بھارت ایک دُشمن ملک ہے اور اس کے ساتھ وہی سلوک کیا جانا چاہیے جو دُشمن کے ساتھ کیا جاتا ہے، بھارت کے نزدیک پاکستان ایک دشمن ملک ہے‘ اسے بھی نیست و نابود ہو جانا چاہیے۔ لیکن یہ دونوں ملکوں کی آواز نہیں بلکہ عوام سے اُوپر کی آواز ہے جس کا کوئی سوا ارب عوام اور ان کے جذبات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ ڈپلومیسی تو یہ ہے کہ معاندانہ حقائق کے باوجود کسی نہ کسی سطح پر ہم وجودیت کا تعلق برقرار رکھا جائے، جس کی بہت سی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں کہ ملکوں کے درمیان حد سے بڑھ کر تنازعات بھی ہوتے ہیں لیکن کئی سطحوں پر باہمی تعاون اور بھائی چارہ بھی پایا جاتا ہے، جبکہ ہم دونوں کا تو معاملہ ہی اور ہے کہ صدیوں ایک ساتھ رہنے کے علاوہ اب بھی ہمارا بہت کچھ مشترکہ چلا آ رہا ہے۔ ہمارے بزرگوں کی قبریں وہاں ہیں تو ان کے بزرگوں کی یہاں۔ اپنے اپنے چُھوٹے ہوئے گھروں کو کبھی دیکھنے کا موقعہ ملتا ہے تو جس حالت سے دوچار ہوتے ہیں اس کا اندازہ لگایا ہی نہیں جا سکتا۔ ہمارا تو ثقافتی ورثہ اور سب سے بڑھ کر ادب بھی مشترکہ ہے جبکہ بھارتی اور پاکستانی ادب میں کوئی لکیر کھینچی ہی نہیں جا سکتی۔ فن و ثفاقت کا کوئی بھی نمائندہ وہاں سے یہاں آئے یا یہاں سے وہاں جائے‘ اس کے لیے ایک والہانہ پن ہمیشہ منتظر ہوتا ہے۔ جتنی مماثلث ہم دو ملکوں کے لوگوں کے درمیان پائی جاتی ہے‘
اس کی دوسری مثال کہیں دستیاب نہیں ہوتی‘ لیکن آنا جانا تو دور کی بات ہے، اس کے لیے طرح طرح کے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ ہماری تو ڈاک بھی صحیح طور پر آسانی سے ایک دوسرے کے ہاں نہیں آ جا سکتی۔ اگر نفرت کا یہ معیار درست ہوتا تو ہم میرؔ اور غالبؔ کو کبھی کے چھوڑ چکے ہوتے اور بھارت والے منٹو اور عبداللہ حسین کو ترک کر چکے ہوتے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا‘ ہو ہی نہیں سکتا۔
ایسے حالات پیدا کر سکتے ہیں کہ اس کا کوئی حل بھی نکالا جا سکے۔ لیکن ہم ایسا نہیں کر سکتے‘ جس کی وجہ صرف اور صرف ڈپلومیسی اور سیاسی بصیرت کا فقدان ہے۔ اول تو ہمارے حکمران اس کی اہلیت ہی نہیں رکھتے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو یہ امور انہوں نے اپنے ہاتھ اور اختیار میں رکھے ہوتے اور یہ اختیارات انہوں نے جہاں منتقل اور تفویض کر رکھے ہیں یہ ان کا کام ہی نہیں ہے کیونکہ ان کی نظر صرف فوری اور زمینی حقائق پر رہتی ہے‘ نیز ان کے سامنے ہر وقت اس سے کہیں بڑے مسائل ہوتے ہیں اور یہ دونوں کام ایک ہی وقت میں نہیں کئے جا سکتے۔ یہ رویہ کشمیر کے حل کی طرف نہیں بلکہ اس سے
