شترمرغ
یہ آدھا اونٹ ہوتا ہے اورآدھا مرغ، لیکن اس کی دونوں حیثیتیں مشکوک ہیں، کیونکہ اونٹ تو اس لیے نہیں کہ نہ تو یہ شترغمزے دکھاتا ہے اور نہ ہی بانگ دیتا ہے۔ کہتے ہیں اس کا انڈہ مرغی کے انڈے سے 25 گنا بڑا ہوتا ہے۔ حقیقت میں انڈہ شتر مرغی دیتی ہے اور کریڈٹ یہ لے جاتا ہے۔ اونٹوں کی بھی کئی قسمیں ہیں لیکن مرغ شتر کہیں نہیں پایا جاتا، تاہم یہ شتری چال چل سکتا ہے۔ یہ ایک شریفانہ پرندہ ہوسکتا تھا بشرطیکہ اس کی گردن اور ٹانگیں اس قدر لمبی نہ ہوتیں۔ اس کا شمار خوردنی پرندوں میں ہوتا ہے، حالانکہ اسے پرندہ کہنا زیادتی ہے۔
مرغی
یہ دو ملائوں میں حرام ہو جاتی ہے۔ اس لیے اسے ذبح کرنے کے لیے ایک یا دو ملائوں کا بندوبست کرنا پڑتا ہے۔ مرغی پھانسنا باقاعدہ ایک آرٹ ہے، چنانچہ ہمارے ہاں نوجوان اکثر مکمل آرٹسٹ ہوا کرتے ۔ اسے پھانسنے کے لیے صرف ایک کوڑی درکار ہوتی ہے، ایک مضبوط دھاگا اور تھوڑا سا آٹا۔ آٹا آلود کوڑی کو مرغی کے آگے ڈال دیتے ہیں، وہ اسے نگل لیتی ہے پھر اسے اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں، لیکن اگر آپ کمزور ہوں اور مرغی تگڑی ، تو وہ آپ کو بھی کھینچ کر لے جاسکتی ہے۔ مرغے کی ایک ٹانگ ہوتی ہے لیکن مرغی کی دونوں۔
کبوتر
کافی حدتک اسلامی پرندہ ہے۔ مسجدوں کے دالانوں میں زیادہ تر پایا جاتا ہے۔ اس کی دوقسمیں ہیں، جنگلی اور شہری۔ شہری کبوتروں کی آگے مزید قسمیں ہیں جس نے کبوتر پال رکھے ہوں وہ کبوتر باز کہلاتا ہے جیسے بلے باز، نخرے باز اور بہانے باز وغیرہ۔ کبوتر باز ایک مخصوص وقت پر کبوتر کو فضا میں چھوڑ دیتا ہے اور جب تک وہ واپس نہ آئے کبوتر باز کا منہ آسمان ہی کی طرف ہوتا ہے۔ ایک بولی ہے:؎
تیری ہک تے آہلنا پایا
نی جانگلی کبوتر نے
بٹیر
اسے پکڑنے کے لیے اندھا ہونا ضروری ہے اور یہ اپنے آپ ہی اس کے پائوں تلے آ جاتا ہے۔ کہتے ہیں بھوکا بٹیر زیادہ لڑتا ہے، اس لیے بٹیر باز اپنے بٹیر کو زیادہ تر بھوکا ہی رکھتا ہے اور اسی حالت میںوہ اللہ کو پیارا ہو جاتا ہے۔ یعنی بٹیر صرف بٹیر کے ساتھ لڑتا ہے۔ اسے تیتر کے ساتھ لڑتے آج تک کسی نے نہیں دیکھا ماسوائے صوفی تبسم کے جو کہتے ہیں:
ایک تھا تیتر ایک بٹیر... لڑنے میں تھے دونوں شیر
لڑتے لڑتے ہوگئی گم... ایک کی چونچ اور ایک کی دم
تیتر
ہر وقت سبحان تیری قدرت کا ورد کرتا ہے۔ شکار کرنے،کھانے کے علاوہ پالنے کے کام آتا ہے۔ اس کی مونث تیتری کو اکثر کوئی نہ کوئی حادثہ پیش آیا رہتا ہے، مثلا بقول شاعر:؎
کالی تتری، کماد وچوں نکلی
تے اُڈدی نوں باز پے گیا
یہ بھورے رنگ کا ہوتا ہے یا کالا۔ پالنے کے لیے کالے کو ترجیح دی جاتی ہے، تاہم اگر کالا تیتر دستیاب نہ ہو تو بھورے کو رنگ دے کر کالا کرلیا جاتا ہے۔
فاختہ
