہ جائے۔ دوسری بات یہ کہ سو روپے آپ کی سرکار سے بطریق خیرات اور باسٹھ روپے آٹھ آنے مہینہ انگریزی سرکار سے بعوض جاگیر پاتا ہوں۔ عالم الغیب جانتا ہے کہ اس میں میرا بڑی مشکل سے گزارا ہوتا ہے۔ بہو کو کہاں سے کھلائوں گا۔ حسین علی خاں کی کچھ تنخواہ مقرر ہو جائے... زر مصرف شادی کی حقدار اور تنخواہ کی مقدار جو خداوند کی ہمت اور اس کنگال اپاہج کی قسمت‘ زیادہ حدِ ادب (عریضہ57 ‘ 5ستمبر1867ء)
یہ وہ غالب ہیں جنہوں نے 1854ء میں کہا تھا (تاریخ کا تعین بحوالہ کالی داس گُپتا رضا‘ دیوانِ غالب کامل نسخۂ گپتا رضا‘ بارسوم (بمبئی1995ء ) ص448)
بندگی میں بھی وہ آزادہ وخود بیں ہیں کہ ہم
الٹے پھر آئے، در کعبہ اگر وا نہ ہوا
زوال کا نقطۂ اسفل ملاحظہ ہو۔
4۔ ماہِ صیام میں سلاطین و امراء خیرات کرتے ہیں‘ اگر حسین علی خاں یتیم کی شادی اس صیغے میں ہو جائے اور اس بوڑھے فقیر کو روپیہ مل جائے تو اس مہینے میں تیاری ہو رہے... وہ پچیس روپے مہینہ جو زبانِ مبارک سے نکلا ہے‘ جنوری1868ء سے بنام حسین علی خان مذکور جاری ہو جائے تو مجھے گویا دونوں جہان مل گئے(عریضہ 63، یکم رمضان درسن1284ھ ‘ 27 ستمبر1867ء) اس خط کو پڑھ کر مجھے رونا آتا ہے، میں قیاس کر سکتا ہوں کہ غالبؔ نے اسے کتنے آنسوئوں کے ساتھ لکھا ہو گا اور بعد میں کتنے عرصے تک مغموم و مضمحل رہے ہوں گے۔ وہ غالبؔ جس کے ہاتھ کا لکھا ایک خط اگر آج مل جائے تو ہزاروں روپے قیمت لائے۔ مشہور محقق قاضی عبدالودود ایک ماہر نفسیات کی طرح تجزیہ کرتے ہیں:
''میرزا نے یوسف علی خاں کے عہد میں رام پور کے وظیفے کو کبھی ''خیرات‘‘ سے تعبیر نہیں کیا۔ کلب علی خاں کے نام کے خطوں میں بارہا یہ لفظ آتا ہے اور وہ کبھی اس کے استعمال کو منع نہیں کرتے۔ اصلاحِ نثر کے سلسلے میں جو بد مزگی پیدا ہوئی تھی اس کا ذکر ہو چکا ہے۔ میرزا کا اس کے باوجود بھی تھوڑے تھوڑے وقفے سے تین مختلف شکلوں میں طالبِ زر ہونا ایک ایسا واقعہ ہے جو توجیہ چاہتا ہے۔ لڑکوں کے مشاہرے کے لیے لکھنا اُمرائو بیگم کی تحریک سے ہو گا... حسین علی خاں کی شادی کے لیے اعانت کی درخواست‘ اس صورت میں کہ اس سے کچھ قبل ہی مشاہرہ مقرر کیے جانے کی استدعا کر چکے تھے‘ بے محل تھی اور میرا قیاس ہے کہ یہ محض امرائو بیگم کی ضد کا نتیجہ تھی۔ میرزا نے اس کے متعلق جو خطوط لکھے وہ بہ کراہت لکھے اور اسی سبب سے ان میں ایک گدایانہ لجاجت اور ابرام سے کام لیا جو ان کی وضع کے بالکل خلاف تھا۔ یہ گویا ایک سزا تھی جو انہوں نے اپنے آپ کو دی۔ ادائے قرض کی استدعا محض مجبوری اور بے چارگی کے عالم میں کی گئی‘‘۔ بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی‘ ابھی بہت کچھ کہنے کو ہے۔
