بُخار
ایک سے زیادہ آدمیوں کو ہو تو اُسے بُخارات کہتے ہیں۔ اس کی تین قسمیں ہیں۔۔۔۔ ملیریا‘ مُحرقہ اور نمونیہ۔ منقول ہے کہ ایک شخص نے ڈاکٹر کے کمپائونڈر سے شکایت کی کہ ڈاکٹر صاحب نے ہمارے مریض کو ملیریا بتایا تھا لیکن اُس کی موت تپ محرقہ سے ہوئی۔ کمپائونڈر نے کہا کہ ہمارے ڈاکٹر صاحب جس مرض کی تشخیص کریں وہ اُسی مرض سے مرتا ہے۔ بُخاری حضرات عام طور پر بخار میں مبتلا رہتے ہیں۔ ڈبل روٹی کی طرح ایک ڈبل نمونیہ بھی ہوتا ہے جو سنگل نمونیے سے تقریباً دوگنا ہوتا ہے۔ ایک تپ دق بھی ہوتا ہے جو مریض کو دق کرنے سے باز نہیں آتا۔ اس بخار میں تھرما میٹر لگانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ کسی کام کی بہت فکر لگی ہوئی ہو تو وہ بھی بخار کہلاتی ہے۔ ملیریا مچھر کے کاٹنے سے ہوتا ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ مچھر دانی لگا کر سوئیں جسے مسہری بھی کہتے ہیں۔ بقول شخصے مسہری لگانے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ مُسہری لگا کر اُس کا ایک کونہ اٹھا دیں۔ جب سارے مچھر اس میں داخل ہو جائیں تو خود باہر سو جائیں۔ تیز بخار سے جسم پُھنک رہا ہوتا ہے حالانکہ یہ غلط ہے‘ جسم کیسے پھُنک سکتا ہے۔ کونین اس قدر کڑوی ہوتی ہے کہ اس کی بجائے بخار میں رہنا ہی بہتر ہے۔
سردرد
ایک آدھے سر کا درد ہوتا ہے اور یہ اُن لوگوں کو ہوتا ہے جن کے سر آدھے ہوں۔ صحیح بات ہے‘ سر اگر آدھا ہو گا تو ظاہر ہے کہ سر درد بھی آدھا ہی ہو گا۔ کئی کام بھی درد سر ہو جاتے ہیں یعنی اُن کے کرنے سے اچھے بھلے سر میں درد ہو جاتا ہے۔ اسے سر دردی بھی کہتے ہیں۔ دبانے سے بھی سر درد رفع ہو جاتا ہے‘ اس لیے جو افراد اس کا علاج افورڈ نہیں کر سکتے وہ سر دبوا کر ہی فارغ ہو جاتے ہیں۔ بعض لوگ دائمی سردرد کے بھی مریض ہوتے ہیں۔ انہیں علاج کرانے کی ضرورت نہیں پڑتی؛ چنانچہ اس سے گلوخلاصی کے لیے وہ مرنے کا انتظار کرتے ہیں۔ بیوی اگر سر درد کا بہانہ کرے تو سمجھ لیجیے کہ اس کی نیت میں فتور ہے۔ زیادہ سوچنے سے بھی یہ درد لاحق ہو جاتا ہے‘ اس لیے عقلمند لوگ سوچنے سے پرہیز کرتے ہیں۔
سرطان
سرطان دو طرح کا ہوتا ہے یعنی عام سرطان اور کرپشن کا سرطان۔ دونوں ہی تقریباً لا علاج ہیں۔ پورے پاکستان میں سرطان کے صرف دو ہسپتال ہیں‘ اس لیے اس میں سوچ سمجھ کر مبتلا ہونا چاہیے۔ اگر عمران خان کی والدہ کا انتقال سرطان سے نہ ہوتا تو ملک میں شاید سرطان کا ایک بھی ہسپتال نہ ہوتا۔ سرطان اور ذیابیطس کا اگر دیر تک پتا نہ چلے تو بہت جلد اللہ میاں کے پاس پہنچا دیتے ہیں‘ اس لیے قرب الہی کے خواہشمندوں کو منزل مقصود پر پہنچانے کا زبردست وسیلہ یہی دو امراض ہیں۔ یہ اگر لاحق ہو جائے تو پورے جسم میں اندر ہی اندر سرطان کی طرح پھیل جاتا ہے۔ ایک مریض کا خرچہ دس لاکھ روپے بتایا جاتا ہے، اس لیے یہ امیر لوگوں کی بیماری ہے اور انہی کو ہونا بھی چاہیے۔ انگریزی میں اسے کینسر کہتے ہیں اور سرطان کے ہسپتال کو کینسر ہسپتال۔ علم فلکیات کے حساب سے کچھ لوگ ویسے بھی سرطانی ہوتے ہیں؛ اگرچہ وہ سرطان کے مریض نہیں ہوتے لیکن کسی وقت ہو بھی سکتے ہیں کہ یہ آزاد منش مرض ہے‘ کسی کو بھی لاحق ہو سکتا ہے‘ اس لیے زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں۔
ہیپاٹائٹس