یہ امن کی علامت ہے، لیکن یار لوگوں نے جال لگا لگا کر اس کی نسل ہی ختم کردی ہے، اسی لیے بھارت اور پاکستان میں امن قائم نہیں ہو رہا۔ فاختہ انڈے دیتی ہے جن سے کوا ضیافت کا اہتمام کرتا ہے۔ قمری اس سے ذرا چھوٹی ہوتی ہے لیکن زیادہ خوبصورت۔ بقول غالب:؎
قمری کف خاکستر و بلبل قفس رنگ
اے نالہ نشانِ جگر سوختہ کیا ہے
علامہ اقبال کی داستان جن پرندوں نے اڑا لی تھی اس میں بلبلوں وغیرہ کے ساتھ قمری بھی شامل تھی لیکن صاحب موصوف نے کسی سے بھی بازپرس کرنا ضروری نہ سمجھا۔
تلیر
سخت باتونی جانور ہے۔ اسے ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں پڑتی، جس پیڑ پر بیٹھے ہوں، اتنا شور مچا رہے ہوتے ہیں کہ بہت دور سے پتا چل جاتا ہے کہ تلیر کہاں ہیں۔ اس بات پر تحقیق جاری ہے کہ یہ آپس میں اتنی تیزی سے بولتے ہیں یا ہر کوئی اپنی ہی ہانکے چلا جاتا ہے۔ کراچی میں نسبتاً زیادہ پائے جاتے ہیں۔ یہ دو قسم کے ہوتے ہیں، سیاہ اور گرے ، برائون‘ لیکن بولنے میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر۔ ان کا شکار بھی شوق سے کیا جاتا ہے‘ لیکن گوشت کی مقدار اس قدر کم ہوتی ہے کہ شکاری کو شرمندگی سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ کراچی والے اور مقامی تلیر آپس میں پیار محبت سے رہتے ہیں۔
چڑے
چڑے کے خواص کا اگر عربی اور قطری شہزادوں کو پتا چل جائے تو وہ تلور کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھیں۔ ان کا شمار باقاعدہ مقویات میں ہوتاہے۔ گوجرانوالہ میں کوئی چڑا نہیں پایا جاتا، البتہ دیگر اضلاع میں خال خال موجود ہیں، تاہم بیوہ چڑیاں خاصی مقدار میں پائی جاتی ہیں جو عام طور پر خوراک حاصل کرنے کے لیے اکٹھی نکلتی ہیں اور کسان کو پتا اس وقت چلتا ہے جب وہ سارا کھیت چگ چکی ہوتی ہیں۔ اکثر جگہوں پر تو یہ پر بھی نہیں مارتیں۔ شوقین لوگ اڑتی چڑیوں کے پر گننے میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ ڈار کی صورت اکھٹی ہو کر اڑتی ہیں جس کا اسحاق ڈار صاحب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس کے شکاریوں کو چڑی مار کہتے ہیں۔
پدی
یہ اس قدرمختصر پرندہ ہے کہ اس کا پتہ چلانے کے لیے اس کا شوربہ بنانا پڑتا ہے۔ اگر شوربہ پدی کا ہو تو سمجھ لیجیے کہ یہ پدی ہی تھی۔ دور سے آ رہی ہو تو پتا نہیں چلتا کہ پدی ہے یا کالی بھڑ۔ بہت خوبصورت اور سمارٹ پرندہ ہے؛ اگرچہ جسامت کے حساب سے نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہم قافیہ ہونے کے لحاظ سے اسے ضدی بھی ہونا چاہیے۔ پتا نہیں اس کا مذکر پدا کہلاتا ہے یا کچھ اور۔ اور معلوم نہیں ہوتا کہ ہے بھی یا نہیں، کیونکہ اس کے ہونے سے کوئی فرق تو پڑتا نہیں۔ حق بات تو یہ ہے کہ پدی کے ہونے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا، حالانکہ یہ خود اپنے آپ کو پرندہ ہی سمجھتی ہوگی!
آج کا مطلع
پلکوں پہ چمکتا ہوا آنسو ہی بہت ہے
اتنی سی محبت کی یہ خوشبو ہی بہت ہے