مستنصر حسین تارڑ بیسٹ سیلر اس لیے بھی ہے کہ اس کی تحریر آپ کو پکڑتی ہے تو چھوڑتی ہی نہیں کیونکہ اس کا ہاتھ ہمیشہ قاری کی دکھتی رگ پر رہتا ہے اور اگر وہ پہلے سے نہیں بھی دکھ رہی ہوتی تو وہ اسے خود دکھا دیتا ہے۔ یہ فیصلہ کرنا ابھی باقی ہے کہ وہ جادوگر زیادہ بڑا ہے یا رائٹر۔ سفر نامے لکھے تو بہتوں کی بولتی بند کر دی۔ ''بہائو‘‘ ناول لکھا تو اس میں عورت کا کردار اس قدر زبردست ہے کہ منٹو کے کردار یاد آنے لگتے ہیں؛ تاہم ''لاہور آوارگی‘‘ ایک اور طرح کا سفر نامہ ہے۔ اسے سنگ میل پبلی کیشنز نے چھاپا اور قیمت 1400روپے رکھی ہے۔ خود نوشت ابدائیہ کے بعد اسے چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جو اس طرح سے ہیں۔۔۔۔اک دن رہیں لاہور میں‘ آوارگی میں ہم نے لاہور کے زمانوں کی سیر کی‘ اک اور دن‘ لاہور کی گلیوں میں آوارہ دن اور روپ شہر لاہور کے ضخامت 405 صفحات پر محیط ہے۔
اس کتاب میں لاہور کے جن جن مقامات کی سیر کروائی گئی ہے، لاہوریے ہونے کے باوجود ہم آپ نے بعض جگہوں کا نام تک نہیں سنا ہو گا اور اس کتاب کی قرأت کے بعد ہی ہم آپ کی پیدائش کا بھی یقین دلایا جا سکتا ہے۔ سو ‘ ذکر لاہور کا ہو اور لکھنے والا مستنصر حسین تارڑ تو یوں سمجھیے کہ یہ ایک مکمل تباہی ہے۔ تارڑ کی دوسری کتاب ہے پیار کا پہلا پنجاب(نو دن پنجاب کے) اسے بھی سنگ میل والوں ہی نے چھاپا ہے۔ ضخامت کوئی سوا تین سو صفحات اور قیمت1200روپے ہے۔ انتساب اس طرح سے ہے: پنجاب کے پانچ دریائوں کے نام جن کے پانیوں نے میری تخلیق کی کھیتی کو سدا سیراب کیا، ہمیسہ سرسبز رکھا، کبھی بنجر نہ ہونے دیا۔ اس کے بعد منیر نیازی کا خراج محبت اس طرح سے ہے۔۔۔۔
مستنصر کے لیے:
ایسا سفر ہے جس میں کوئی ہمسفر نہیں
منظر ہے اس طرح کا کہ دیکھا نہیں ہوا
19/2/98کی شام
منیر نیازی ‘ لاہور
اس کتاب میں مصنف لاہور سے باہر بھی نکلا ہے اور اس تحریر کو سات بلکہ آٹھ حصوں میں تقسیم کیا ہے جو ان عنوانات سے ظاہر ہے:
پہلا دن : چار مرغابیاں۔ مشو کا آنسو اور نمک عشق کا۔ دوسرا دن: داراشکوہ کا شاہ دارا۔۔۔۔ ترلوک شاہ اور بیٹھک شاہ حسین۔ تیرا دن: گورو نانک کے دوارے۔۔۔۔ ننکانہ صاحب ایک مقدس شہر‘ بھگت سنگھ ‘ بمباں سدر لینڈ اور امرتا شیر گل۔ چوتھا دن: جنڈیالہ شیر خاں‘ وارث شاہ کے وطن میں‘ بودی سائیں اور بائولی شیر شاہ سوری... پتلی پیکنے دی۔ پانچواں دن: حجرہ شاہ مقیم‘ دیپالپور بابا فریدؒ کا پاکپتن اور وارث کا حجرہ، ملکہ ہانس... پرنامی مندر۔ سیالکوٹ کا چھٹا دن، ساتواں دن رہیں قصور میں اور ساتویں اور آٹھویں دن رہیں امرتسر میں۔
ان موضوعات سے آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس طلسم کار نے کیا کیا حشر نہ ڈھائے ہوںگے۔ موصوف کی طبیعت پچھلے دنوں ناساز رہی ہے، مکمل صحت یابی کے لیے دوستوں کی دعا۔ یہ کتابیں پڑھنے کے بعد آپ کو اندازہ ہو گا کہ اگر یہ کتابیں نہ پڑھتے تو کس قدر خسارے میں رہتے۔ بعض کتابیں صرف شیلف میں سجانے کے لیے ہوتی ہیں۔ یہ دل کے شیلف میں سجانے کے لیے ہیں جو ہر قاری کے ہاں موجود ہوتا ہے ع
