یہ بات عجیب سی تو لگی لیکن میں نے اسے پسند کیا۔ ہاتھی ہے تو اس سے کام بھی لیا جانا چاہیے۔ پٹرول بچانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے۔ پان کوئی کھلائے تو میں میٹھا کھا سکتا ہوں۔ محمود صاحب نے کورٹ کے صدر دروازے سے متصل پان والے سے پان خریدے۔ دو چھوٹے چھوٹے پیلے سے پتّوں پر مشتمل‘ دو نہیں ایک پان شمار کیا پان والے نے اور ہم جُگالی کرتے ہوئے چندن گیسٹ ہائوس کو آئے۔ یہاں ہمارے ہم سفر پاکستانی سفارت خانے سے وقت لے چکے تھے۔ کرائے کی موٹر پکڑی گئی۔ ایمبیسیڈر موٹر عام ہے ہندوستان ہی کی بنی ہوئی۔ خوب کام دیتی ہے۔ شکل اچھی نہیں کام اچھا ہے۔ اپنی چیز ہے اِن کی‘ باہر کا مال تو سرے سے آ ہی نہیں سکتا۔ زندہ قوم کی ایک علامت یہ بھی ہے۔ پاکستانی سفارت خانے میں سفیرِ پاکستان تو تشریف نہیں رکھتے تھے‘ وزیر نشرو اشاعت (پریس منسٹر) حسن عسکری سے ملے۔ حسن عسکری سے متعلق رئیس امروہوی‘ اختر فیروز مکالمہ اس طرح ہوتا رہتا تھا۔ میں سمجھا ہو گا کوئی نو عُمر سا مُرید رئیس صاحب اور یار اختر فیروز کا۔ وہاں جا کر دیکھا تو ایک معزز اور محترم شخصیت سے سابقہ پڑا۔ یہ لوگ زیادہ کُھل ہی نہ سکے اُن کے سامنے۔ یہ رسم دل کے چور کو یکسُو کرنے کے لیے پوری کی گئی تھی مبادا بے پرکی ہانکنے پر کہیں گرفت ہو تو کہا جا سکے حضور ہم نے تو پہلا سلام ہندوستان میں اُترتے ہی پاکستانی سفارتخانے کا کیا تھا۔ حسن عسکری صاحب نے کہا بس ذرا یہ خیال رکھیے گا یہ لوگ گھیر گھار کر 'ہم ایک ہیں‘ کی بھول بھلیّوں میں لے آتے ہیں۔ سفارت خانے کی شاندار عمارت دیکھ کر رئیس صاحب نے پوچھا یہ کب بنی تھی۔ بتایا گیا فیروز خاں نون کے زمانے میں اس کی بنیاد پڑی تھی۔ معاً فرمایا‘ اچھا تو یہ عمارت فیروز خاں نون کے لیے منحوس ثابت ہوئی۔ میں نے بعد میں ٹوکا‘ یہ بھی کوئی کہنے کی بات تھی۔ حصول ویزا کے لیے اچھا خاصا رش تھا۔ تین چار سو ویزے روزانہ
جاری کیے جاتے ہیں‘ کراچی سے ایک ہزار۔ سفارت خانے سے نکلنا تھا کہ اختر فیروز اور رئیس ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو گئے۔ ٹیکسی والا ہمارا منتظر تھا۔ اختر فیروز بہت نمایاں ہونے کی تگ و دو میں غلطاں نظر آنے لگے۔ اُچک کر اگلی نشست پر پہلے بھی بیٹھ چکے تھے‘ اب بھی بیٹھے۔ رئیس صاحب کو پچھلی نشست پر ہمارے ساتھ دھنس اور دبک کر بیٹھنا پڑا۔ حفظِ مراتب بھی ایک روایت سُن تو رکھی ہے ہم نے۔ چاندنی چوک چلیں دہی بڑے کھائیں گے‘ کھاری بائولی میں چاٹ اچھی ملے گی‘حوض قاضی میں آلو کی ٹکیاں۔ عجیب خرمستی کا عالم۔ ستر برس کے رئیس‘ پچاس کے اختر فیروز‘ ساٹھ کے محمود صاحب۔ حالت میں آپ کو بتائوں وہ تھی جو ایک زمانے میں میری ہوا کرتی تھی۔ عمر ہی کیا تھی یہی بارہ پندرہ سال۔ ابا نے ہمیں رئیس احمد جعفری کے حوالے اس اُمید پر کر دیا کہ بیٹا کچھ پڑھ لکھ بھی لے گا اور خاص طور پر اُردو بولنے میں چاق چوبند تو ہونا تھا۔ یہ اہتمام اس لیے تھا‘ یو پی والوں میں رہ کر مہذّب بھی بننا ہے ۔ دوسرے چوتھے مہینے کراچی سے گھر آنا اور ابّا امّاں بہنوں سب سے الگ الگ جیب خرچ لے کر ''سیدھا بندر روڈ‘‘ پر سندھ جاگیر دار ہوٹل کی چھت پر لکڑی کے کٹیا نما کمرے میں سامان رکھا اور نکل کھڑے ہوئے۔ تین روپے کیا کرایہ ہوتا ہے۔ ایک اور ہوٹل ''مائی اون آگرہ‘‘ ہوٹل پر بھی میری یلغار رہی۔ دس روپے میں خوب بڑا سجا سجایا کمرہ مل جاتا تھا۔ درو دیوار کے علاوہ فرش تک ساگوان کا بنا ہوا، سیر زیادہ تر فلموں کی رہا کرتی تھی‘ ایک دو تین تین فلموں روزانہ تھوک کے حساب سے دیکھ داکھ کر ہم گھر میں داخل ہوتے۔ بالکل وہی کیفیت اِن بوڑھوں کی تھی‘ چُلبلے کھلنڈرے۔ کسی شخصیت سے ملاقات‘ کسی تاریخی مقام
کی سیر دیکھنے کی کوئی تجویز‘ کسی تحریک کا شائبہ تک نہ تھا۔ میں تو سب جانتے ہیں مشاہیرِ ہند سے ملاقاتوں اور تاریخ کے مطالعے کے لیے گھر سے نکلا تھا۔ رئیس صاحب کے طفیلیوں میں رہوں گا تو مشاہیرِ ادب کی زیارت کے زیادہ مواقع ملیں گے۔ میں نے اڑنگا لگایا۔ تقسیمِ ہند کے بعد آپ ہی بتا رہے تھے پہلے پہل جب آپ تشریف لائے تھے یہاں تب کی بات اور تھی‘ آپ کے لیے بھی پولیس تھانے کی حاضری کی پابندی ضروری تھی۔ لیکن اب تو کراچی میں ہندوستانی سفارت کار ہم نے دیکھ ہی لیا‘ پاک ہند سبھا کا صدر جس کو چاہے کھڑے کھڑے ویزا دلا دے۔ میرا پاسپورٹ دیر سے کیا آیا‘ آپ نے دس اور پکڑا دیے۔ ہندی سفارتکار نہ صرف گھبرائے‘ انکار کر دیا اور ساتھ ساتھ یہ تک آپ کے کارکن یوسف صاحب سے کہہ گزرے‘ رئیس صاحب سے کہیے ہمارے ہاں قانون قاعدہ ہے‘ مارشل لاء نہیں ہے۔ لہٰذا میں تو خفیہ پولیس کے دفتر کی حاضری کا پابند ہوں‘ سیر تماشا ہوتا رہے گا‘ چلیے پہلے وہاں چل کر دہلی میں داخل ہونے کی اطلاع تو درج کرا لیں۔ اختر فیروز اور رئیس امروہوی کی جوڑی یک زبان ہو کر چلائی‘ بھائی کیا جلدی ہے‘ کرالیں گے۔ واہ صاحب دوپہر ہو چکی ہے‘ شام ہوتے ہوتے چوبیس گھنٹے پورے ہو جائیں گے اور اس کے بعد ہماری ڈھونڈیا پڑ جائے گی‘ کہاں گئے یہ پاکستانی‘ پکڑو‘ کہیں جاسوسی نہ کرتے پھرتے ہوں‘ بمشکل تمام میں نے ناک بھوں چڑھائی تو موٹرکا رخ خفیہ پولیس کے دفتر کی طرف پھیرا گیا۔ ایک بلند و بالا عمارت کے نچلے حصے کے ایک کونے میں پاکستانیوں کے لیے علیحدہ ایک شعبہ قائم کیا گیا ہے۔ میرے ہم سفر بیقرار مضطرب اور بدحواس خدا جانے یہاں کتنی دیر لگے گی یار، تم ایسا کیوں نہیں کرتے اندراج کرالو‘ ہم ذرا چاندنی چوک تک ہو آئیں۔ میں نے سوچا کیا حماقت ہے‘ میں کوئی بچہ تو نہیں ہوں۔ دیارِ غیر سے پہلا سابقہ ہی سہی‘ سبھی کچھ بُھگتو گے تو کچھ تربیت بھی ہو گی۔ میں ہاں ناں بھی نہ کر پایا تھا کہ یار لوگ اُڑنچھو ہو گئے۔ یہ تھا سیماب وشی کا پہلا تیر جو ساتھیوں کے ترکش سے میرے جسمِ ناتواں اور ذہنِ حساس میں پیوست ہوا۔ کاغذات کی خانہ پُری میں زیادہ سے زیادہ دس پندرہ منٹ لگے اور میں خفیہ پولیس کی دفتری گھٹن سے سڑک کی کھلی فضا میں آ گیا‘ سامنے ہی رکشا والوں کی بھیڑ تھی ۔ شلوار قمیض اور پاکستانی کی مناسبت سے کچھ مکالمہ ہوا‘ چلتے ہو بھائی؟ ہاں ہاں کیوں نہیں چلیں گے‘ بتائو یہ سڑک سیدھی جو چلی جا رہی ہے کہاں جا کر تمام ہو گی۔ جمنا پار ۔ ہے وہاں کوئی دیکھنے دکھانے کی چیز۔ بولے اس طرف تو کچھ نہیں۔ چلو جامع مسجد چلو۔ دس منٹ میں جامع مسجد میرے سامنے تھی۔ بلند و بالا مینار اونچی کُرسی ۔ سُرخ پتھر۔ پہلو میں اُردو بازار۔ غلاظت گندگی اور بدبو کا مرکز۔ مچھلی مرغیوں چوزوں گوشت چھابڑی والوں کی ریل پیل۔ ایسا گندہ بازار بہت کم دیکھنے کو ملے گا۔ کافی بدشکل سائیکل رکشائوں کا ہجوم اور جم غفیر۔ بسوں کا راستہ بھی وہیں سے نکلتا ہے۔ اکتیس سیڑھیاں طے کر کے دروازے تک پہنچا۔ صدر دروازے بند‘
دائیں بائیں کُھلے ہوئے۔ وسیع و عریض صحن۔ بیچوں بیچ ناصاف پانی کے لیے حوض۔ وضو اسی پانی سے کیا گیا۔ جماعت ہو چکی تھی۔ منبر کر چھوڑ کر کُل بارہ مصلّوں میں سے چوتھے مصلّے پر کھڑے ہو کر میں نے ظہر کے چار فرض ادا کیے۔ بعد کی صفوں میں چھیاسی مصلّے کالے پتھر کے حاشیے کھینچ کر نمایاں کئے گئے ہیں۔ دو روپے کا ٹکٹ لے کر مینار پر بھی چڑھ گیا۔ میرا خیال ہے ایک سو اڑسٹھ سیڑھیاں طے کر کے پورے شہر کا نظارہ دیکھا۔ ایک نگران کُرسی ڈالے اوپر بھی موجود ‘ سگریٹ نوشی سے جو لوگ نہیں چوکتے ان کی گوشمالی کے لیے۔ تیس تیس چالیس برس پرانی تاریخیں اور زائرین کے نام چاقوئوں سے کھدے ہوئے۔ ہر شخص میں زندہ رہنے اور ناموری کا جذبہ عجیب رنگ دکھاتا ہے۔ نیچے اوپر صفائی کا انتظام ناقص ہی تھا‘ حالانکہ قبضہ و تصرف مسلمانوں ہی کا ہے۔ وہاں کوئی محکمۂ اوقاف شاید نہ ہو‘ ہونا تو چاہیے، کچھ ہے تو سہی پچھلے دنوں مینار کی آمدنی کا کچھ جھگڑا وگڑا ہوا تو تھا۔ کوئی سیاسی تقریر۔ ایسی ہی کوئی بات تھی۔ امام مسجد بخاری صاحب کو پولیس نے دھر لیا۔ مُسلمان اٹھ کھڑے ہوئے اور بقول بلیماران کے احمد سعید صاحب کے بیس جانوں کی قربانی دے کر امام کو آزادکرا لیا۔ امام صاحب حالانکہ دلی کے مسلمانوں میں مقبول بھی نہیں ہیں۔ بہیترے ان کے پیچھے نماز تک پڑھنے سے کتراتے ہیں۔ میرے میزبان احمد سعید راشن والے یہی کہتے تھے‘ میں تو نہیں پڑھتا اس کے پیچھے نماز۔ ویسے دیکھنے کو اچھا ہے۔ موٹا تازہ ہے ۔ معتبر بنا رہتا ہے۔ ہاں اجتماعی نفع و زیاں کی بات ہو تو سبھی ٹوٹ پڑتے ہیں۔۔۔۔
آج کامطلع
ہماری نیند کا دھارا ہی اور ہونا تھا
یہ خواب سارے کا سارا ہی اور ہونا تھا