"ZIC" (space) message & send to 7575

پنجاب کی بالادستی اورچھوٹے صوبوں کی دلسوزی

ایک اخباری اطلاع کے مطابق معروف سرائیکی شاعر رفعت عباس نے تین لاکھ روپوں پر مشتمل حکومت پنجاب کا ایوارڈ لینے سے انکار کر دیاہے۔ اس کی وجوہات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ اس ایوارڈ کو قبول کرنے کے لیے میرے پاس کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے کیونکہ میں ایک سرائیکی قوم پرست شاعر ہونے کے علاوہ چھوٹے صوبوں کا ہمسایہ ہوں جو بڑے صوبے پنجاب کے جبر کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک سرائیکی شاعر ہوتے ہوئے میں نے پنجابی زبان کی ترقی و ترویج کے لیے کوئی خدمات سرانجام نہیں دی ہیں نیز سرائیکی ایک علیحدہ قومیت ہے جو پنجاب کی بالادستی کے نیچے اور خلاف جدوجہد کر رہی ہے‘ میری زبان اور کلچر بھی جداگانہ ہے جبکہ سندھی‘ بلوچ اور پشتون قومیتیں بھی پنجاب کے جبر تلے جدوجہد کر رہی ہیں‘ میں یہ ایوارڈ قبول کر کے ان کی کوئی مدد نہیں کر رہا ہوں گا۔
یہ ایوارڈ پنجاب لینگوئج ‘ آرٹ اینڈ کلچر کی طرف سے دیا گیا تھا جو حکومت پنجاب کے شعبہ اطلاعات و ثقافت کے تحت کام کر رہا ہے۔ اس سے پہلے ایک سرائیکی دانشور محبوب تابش بھی یہ ایوارڈ ٹھکرا چکے ہیں جبکہ اکادمی ادبیات کی طرف سے دیا جانے والا تمغۂ حسن کارکردگی ایوارڈ‘ شاعر‘ نقاد ‘ مترجم اور سینئر ادیب محمد سلیم الرحمن بھی ایسا ہی کر چکے ہیں جو سینئر ہی اتنے ہیں کہ یہ ایوارڈ ان کے نزدیک ایک مذاق سے کم نہ تھا‘ بلکہ اس سلسلے کی ایک اور افسوسناک مثال یہ بھی ہے کہ اس دفعہ اسی ایوارڈ کی فہرست میں نامور اور صاحب طرز شاعر نذیر قیصر کا نام بھی شامل تھا لیکن کسی مصلحت کی بناء پر آخری لمحوں میں ان کا نام اس فہرست میں سے نکال دیا گیا۔
عام طور سے ہوتا یہ ہے اور ہونا بھی چاہیے کہ جن لوگوں کو ایوارڈ دیا جانا مطلوب ہو پہلے ان کی رضا مندی حاصل کر لی جاتی ہے تاکہ بعد میں کوئی بدمزگی پیدا ہونے کے علاوہ ایوارڈ دینے والے ادارے کو خفت نہ اٹھانی پڑے۔ یہ ایوارڈز ادیبوں کی خدمات کے اعتراف کے طور پر سرکاری اداروں کی طرف سے دیے جاتے ہیں جبکہ اکثر اوقات ان کے بارے میں یہ شکایت سنی جاتی ہے کہ یا تو یہ ایوارڈ دیتے وقت میرٹ سے کام نہیں لیا جاتا یا سفارش اور دھڑے بندی وغیرہ جیسے عناصر ان کے پیچھے کارفرما ہوتے ہیں اور ادیبوں نے اپنی اپنی لابیاں قائم کر رکھی ہوتی ہیں جن کے بل بوتے پر ایوارڈ لینے میں کامیابی حاصل کی جاتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سرائیکی الگ زبان ہے جو پنجابی زبان سے قطعی مختلف ہے اور اسے پنجابی قرار دینا کسی طرح سے بھی مستحسن نہیں ہے اور اسی بنا پر سرائیکی بولنے اور لکھنے والے خود کو ایک علیحدہ قومیت بھی قرار دیتے ہیں۔ جب فخر زمان اکادمی ادبیات کے چیئرمین تھے تو انہوں نے ایک تقریب میں زور دے کر کہا تھا کہ ہماری ساری کی ساری علاقائی زبانیں ہماری قومی زبانیں ہیں اور ان کی ترویج و ترقی کے لیے ان کے ساتھ یکساں سلوک نہیں کیا جا رہا، حتیٰ کہ پنجابی جو سب سے بڑے صوبے کی زبان ہے اسے سب سے زیادہ مظلوم زبان کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی ترویج و ترقی اورحفاظت کے لیے حکومت سمیت کوئی بھی مخلص نہیں ہے اور اہلِ پنجاب اس ضمن میں سب سے زیادہ خود ذمے دار ٹھہرائے جا سکتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ جہاں دوسرے صوبوں میں علاقائی زبانوں کو ذریعہ تعلیم قرار دیا جا چکا ہے اور پرائمری جماعتوں میں یہی علاقائی زبان ہی ذریعہ تعلیم ہے وہاں پنجاب میں اب تک یہ ابتدائی قدم بھی نہیں اٹھایا جا سکا اور اگر جوں توں کر کے کوئی پنجابی میں ایم اے کر بھی لیتا ہے تواسے نوکری ملنے کے امکانات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔
بلکہ حکومت سے بھی زیادہ ہم اہل پنجاب اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ ہم خود اردو میں بات کرنا پسند کرتے ہیں بلکہ اپنے ملازمین‘ ڈرائیور‘ خانساماں چوکیدار اور مالی وغیرہ تک سے ہم اردو ہی میں بات کرنا پسند کرتے ہیں۔ ہم اپنے بچوں تک سے پنجابی میں بات نہیں کرتے۔ یہاں سے پنجابی زبان میں کوئی معقول اخبار شائع نہیں ہوتا بلکہ پنجابی زبان میں شائع ہونے والے رسائل کی تعداد بھی چار پانچ سے زیادہ نہیں۔ بیشک اردو ہماری قومی زبان ہے اور ایک عرصہ دراز کے بعد اسے سرکاری زبان ہونے کا بھی شرف حاصل ہو رہا ہے لیکن ہماری مادری زبان ہماری ثقافت کی پاسدار ہے اور ہمارے کلاسیکی ادب کا معتدبہ حصہ پنجابی میں ہے۔ یہ ہماری جڑوں کے مترادف ہے اور اردو کی نسبت کہیں بڑی اور وسیع زبان ہے لیکن ہماری اس کے حوالے سے بے حسی افسوسناک ہے تو ہے ہی‘ شرمناک بھی ہے۔ اب آتے ہیں اصل مسئلے کی طرف‘ یعنی پنجاب کی بالادستی یہ کوئی نیاشوشہ یا نئی بات نہیں بلکہ اس کی ایک باقاعدہ تاریخ ہے جو اس ساری دلسوزی اور فساد کی جڑ کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ بات رپورٹ ہو چکی ہے کہ جنوبی پنجاب کے حصے کا کم و بیش سارا بجٹ لاہور پر خرچ کیا جا رہا ہے جس سے یہاں ڈویلپمنٹ کا کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ جہاں تک سرائیکی زبان کا تعلق ہے کہ حکومت اس کی ترویج و ترقی کے لیے کیا کر رہی ہے تو یہ اپنی زبان پنجابی کے لیے کچھ نہیں کر رہی تو سرائیکی کے لیے کیا کرے گی۔ کوئی قابل ذکر سرائیکی زبان کا رسالہ ہماری نظر سے نہیں گزرا ماسوائے ڈاکٹر انوار احمد کے جریدے ''پیلوں‘‘ کے جو اردو‘ پنجابی اورسرائیکی تین زبانوں میں شائع ہوتا ہے۔
پنجاب کی بالادستی کا علاج صرف اور صرف نئے صوبوں کا قیام ہے۔ ملک بھر میں انتظامی یونٹوں کی بنیاد پر نئے صوبے بننے چاہئیں۔ پنجاب میں ہر ڈویژن کو صوبے کا درجہ دیے بغیر اس قسم کے گمبھیر مسائل پریشانی کا باعث بنتے رہیں گے۔ ملتان کو بجائے خود صوبہ بنائے جانے کا حق حاصل ہے کیونکہ ماضی میں یہ علاقہ اور شہر مرکزی حیثیت کا حامل رہا ہے۔ چھوٹے صوبے بننے سے عوام کو جو گوناگوں فوائد حاصل ہو نگے ان کے بارے میں کسی لمبی چوڑی بحث کی ضرورت نہیں ہے اور جس میں سب سے زیادہ سدِ راہ ہمارے حکمران ہیں‘ نئے صوبے بننے سے جن کی ایمپائر سکڑ کر رہ جائے گی۔سو ‘ سرائیکی شاعر رفعت عباس کے اس اقدام کو پورا جواز حاصل تھا اور اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کا ایک موثر ذریعہ یہ بھی تھا جو ہمارے حکمرانوں کے لیے ایک ٹھیک ٹھاک چشم کشا کی حیثیت رکھتا ہے۔
اور‘ اب آخر میں اپنی پنجابی کُلیات ''پنڈو کڑی‘‘ میں سے یہ نظم:
ہسدی وسدی ریہہ
ہسدی وسدی ریہہ سوہنیے
ہسدی وسدی ریہہ
ساڈے نال تاں جیہڑی ہوئی
ہندی آئی اے سدا سدوئی
سانوں حرص طمع نہ کوئی
اپنی ویہنی ویہہ سوہنیے
ہسدی وسدی ریہہ
.........
چنگی ہوئی کہ مندی ہو سی
نہ ملیوں تے فر کیہہ ہو سی
بھاویں دل نوں تنگی ہوسی
کھل کھلا کے بہہ سوہنیے
ہسدی وسدی ریہہ
.........
ساڈا جو وی مل مکاویں
وکے اسی آیویں توں ساویں
راضی آں تیرے‘ تے بھاویں
ساڈے نال نہ کھیہہ سوہنیے
ہسدی وسدی ریہہ
آج کا مقطع
اور لوگوں کی طرح میں بھی سمجھتا تھا‘ ظفر
کہ مرے شہر پہ حملہ نہیں ہونے والا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں