"ZIC" (space) message & send to 7575

کشور ناہید کا ’’آباد خرابہ‘‘

یہ کتاب سنگِ میل پبلی کیشنز لاہور نے چھاپی اور اس کی قیمت 400 روپے رکھی ہے۔ نام خوبصورت اور معنی خیز ہے۔ ایک فارسی شاعر‘ غالباً عراقیؔ نے اسے خراب آباد لکھا ہے:
نسیما جانب بُستان گزر کُن
بگو آں نازنیں شمشادِ ما را
بہ تشریفِ قُدومِ خود زمانے
مشرف کن خراب آبادِ ما را
پہلے تو سوچا تھا کہ اسے بھی دوسری کتابوں کے ساتھ ہی بھگتا دوں لیکن ایسا نہیں کر سکا کہ اس سے میرے لیے رہائش کا مسئلہ پیدا ہو سکتا تھا کہ رہنا کہاں ہے۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ کشور اُن معدودے چند اہلِ زبان افراد میں شامل ہیں جو اردو کی نسبت پنجابی زیادہ سہولت اور روانی سے بول لیتے ہیں۔ یوسف کامران کے علاوہ اس کی وجہ صوفی تبسم اور فیض صاحب کی صحبت بھی ہو سکتی ہے جن کا اس کے ہاں آنا جانا لگا رہتا تھا۔
کتاب کسی دیباچے ‘ حتیٰ کہ انتساب کے بھی بغیر ہے جو کہ ایک اور اچھی بات ہے۔ پس سرورق یعنی پورے سائز کو گھیرے ہوئے شاعرہ کی رنگین تصویر ہے جو ضروری بھی تھی۔ یہ خوبصورت مجموعہ نظموں اور غزلوں پر مشتمل ہے۔ سرورق قدوس مرزا کا مرہون منت ہے اور گیٹ اپ اعلیٰ۔
واضح رہے کہ اس شاعری کی صرف تعریف کی جا سکتی ہے‘ ویسے بھی یہ مجموعہ کافی دیر کے بعد آیا ہے کیونکہ سماجی و ادبی مصروفیات کے علاوہ اسے کالم کے لیے بھی وقت دینا ہوتا ہے‘ اس لیے اس کی طرف سے شاعری کی کتاب کی اشاعت باقاعدہ ایک خبر کا درجہ رکھتی ہے‘ میں نے اپنی پسندیدہ نظموں پر بھی نشان لگا رکھے ہیں لیکن کالم کی تنگ دامانی کی وجہ سے اس کی ایک ہی نظم پیش کر سکوں گا‘ اور غزلوں سے کچھ اشعار:
خاک ہونے سے پہلے
تمہارے اندر زندگی جاگتی
اور بے قراری پہلو بدلتی ہے
تمہیں زندگی سے بہت محبت ہے
کینسر نے تمہاری آنکھوں کو دریا
اور گفتگو کو خاموشی میں بدل دیا ہے
تم جینا چاہتے ہو
ہر مسیحا کے در پر دستک دیتے ہو
نام بے نام ادویات
تریاق سمجھ کر قبول کر لیتے ہو
کبوتر ہو کہ بلبل ‘ دُعائوں کی گرہیں
ان کے پیروں میں
باندھتے ہو
ہر رات موت سے مکالمہ کرنے کی کوشش میں
تم ہار جاتے ہو
ہر درگاہ سے زندگی مانگتے ہو
۔۔۔۔۔۔۔
اِ س طرف میں
طویل عُمری کی گرفت سے
رہائی پانا چاہتی ہوں
میرے شادابیوں کے پیرہن
بوسیدہ ہو کر لٹک رہے ہیں
میں تو موت سے دوستی کرنی چاہتی ہوں
چلو اِس دوراہے پر
جہاں تم موت کے پاس کھڑے ہو
اور میں زندگی کو زہراب میں بدلنا چاہتی ہوں
لو‘ خضر سی زندگی تم لے لو
اور فنا کی قندیل
میرے ہاتھ میں پکڑا دو
آئو وعدہ کرنے کے لیے
میں چشم براہ ہوں
۔۔۔۔۔۔۔
اپنی بے چہرگی چھپانے کو
آئینے کو اِدھر اُدھر رکھا
فاصلے کم نہ ہوئے‘ شوق سفر کم نہ ہوا
اس سے ملتے رہے‘ بیگانہ روی کم نہ ہوئی
اُجلی شام میں لپٹا وعدۂ تازہ میرے اندر تھا
باہر کیسے جاتی میں‘ دروازہ میرے اندر تھا
ساری بستی سوگوار تھی جب لفظوں کی موت ہوئی
گور پڑا تھا کوئی اور‘ جنازہ میرے اندر تھا
ہوا نے کاٹ دی تحریر میرے اشکوں کی
یہ داغ دل میںنیا آشیاں بناتے رہے
منزلیں راستہ پوچھیں‘ وہ مسافر ہم تھے
آسماں ڈھونڈنے نکلے‘ وہ دعا تھے ہم لوگ
آئینہ دیکھنا منظور نہیں تھا اُس کو
لطف دیتا تھا ہوا بن کے گزرنا اُس کا
معلوم ہے کہ کچھ بھی نہیں دشتِ زیست میں
اُمیدِ خواب ہی پہ گزارا تو ہے ابھی
تربتر ہے مرے ہاتھوں میں وہی جامنی رنگ
تم نے پوچھا تھا کہ ہوتی ہے گھٹا بھی تازہ
مجھ کو دریوزہ گرِ خواب بنا دیتا ہے
جب بھی آتا ہے مری پیاس بڑھا دیتا ہے
کبھی بُھلایا نہیں ‘ یاد بھی کیا نہیں ہے
یہ کیسا جُرم ہے جس میں کوئی سزا نہیں ہے
ہر جبیں لالۂ خوں سے ہے تبیدہ لیکن
دل یہ کہتا ہے اسی کوچے میں آباد رہو
یہ بھی ممکن ہے کہ آنکھیں ہوں‘ تماشا ہی نہ ہو
راس آنے لگے ہم کو تو یہ دُنیا ہی نہ ہو
زندگی چاہیں تو خوابوں کے سوا کچھ نہ ملے
ڈوبنا چاہیں تو حاصل ہمیں دریا ہی نہ ہو
آج کامقطع
وہ نہیں موجود جس شے کی ضرورت ہے، ظفرؔ
جو نہیں درکار وہ کیسی فراوانی میں ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں