اکادمی کے پرچے ''ادبیات‘‘ نے احمد ندیم قاسمی کی یاد میں ایک خاص نمبر شائع کیا ہے۔ مشاہیر کی رخصت کے بعد انہیں یاد رکھنے کی ہمارے ہاں جو روایت ہے‘ اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ 802 صفحات پر مشتمل اس ضخیم شمارے کی قیمت 200 روپے رکھی گئی ہے۔ اس کے نگران اکادمی کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو مدیر منتظم ڈاکٹر راشد حمید اور مدیر اختر رضا سلیمی ہیں۔ برصغیر پاک و ہند کے کم و بیش تمام چوٹی کے ادیبوں‘ شاعروں نے اپنی تحریروں میں ندیم صاحب کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ علاوہ ازیں صاحب شمارہ کا منتخب کلام چیدہ افسانے اور تصاویر شائع کی گئی ہیں جس نے اسے ایک یادگار دستاویزی حیثیت دے دی ہے۔
اس میں خاکسار کا بھی مضمون ''ندیم صاحب‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے جس میں مرحوم کو خراج توصیف پیش کیا گیا ہے۔ اس مضمون کا آخری پیرا قابل ملاحظہ ہے : میرا اپنے سمیت تمام ندیم دوستوں کو مشورہ ہے کہ ندیم کے فن اور شخصیت کو عقیدے کا مسئلہ بنانے کی بجائے اس موضوع کو بحث و تمحیص کے لیے کھلا چھوڑ دیا جائے کیونکہ ایک ادیب اُس وقت تک ہی زندہ رہتا اور یاد رکھا جاتا ہے جب تک اس کا عیب و ہنر زیربحث رہے اور اگر ہم نے ان کے مزار پر خوش عقیدگی کی چادر چڑھا دی تو یہ ان کے حق میں اچھا نہ ہو گا کیونکہ اگر ہم نے ضرورت سے زیادہ لحاظ داری کا مظاہرہ کیا بھی تو زمانہ ایسا نہیں کرے گا اور یہ کام ساتھ ساتھ اپنے آپ ہی سرانجام پاتا رہے گا۔ ہم سب گوشت و پوست ہی کے انسان ہیں۔ غلطیاں بھی کرتے ہیں اور اپنے بُرے بھلے کے بھی خود ہی ذمہ دار ٹھہرتے ہیں۔ موضوع بحث رہنا تو ویسے بھی خوش نصیبی کی بات ہے۔ میں نے یہ بھی لکھا کہ ندیم فوری طور پر ری ایکٹ کرتے اور ''ترکی بہ ترکی‘‘ بلکہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینے میں یقین رکھتے تھے جبکہ فیض ضرورت سے زیادہ بُردبار اور متحمل مزاج تھے۔ یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ ایک بار کسی نے انہیں بتایا کہ حفیظ جالندھری نے فلاں جگہ ان کے خلاف مضمون لکھا ہے تو انہوں نے بات ہنسی میں ٹالتے ہوئے کہا کہ کوئی بات نہیں‘ وہ ہمارے دوست ہیں‘ انہوں نے دوستی کے رنگ میں ہی لکھا ہو گا۔ میرے اور ندیم صاحب کے درمیان شدید اختلافات بھی رہے جس کی وجہ منصورہ تھیں‘ جنہیں وہ ہر وقت ساتھ رکھتے تھے۔ مثلاً اسلام آباد مشاعرے کے لیے جاتے تو منصورہ کے ساتھ ہوٹل کے ایک ہی کمرے میں قیام کرتے۔ بیشک وہ ان کی منہ بولی بیٹی تھیں لیکن یہ شرعاً درست نہیں تھا اور آپ میں سے کوئی بھی اسے درست قرار نہیں دے گا۔ وہ منصورہ کے ساتھ امارات کے کسی شہر میں مشاعرے کے لیے گئے تو وہاں کے ایک اخبار نے لکھا کہ ندیم صاحب اپنی بیگم کے ہمراہ آئے ہوئے ہیں‘ حالانکہ ان کی بیگم کئی برس پہلے فوت ہو چکی تھیں۔
