شاعر:ہر شاعر اپنے آپ کو ملک الشعراء سمجھتا ہے۔ اگر وہ ایسا نہ سمجھے تو اس کی اپنی نظر میں اس کا شاعر ہونا مشکوک ہو جاتا ہے۔ نیز وہ کسی دوسرے کو شاعر نہیں سمجھتا۔ ایک دوسرے کے شعر یا مصرعے چرا لینا بھائی چارے ہی کی ایک قسم ہے۔ فارسی شاعر انوریؔ نے ایک جگہ مجمع لگا دیکھا تو نزدیک جا کر معلوم ہوا کہ ایک شخص لوگوں کو اسی کا کلام سنا رہا تھا اور خود باقاعدہ انوری بنا ہوا تھا۔ انوری نے اس صورت حال پر کہا کہ شعر چور تو سُنے تھے شاعر چور پہلی بار دیکھا ہے۔ مشاعرہ شاعر کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جیسے سانس لینے کے لیے ہوا۔ مشاعرے کا دعوت نامہ حاصل کرنے کے لیے وزراء کی سفارشیں بھی کروائی جاتی ہیں۔ منقول ہے کہ ساحل سمندر پر کچھ لوگ پکنک کے لیے جمع تھے۔ کچھ نہا بھی رہے تھے۔ اتنے میں پانی کا ایک تیز ریلہ آیا اور نہاتے ہوئے ایک شخص کو گہرے پانیوں میں لے گیا۔ پیشتر اس کے کہ وہ ڈوب جاتا‘ ایک من چلے نے سمندر میں چھلانگ لگائی اور بڑی مشکل سے اسے بچا کر لے آیا۔ اس نے بچانے والے کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میں فلاں رسالے کا ایڈیٹر ہوں اور فلاں جگہ پر میرا دفتر ہے۔ کچھ دن ہی گزرتے تھے کہ وہی صاحب رسالے کے دفتر آئے اور ایڈیٹر کے سامنے اپنی نظم رکھ دی۔ نظم نہایت تھرڈ کلاس تھی‘ ایڈیٹر کے چہرے کے ناگوار تاثرات دیکھ کر شاعر بولا‘
''جناب یہ نظم ضرور چھپنی چاہیے‘‘ جس پر ایڈیٹر بولا‘
''براہِ کرم مجھے وہیں پھینک آئیے جہاں آپ نے مجھے ڈوبنے سے بچایا تھا!‘‘
مزید منقول ہے کہ ایک دفعہ جوش ملیح آبادی کی صدارت میں آل انڈیا مشاعرہ ہو رہا تھاجب آخر میں جوش پڑھ چکے تو ایک نوجوان شاعر آدھمکا انتظامیہ کو جس کی خاطر بہت مطلوب تھی چنانچہ اسے جب کلام پیش کرنے کے لیے بلایا گیا تو وہ سٹیج پر آ کر بولا‘ ''مجھے بہت شرم آ رہی ہے‘ میں جوشؔ صاحب کے بعد کیسے پڑھ سکتا ہوں‘‘ جس پر جوش بولے‘ ''برخوردار اگر تم میرے بعد پیدا ہو سکتے تو ہو تو میرے بعد شعر کیوں نہیں پڑھ سکتے‘‘
ایڈیٹر:ایڈیٹر اخبار کا ہو یا رسالے کا ‘ ایک ارفع و اعلیٰ چیز ہوتا ہے۔ کچھ پسندیدہ اشعار:
چپ رہو گر معترض بھی ہوں مدیران کرام
مستند سمجھو انہی کو شاعری کے باب میں
آدھا مصرع ہُوا برآمد
مارا ایڈیٹروں نے چھاپہ
تاہم اخبار کا رپورٹر بھی اپنے آپ کو ایڈیٹر سے کم نہیں سمجھتا۔ کوئی خبر اگر چھپتی ہے تو اس کی مرضی سے اور اگر رُکتی ہے تو اس کی مرضی سے۔ منقول ہے کہ کسی شخص کا بہت قیمتی کتا گُم ہو گیا تو اس نے اخبار میں اشتہار دیا کہ جو کتا ڈھونڈ نکالے گا بیس ہزار روپے انعام کا حقدار ہو گا۔جس روز اخبار میں اشتہار چھپا تو وہ صاحب اخبار کے دفتر چلے گئے تاکہ معلوم کر سکیں کہ کُتے کی تلاش میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے یا نہیں وہ یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ ایڈیٹر سمیت پورا عملہ ہی غائب ہے۔ اس نے چپڑاسی سے پوچھا کہ سب لوگ کہاں چلے گئے ہیں تو وہ بولا کہ صبح سے کسی کُتے کی تلاش میں نکلے ہوئے ہیں۔