مزید دور لے جانے کا باعث ہے اور یہ امر اس تناظر میں اور بھی افسوسناک اور تشویش انگیز ہے کہ نہ صرف عالمی سطح پر ہم نے اس کے لیے موثر آواز نہیں اٹھائی بلکہ مقامی طور پر بھی اس کے لیے کوئی موثر حکمت عملی وضع نہیں کی۔ حالانکہ سفارتی اور جذباتی سطح پر ہم کشمیری بھائیوں کی جتنی مدد کر رہے ہیں وہ ان کے لیے اس لیے بھی کافی ہے کہ اس سلسلے میں ان کی اپنی جدوجہد میں ایک کامیاب تیزی دکھائی دے رہی ہے۔ مطلب یہ کہ اس سطح کی ہمدردی اور مدد روا رکھتے ہوئے بھی ہم بھارت کے ساتھ دشمنی کا رویہ ترک کر کے دوستی اور باہمی تعاون کا ہاتھ بڑھا سکتے ہیں جس کی خود بھارت کئی بار منافقانہ خواہش کا اظہار کر چکا ہے؛ چنانچہ ہم نے دیکھا ہے کہ ہماری موجودہ حکمت عملی کے باعث نہ صرف یہ کہ کشمیریوں کو کوئی معقول فائدہ نہیں پہنچ رہا بلکہ بھارت کا کشمیر کے حوالے سے رویہ سخت سے سخت تر ہوتا جا رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس نے بین الاقوامی سطح پر اپنے بہت سے بامعنی حمایتی تلاش کر لیے ہیں اور تاریخی لحاظ سے بھی ہمارا موقف درست ہونے کے باوجود کوئی ہماری بات سننے کو تیار نہیں۔
ہمارا دوسرا فوری اور قریبی ہمسایہ افغانستان ہے جسے ایک برادر اسلامی ملک ہونے کے باوجود ہم نے بھارت سے بھی زیادہ ناراض کر رکھا ہے اور سٹرٹیجک گہرائی کے فرسودہ اور بے ثمر فارمولے کو اپنے سر پر سوار کر رکھا ہے جو محض ایک دیوانے کے خواب سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتا اور حقانی نیٹ ورک کا قلع قمع نہ کرتے ہوئے ہم نے امریکہ اور افغانستان دونوں کو ناراض کر رکھا ہے اور یہ الزام بھی اپنے سر لینے کو تیار رہتے ہیں کہ دہشت گردوں کی نرسریاں ہمارے ہاں اب بھی موجود ہیں اور یہ کہ ہماری سرزمین افغانستان اور بھارت میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہوتی ہے اور اس طرح اچھے اور برے طالبان کا شوشہ چھوڑ کر ایک ایسا موقف اختیار کر رکھا ہے جسے کوئی بھی قبول کرنے کو تیار نہیں ہے‘ اس حقیقت کے ساتھ کہ دہشت گردوں کا ایک طبقہ اچھے طالبان کی صورت میں ہماری حکومت کا بھی منظور نظر ہے جو اس کے ووٹ بینک کی حیثیت رکھتا ہے؛ چنانچہ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بھارت اور امریکہ کا گٹھ جوڑ افغانستان میں بھی ہمارے لیے مزید پریشانیاں پیدا کرنے کا باعث ہو سکتا ہے لیکن ہم کانوں میں تیل ڈال کر بیٹھے ہوئے ہیں کہ یہ سارا دردسر فوج کا ہے‘ وہ جانے اور اس کا کام۔
ہم اگر دماغ کو حاضر کریں اور تھوڑی سی بھی عقل سے کام لیں تو بھارت اور افغانستان کے اس معاندانہ رویے کے آگے ایک موثر بند باندھ سکتے ہیں۔ سب سے پہلے ہمیں اپنے گھر کو درست کرنا اور رکھنا ہو گا کیونکہ اس کے بغیر دوستی کا کسی طرف بڑھایا ہوا ہاتھ بھی کام نہیں کرے گا۔ میگا کرپشن اور دراندازی کے جنون سے نکل کر غربت کے خاتمے اور عام آدمی کے مسائل حل کرنے کی طرف توجہ دینی ہو گی اور عوام کو تیزرفتار معاشی ترقی کے جھوٹے خواب دکھانے اور دعوے باندھنے سے گریز کرنا ہو گا۔ یہ تینوں ہمسایہ ممالک ہرگز ایک دوسرے کے دشمن نہیں ہیں۔ صرف دوستی کا راستہ گم ہو چکا ہے جسے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ و ما علینا الا البلاغ۔
آج کا مطلع
بہت کچھ ہو تو سکتا ہے مگر کچھ بھی نہیں ہو گا
مجھے معلوم ہے اُس پر اثر کچھ بھی نہیں ہو گا