حروف تہجی کی طرح اس کے تین درجے ہیں یعنی اے‘ بی اور سی۔ ہمارے ہاں سب سے مقبول مرض یہی ہے بلکہ اسے اگر اپنی قومی بیماری کہا جائے تو کچھ ایسا غلط نہ ہوگا کیونکہ ہر تیسرے شخص کو لاحق ہوتا ہے۔ ہیپاٹائٹس سی کے مریض کو علاج کی بجائے اللہ اللہ کرنی چاہیے۔ نیز سی والے مریض کو اس کے حال پر چھوڑ کر نارمل زندگی گزارنی چاہیے کہ اس نے ٹھیک تو ہونا نہیں، اس پر سر کھپانے کا فائدہ ہی کیا ہے۔ مزدوروں یعنی دھوئیں اور گردغبار میں کام کرنے والوں کو اس کا انتظار کرنا چاہیے کہ یہ کسی وقت بھی ہو سکتا ہے۔ سرطان کی طرح اس کا عالج بھی اس قدر مہنگا ہے کہ اس کے مریض کو اللہ سے لو لگا لینی چاہیے یعنی ثواب کا ثواب اور اس سے گلوخلاصی۔ اس کے لیے سرکاری ہسپتالوں میں دھکے کھانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اول تو وہاں اس کی دوا ہوتی ہی نہیں‘ اور اگر ہو بھی تو نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ وہ دستیاب ہی نہیں ہو گی، لہٰذا صبر ہی سب سے اچھی دوا ہے۔
آشوب چشم
اس کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ خاص الخاص قسمیں دو ہیں یعنی کالا موتیا اور سفید موتیا؛ حالانکہ کالا موتیا کہیں ہوتا ہی نہیں۔ اگر آپ نے کھلا یا ہاروں کی شکل میں کہیں دیکھا ہے تو ضرور بتائیں۔ دُھند‘ غبار اس کے علاوہ ہیں۔ آنکھوں کے آپریشن کو آنکھیں بنوانا بھی کہتے ہیں جو کہ غلط ہے۔ اس کی ایک شکل آنکھوں سے پانی بہنا بھی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ آپ رو رہے ہیں۔ آنکھوں میں نقص یا کوئی عارضہ ہو تو ایک کے دو بھی نظر آتے ہیں۔ بھینگا ہونا کوئی بیماری نہیں ہے بلکہ ایک مختلف اور خاص شناخت ہے۔ آنکھ کے امراض سے صرف نابینا حضرات ہی محفوظ رہتے ہیں اس لیے وہ خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس کے کسی عارضے میں مبتلا نہیں ہوئے۔ آنکھوں میں دھول جھونکنے سے بھی کسی طرح کے آشوب چشم میں مبتلا ہوا جاتا ہے۔ یہ کام زیادہ تر سیاست دان کرتے ہیں، عوام ہی جس کا شکار ہوتے ہیں۔ آنکھ مارنا کوئی بیماری نہیں بلکہ آنکھ کے صحت مند ہونے کی نشانی ہے۔ آنکھیں دُکھنے آئی ہوں تو کالا چشمہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے دوسروں کو بیماری کا پتا بھی نہیں چلتا۔
کھانسی
اس کا تعلق سانس سے ہے جو آتی بھی ہے اور نہیں بھی آتی۔ کھانسی اسی کی قسم ہے۔ کسی کو متوجہ کرنے کے لیے بھی کھانسا جاتا ہے جو کہ اس پنجابی بولی میں واضح کیا گیا ہے ؎
کھنگھ کے نہ لنگھ مُنڈیا
میری سّس وہماں دی ماری
کھانسی دو طرح کی ہوتی ہے یعنی کالی کھانسی اور گوری کھانسی۔ کالی کھانسی کو گورا کرنے کے کئی بیوٹی کریمیں بازار میں دستیاب ہیں۔ امریکہ کی ایک بہت بڑی سگریٹ کمپنی اپنی پراڈکٹ کی سالگرہ منا رہی تھی کہ انہیں پتا چلا کہ فلاں ریاست کے فلاں گائوں میں ایک بوڑھا شروع سے ہی اس برانڈ کے سگریٹ پی رہا ہے۔ چنانچہ انہوں نے تصدیق کے لیے اپنا آدمی بھیجا جسے گائوں والوں نے بتایا کہ واقعی یہ بزرگ ساٹھ سال سے یہی برانڈ پی رہا ہے۔ وہ شخص اس بزرگ کے پاس گیا اور اس سے پوچھا‘ بابا جی! کیا آپ نے کبھی جیٹ جہاز پر سفر کیا ہے؟ بابا جی نے کہا‘ کیا تو نہیں لیکن اس کی تعریف بہت سنی ہے‘ خوبصورت ایئر ہوسٹس خوب خاطر خدمت کرتی ہیں۔ اس نے پھر پوچھا: بابا جی! کبھی فائیو سٹار ہوٹل میں ٹھہرے ہو؟ بابا جی نے کہا نہیں۔ اس نے بابا جی سے پھر پوچھا کہ کبھی وہ ٹی وی پر آئے ہیں؟ بابا جی بولے‘ یہ تو نری عیاشی ہے۔ اس کے بعد اُس شخص نے کہا کہ فلاں تاریخ کو ہمارا ایک آدمی آ کر آپ کو ہوائی جہاز سے لے جائے گا اور دوسرے دن صبح کے سات بجے آپ ٹی وی کے سامنے ہوں گے۔ بابا جی نے کہا یہ مجھے منظور نہیں ہے کیونکہ یہ تو میرے کھانسنے کا وقت ہوتا ہے!
آج کا مقطع
ظفر‘ کچھ شور میں نے اور بھی کرنا تھا‘ جانے کیوں
یہ چپ سی لگ گئی ہے بے صدا ہونے سے پہلے ہی