کلرک:ہمیشہ کلرک بادشاہ کہلاتا ہے کیونکہ اس کے اختیارات بادشاہوں سے کسی طور کم نہیں ہوتے‘ تاہم شکل سے کلرک ہی لگتا ہے ۔ ہر فائل اس کی مرہون منت ہوتی ہے۔ اگر وہ چاہے تو کسی فائل کو چوہے کتر سکتے ہیں یا اسے آگ لگ سکتی ہے فائلوں کو پہیوں کے بغیر نہیں چلایا جا سکتا۔ اور پہیے ہر اس شخص کے پاس ہونا چاہئیں جو فائل کو آگے چلانے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ ایک کلرک کو صبح دیر سے اٹھنے کی عادت تھی۔ ہر روز اُسے دفتر سے جھاڑیں پڑتیں۔ آخر وہ ایک ڈاکٹر کے پاس گیا اور اسے اپنا مسئلہ بیان کیا۔ ڈاکٹر نے اُسے ایک گولی دی اور کہا کہ رات سونے سے پہلے کھانی ہے۔ کلرک صاحب نے گولی کھا لی اور صبح جب اُٹھے تو کافی وقت تھا۔ وہ تیار ہو کر دفتر پہنچے اور بڑے فخر سے سپرنٹنڈنٹ سے بولے‘''دیکھیے جناب‘ آج میں کیا وقت پر آ گیا ہوں‘‘ تو سپرنٹنڈنٹ بولا‘ ''ٹھیک ہے‘ آج تو وقت پر آ گئے ہو لیکن کل سارا دن کہاں تھے؟‘‘ کلرک حضرات نے دیمکیں بھی پال رکھی ہوتی ہیں‘ جو فائل چوہوں اور آگ سے بچ رہے اور موصوف اس کا مدّہ غائب کرنا چاہیں اسے دیمک کے حوالے کر دیتے ہیں اس کے بارے میں دو مصرعے بہت مشہور ہیں یعنی ع
(1) کر کلرکی کھا ڈبل روٹی خوشی سے پھول جا
(2) لے کے رشوت پھنس گیا ہے‘ دے کے رشوت چھوٹ جا
ایک سائلہ ڈپٹی کمشنر سے اپنا مسئلہ حل ہونے پر اُسے دعا دیتے ہوئے بولی‘ جا‘ خدا تجھے کلرک کر دے!
بھکاری:گداگر کہلانا زیادہ پسند کرتا ہے کیونکہ یہ سوداگر سے ملتا جُلتا لفظ ہے۔ عام طور پر یہ اندھے ہوتے نہیں لیکن اندھوں کا روپ ضرور دھارتے ہیں۔ ایک بھکاری نے ایک صاحب سے سوال کیا کہ اندھے کی مدد کر دو۔ ان صاحب نے اس کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہا‘ ''تم تو اندھے نہیں ہو‘ تمہاری آنکھیں تو ٹھیک ٹھاک ہیں‘‘ جس پر بھکاری بولا۔ 'جی‘ دراصل میں ایک اندھے کی جگہ پر کھڑا ہوں‘‘ جس پر وہ صاحب بولے‘''وہ اندھا کہاں ہے؟‘‘ بھکاری نے جواب دیا‘''وہ فلم دیکھنے گیا ہوا ہے‘‘
پسندیدہ اشعار:
گدا سمجھ کے وہ چپ تھا مری جو شامت آئی
اُٹھا اور اُٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لیے
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ
تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں
فقیرانہ آئے صدا کر چلے
میاں خوش رہو ہم دُعا کر چلے
آج کا مقطع
اُس شہر کا تو ذکر ہی کیا ہے ابھی‘ ظفر
یہ پُوچھیے کہ شہر نما کتنی دُور ہے
نوٹ: کل والے شعر کا مصرعِ اوِل اس طرح پڑھا جائے
دامانِ شہ سے دستِ گدا کتنی دُور ہے