مشک آنست کہ خود ببوید‘ نہ کہ عطّار بگوید
ایک صاحب لکھتے ہیں کتاب کسی کو ادھار نہیں دینی چاہیے‘ میری لائبریری ایسی ہی کتابوں سے بھری پڑی ہے! اس لیے اگر آپ ان میں سے کوئی کتاب کسی کو ادھار دیتے ہیں تو پھر اس کی شکل کو ہی ترسیں گے۔
سلسلے تکّلم کے
یہ کتاب ڈاکٹر قرۃ العین طاہرہ نے لکھی ہے‘ سنگ میل ہی نے چھاپی اور قیمت1200روپے رکھی ہے۔ انتساب شاہد محمود (برادر بزرگ) اور شاہد محمود رفیق سفر کے نام ہے۔ یہ مختلف شاعروں، ادیبوں کے انٹرویوز پر مشتمل ہے جن کی فہرست ہی سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ یہ کس قدر مزیدار کتاب ہو گی اور جن میں بالترتیب احمد فراز، افتخار عارف‘ ضیا جالندھری‘ شبنم شکیل‘ محسن بھوپالی‘ خالدہ حسین‘ احمد ندیم قاسمی‘ رشید امجد‘ سلیم اختر‘ منشا یاد‘ نیلو فر اقبال‘ فرمان فتح پوری‘ ابوالخیرکشفی‘ فتح محمد ملک‘ مستنصر حسین تارڑ، مشتاق احمد یوسفی‘ سہیل احمد خان، وزیر آغا، طارق نعیم‘ رشید نثار‘ انور زاہدی اور عذرا اصغر شامل ہیں۔
یہ کوئی معمولی انٹرویوز نہیں ہیں کیونکہ یہ انٹرویو کرنے والے پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ خود کتنے پانی میں ہے جبکہ اکثر اوقات سوال کی اہمیت جواب سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ شروع میں انور مسعود کا یہ شعر درج ہے ؎
پھر ملاقات کسی وقت مفصل ہو گی
یہ ملاقات ملاقات کا دیباچہ ہے
اصولی طور پر اس میں انور مسعود کا انٹرویو بھی ہونا چاہیے تھا!
دروازے
عرفان جاوید کے تحریر کردہ خاکوں پر مشتمل یہ کتاب بھی سنگ میل ہی نے چھاپی اور قیمت 1200روپے رکھی گئی ہے۔ صاحبان خاکہ میں احمد ندیم قاسمی‘ اے حمید‘ احمد فراز‘ مستنصر حسین تارڑ‘ عبداللہ حسین‘ احمد بشیر‘ عطاء الحق قاسمی‘ شکیل عادل زادہ‘ تصدق سہیل‘ نصیر کوی‘ جاوید چوہدری اور محمد عاصم بٹ شامل ہیں۔ سرورق پہ یہ آراء درج ہیں:
اس کتاب کو پڑھتے وقت میں کبھی اس کے انداز تحریر میں کھو گیا تو کبھی اس میں بیان کردہ واقعات اور حقائق کا تماشائی بن گیا(شمس الرحمن فاروقی، الہ آباد۔) ایک پوری کی پوری تہذیب زندہ ہو جاتی ہے، احسان صاحب کے بیان سے (گلزار، بمبئی، انڈیا۔) اے حمید کا خوب تذکرہ ہے، وہ اپنے سارے رومانی مزاج کے ساتھ یہاں چلتا پھرتا نظر آتا ہے(انتظار حسین۔) عرفان جاوید ایک کمند پھینک کر اپنے سے کہیں سینئر ادیبوں کے برابر جا کھڑے ہوئے ہیں (عبداللہ حسین۔) ٹائٹل پر عنوان کے نیچے یہ جملے درج ہیں:
عہد ساز، سرمایہ ناز تخلیق کاروں کی داستانیں، خوش بیانوں کا بیان، خیال پروروں کے افسانے۔‘ گٹ اپ عمدہ ہے اور پس سرورق مصنف کی تصویر۔
آج کا مطلع
یہ شہر چھوڑ دے کہ شرافت اسی میں ہے
رسوائے شہر اب تری عزت اسی میں ہے