5۔ حال میرا تباہ ہوتے ہوتے اب یہ نوبت پہنچی... آٹھ سو روپے ہوں تو میری آبرو بچتی ہے۔ ناچار حسین علی خاں کی شادی اور اس کے نام کی تنخواہ سے قطع نظر کی۔ اب اس باب میں عرض کروں کیا مجال‘ کبھی نہ کہوں گا۔ آٹھ سو روپے مجھ کو اور دیجیے۔ شادی کیسی؟ میری آبرو بچ جائے تو غنیمت ہے... مختصر یہ کہ اب میری جان اور آبرو آپ کے ہاتھ ہے مگر حضور جو عطا فرمانا ہے‘ جلد ارشاد ہو... (عرض داشت گدائے یک در اسد اللہ مضطر، 16نومبر1868ء عریضہ 105)
قاضی عبدالودود لکھتے ہیں:
''میرزا غالب اور نوابان رامپور کے تعلقات کی تاریخ کا یہ سب سے ناخوشگوار واقعہ ہے کہ نواب نے درخواست کے منظور کر لینے پر بھی میرزا کی زندگی میں نہ تو حسین علی کا وظیفہ مقرر کیا‘ نہ ان کی شادی کے لیے روپے دیے اور نہ میرزا کا قرض ادا کیا۔ جناب عرشی کا بیان ہے کہ میرزا کی وفات کے بعد حسین علی خاں رامپور چلے گئے تھے اور ان کی ریاست سے تنخواہ مقرر ہو گئی تھی اور ان کا قیاس ہے کہ شادی کے لیے بھی انہیں کچھ روپے دیے گئے تھے۔ امرائو بیگم نے میرزا کی وفات کے بعد نواب کو لکھا کہ انگریز اس شرط پر کہ میں کچہری میں حاضر ہوں‘ مجھے دس روپے ماہوار دینا قبول کرتے ہیں لیکن میں کچہری میں نہیں جا سکتی۔ آپ میری خبر لیں اور میرزا صاحب 800 سو روپے قرض چھوڑ گئے ہیں، یہ حق العباد ہے‘ اس کے ادا کئے جانے کی بھی صورت نکالیں‘‘۔
مکاتیب غالبؔ سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ امرائو بیگم نے اس مضمون کی کئی درخواستیں بھیجیں لیکن یہ پتا نہیں چلا کہ آخر کیا حکم ہوا۔ ابھی حال ہی میں جناب عرشی نے مجھے اطلاع دی کہ کاغذات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نواب نے حکیم غلام نجف خاں کی معرفت امرائو بیگم کو600 روپے بھیجے تھے(کچھ غالب کے بارے میں‘ حصہ دوم ص 22‘531)
اس پر غالب،ؔ رام پور اور ان کی زندگی کا اختتام ہوتا ہے۔ ان مصائب نے غالب کو اتنا پارہ پارہ کر دیا کہ وہ خود اپنی ذات کو غیر بنا کر طنز کے نشتر گھنگولتے ہیں۔ مرزا قربان علی بیگ خاں سالک کو ایک بغیر تاریخ کے خط میں لکھتے ہیں:
6۔ یہاں خدا سے بھی توقع باقی نہیں‘ مخلوق کا کیا ذکر۔ کچھ بن نہیں آتی۔ اپنا آپ تماشائی بن گیا ہوں۔ رنج و ذلت سے خوش ہوتا ہوں یعنی میں نے اپنے کو اپنا غیر تصور کیا ہے۔ جو دکھ مجھے پہنچتا ہے، کہتا ہوں کہ لو، غالب کے ایک اورجوتی لگی۔ بہت اتراتا تھا کہ میں بڑا شاعر اور فارسی دان ہوں۔ آج دُور دُور تک میرا جواب نہیں۔ لیں اب تو قرض داروں کو (کذا، قرض خواہ ہوں؟) کو جواب دے۔ سچ تو یوں ہے کہ غالب کیا مرا‘ بڑا مُلحد مرا‘ بڑا کافر مرا۔ ہم نے ازاراہ تعظیم ‘ جیسا بادشاہوں کو بعد ان کے ''جنت آرام گاہ و عرش نشین‘‘ خطاب دیتے ہیں‘ چونکہ یہ اپنے کو شاہ قلمروِ سُخن جانتا تھا ''سقرمقر‘‘ اور''ہاویہ زاویہ‘‘ خطاب تجویز کر رکھا ہے...
آج کا مقطع
گھر پہنچ کر مجھے کھولے جو خریدار، ظفرؔ
اور ہی کچھ نکل آئوں گا دکھایا ہوا میں