شامت اعمال میں نے ایک بار لکھ دیا کہ اپنی سالگرہ پر ندیم صاحب ہار پہن کر بیٹھ جاتے ہیں اور ان کے نیازمند اُن پر تعریفی مضامین اور نظمیں پڑھتے ہیں۔ کالم چھپا تو کچھ روز بعد نظامی صاحب کا فون آیا کہ ندیم صاحب نے آپ کے خلاف ایک بہت سخت خط لکھا ہے اور ان کا اصرار ہے کہ اسے چھاپا جائے۔ میں نے جواب دیا کہ ندیم صاحب سے کہہ دیں کہ اس کے جواب میں ظفر اقبال جو لکھے گا‘ ہمیں وہ بھی چھاپنا پڑے گا۔ اس پر ندیم صاحب خاموش ہو گئے۔ اس پر بس نہیں‘ میں نے ایک اور اخبار میں کالم لکھا جس میں ایک کتاب میں چھپا ہوا فقرہ میں نے من و عن چھاپ دیا۔ مجھے صفحہ انچارج کا فون آیا کہ ندیم صاحب کا آپ کے خلاف ایک دشنام آمیز خط اشاعت کے لیے آیا ہے لیکن ہم اسے شائع نہیں کر سکتے‘ میں نے کہا : اس کی ایک نقل تو مجھے بھجوا دیں تو جواب ملا کہ اس کی زبان اس قدر سوقیانہ ہے کہ اس کی نقل نہیں دی جا سکتی‘ پھر کہا کہ وہ مجھے فون پر ہی سنا دیجئے‘ لیکن انہوں نے کہا کہ اس کی زبان اس قدر غلیظ ہے کہ فون پر بھی نہیں سنایا جا سکتا۔
ایک بار میں نے سوچا کہ ندیم صاحب اور ڈاکٹر وزیر آغا وہ لوگ ہیں جن کے ساتھ میں نے نصف صدی گزاری ہے اس لیے ان کا یہ استحقاق ہے کہ میری شاعری کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کریں۔ میں ندیم صاحب کے پاس گیا اور کہا کہ لڑائی بھڑائی ایک طرف میرے کلیات ''اب تک‘‘ کی نئی جلد چھپ رہی ہے‘ اس کا پس سرورق لکھ دیں‘ آپ جو لکھیں گے میں چھاپ دوں گا اور خلاف توقع انہوں نے جو لکھا وہ ایک خوبصورت تحریر تھی جو اب تک میں جلد دوم یا سوم کی زینت ہے۔
کالم ختم ہو گیا ہے‘ اس لیے خانہ پُری کے طور پر یہ تازہ غزل حاضر ہے:
قدموں کو تب شمار کیا اور چل پڑے
رستے کا اعتبار کیا اور چل پڑے
پُرخار ایک راہ تھی آگے بچھی ہوئی
اُس کو ہی اختیار کیا اور چل پڑے
مٹی بدن کی جب نہ کسی کام آ سکی
اُس خاک کو غُبار کیا اور چل پڑے
روکا ہوا تھا ایک محبت نے دیر سے
اُس کو گلے کا ہار کیا اور چل پڑے
گھیرے ہوئے تھا ایک ملاقات کا جنوں
سر پر اُسے سوار کیا اور چل پڑے
حسرت سے دیکھتے رہے دریا کو دیر تک
پھر ہم نے اُس کو پار کیا اور چل پڑے
ویسے تو شاید اُس پہ اثر ہو نہ ہو کوئی
اشکوں کو اشتہار کیا اور چل پڑے
ہو گی وہیں پہنچ کے صفائی‘ اگر ہوئی
دامن کو داغ دار کیا اور چل پڑے
ہمت بھی چاہیے تھی سفر کے لیے ظفرؔ
تھوڑا سا انتظار کیا اور چل پڑے
آج کا مقطع
محبت سربسر نقصان تھا میرا ظفرؔ اب کہ
میں اس سے بچ بھی سکتا تھا مگر ہونے دیا میں نے