اگلے روز لاہور پریس کلب میں ''سوشلزم ہماری معیشت ہے‘‘ کے موضوع پر ایک اہم سیمینار کا اہتمام کیا گیا جس میں ڈاکٹر مہدی حسن‘ راشد رحمن‘ ڈاکٹر افضل خان‘ پروفیسر راشد احمد اور ابرار اعظم نے حصہ لیا‘ تاہم اس کی مرکزی سپیکر غنویٰ بھٹو ہی تھیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اکثر اخبارات انگریزی‘ اُردو نے اس کا ذکر کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ شاید اس لیے کہ ملک عزیز اس وقت جن سیاسی جماعتوں کے شکنجے میں ہے وہ ساری کی ساری دائیں بازو سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس اجلاس کا ون لائنر یہ رہا کہ اگر سوشلزم کو اپنایا جاتا تو ملک کی حالت وہ نہ ہوتی جو نظر آ رہی ہے۔ ہماری صحافت مختلف ٹیبوز کی شکار ہے۔ کسی اقلیتی فرقے یا مسلک کے کسی فرد کا قتل ہو جاتا ہے یا انہیں کسی مالی نقصان سے دوچار کر دیا جاتا ہے تو میڈیا کے زیادہ ستون اسے بڑے آرام سے نظرانداز کر دیتے ہیں‘ ایسے واقعات کی مذمت یا ان پر صدائے احتجاج بلند کرنا تو دور کی بات ہے۔ مساجد کے لائوڈ سپیکرز پر دن رات ایک دوسرے فرقے کے خلاف جس طرح کی تبّرے بازی کی جاتی ہے‘ قانون موجود ہونے کے باوجود اس کا انسداد نہیں کیا جاتا کیونکہ سیاسی مصلحتیں سدّراہ ہوتی ہیں۔ جہاں تک سوشلزم کا تعلق ہے تو یہ اسلام کے خلاف نہیں بلکہ کٹھ مُلائیت کے خلاف ہے جس سے حکیم الامت کا کلام بھرا پڑا ہے۔ پیپلز پارٹی نے 80ء میں سوشلزم کا نعرہ لگایا تھا تو اس وقت کوئی قیامت نہیں ٹوٹی تھی بلکہ الیکشن میں اسے بے مثال کامیابی حاصل ہوئی تھی‘ اس لیے کہ وہ عوام اور ان کے مسائل کی بات کرتے ہیں لیکن اس پارٹی نے سوشلزم کے نعرے اور اپنے منشور کے اس بنیادی نکتے کو فراموش کیا تو اس کا زوال شروع ہوا اور وہ عوام سے دُور ہوتی چلی گئی اور اب اس کی جو حالت ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
غنویٰ بھٹو کے نزدیک نوازشریف‘ زرداری اور عمران خان سب ڈرامے باز ہیں۔ سوشلزم سیاسی سے زیادہ علمی بات ہے۔ سیاست اس کا لازمی حصہ ضرور ہے کیونکہ یہ براہ راست عوام سے خطاب کرتا ہے۔ ہم اس بات پر غور کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں کہ ہمارا موجودہ نظام ہی کرپشن سمیت ساری خرابیوں کا منبع ہے۔ اس موضوع کو اس قدر اچھوت بنا دیا گیا ہے کہ یہ ہماری گفتگو کا حصہ ہی نہیں بن سکا۔ ملک میں بائیں بازو کا کوئی اخبار یا قابلِ ذکر رسالہ نظر نہیں آتا۔ ہفت روزہ ''ہم شہری‘‘ اس طرح کا ایک نظریاتی پرچہ تھا وہ بھی اب بند ہو چکا ہے۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کے ہفتہ وار اجلاس البتہ باقاعدگی سے ہوتے ہیں‘ اللہ اللہ خیر سلاّ۔
بلاول بھٹو زرداری‘ جن کے بارے میں غنویٰ بھٹو کا کہنا ہے کہ وہ بھٹو نہیں بلکہ زرداری ہے‘ نے پچھلے دنوں پارٹی کے پروگریسو چہرے کو اُجاگر کرنے کی بات ضرور کی ہے لیکن زرداری سمیت‘ جو زعما اس کے اردگرد نظر آتے ہیں وہ پروگریسو تو کیا، پروگریسو ازم کی ضد ضرور ہیں، اس لیے اس نعرے پر اعتبار کرنے یا اسے سنجیدگی سے لینے کو کوئی تیار ہی نہیں ہے کیونکہ یہ ایک اور دھوکہ ہے جو یہ پارٹی لوگوں کو دینا چاہتی ہے، جس میں یہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔
جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے‘ سوشلزم ایک علمی موضوع بھی ہے۔ یاد رہے کہ بھٹو کے منشور سازوں نے اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگایا تھا۔ ویسے بھی‘ اگر انصاف سے دیکھا جائے توپیپلز پارٹی کا مرکزی سلوگن روٹی کپڑا اور مکان تھا‘ بیشک اس کو پارٹی نے فراموش کر دیا لیکن اس میں موجود حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آج بھی یہ نعرہ کارگر ہو سکتا ہے بشرطیکہ اس کی آواز بلند کرنے والوں میں ذرا سا بھی خلوصِ نیت موجود ہو۔
جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے، ملک میں ساری سیاسی جماعتیں دائیں بازو سے تعلق رکھتی ہیں اور بقول غنویٰ بھٹو سب اپنے اپنے مفادات کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں اور عوام کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کی بجائے‘ حتیٰ الامکان زر اندوزی میں لگی ہوئی ہیں‘ حکومت تو رہی ایک طرف اپوزیشن والے بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔ اس لیے ان سے یہ توقع کرنا کہ یہ سوشلزم جیسے سخت گیر نظام کے بارے میں بات ہی کرنے یا سُننے کے لیے تیار ہوں ایک خوشدلانہ خواہش کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
ڈاکٹر مہدی حسن نے بڑے پتے کی بات کی کہ نظریہ ختم نہیں ہوتا۔ آپ سوویت یونین ہی کی مثال لیں‘ پارہ پارہ ہونے کے باوجود نظریہ پھر وہاں جڑ پکڑ رہا ہے اور اُسے بائیں بازو ہی کی ریاست مانا جاتا ہے۔ ہمارا نظام استحصالی ہے، جہاں کچھ لوگوں نے معیشت پر قبضہ کر رکھا ہے۔ غنویٰ بھٹو نے اپنے خطاب میں اور بھی بہت سی باتیں کہیں لیکن ان کا بنیادی زور اسی بات پر تھا کہ پاکستان میں سرگرم سیاسی پارٹیاں عوام کے مسائل کو نظر انداز کر رہی ہیں‘ سرمایہ دارانہ نظام ناکام ہو چکا ہے‘ عام آدمی کے مسائل کا حل سوشلزم میں ہے‘ ہمیں اپنی ترجیحات بدلنا ہوں گی‘ ملک میں اس وقت اصولی سیاست نہیں ہو رہی۔ امریکہ میں ٹرمپ کی جیت سے ثابت ہو گیا کہ جمہوریت انسان کو بہتر نہیں بنا سکی۔ حکمران معیشت پر قبضہ کیے ہوئے ہیں۔
سوشلزم ایک نظریہ ہے‘ اس پر بات ہونی چاہیے‘ اس پر بحث ہونی چاہیے۔ تازہ ترین خبر یہ ہے کہ سندھ اسمبلی نے اقلیتوں کے حوالے سے ایک بل پاس کر کے گورنر کے دستخط کے لیے بھیجا لیکن گورنر نے یہ کہتے ہوئے اسمبلی کو واپس کر دیا ہے کہ یا تو اسے واپس لے لیا جائے یا اس میں اسلامی حلقوں کی خواہش کے مطابق ترمیم کی جائے۔اسلامی حلقوں کا مطالبہ ہے کہ مذہب تبدیل کرنے کے لیے بلوغت کی شرط نہ رکھی جائے ع
بہ بیں تفاوتِ راہ از کُجاست تا بہ کُجا
اس موضوع پربحث ہو سکتی ہے اور علمائے کرام سے اس پر افہام و تفہیم بھی ممکن ہے۔ چنانچہ میرا زور اسی بات پر ہے کہ آپس میں نوٹس تبدیل کئے جائیں اور کوئی مسئلہ ایسا نہیں جس کا حل موجود نہ ہو۔ اسی نکتے پر بحث ہونی چاہیے کہ ا سلامی مساوات کا نظریہ سوشلزم سے کس قدر قریب یا دُور ہے! نیز اسلام سے زیادہ پروگریسو نظریہ اور کیا ہو سکتا ہے؟
آج کا مقطع
گھیرا ہوا ہے اس کی حدوں نے اسے‘ ظفر
یہ شہر وہ ہے جس کے مضافات ہی نہیں