طاہرہ اقبال نے افسانہ اور ناول نگاری میں اپنے لیے مختصر عرصے میں جو نام اور پہچان پیدا کی ہے اس پر دو رائیں نہیں ہو سکتیں۔ علی اکبر ناطق کے ناول کے بعد یہ دوسرا انتہائی قابل مطالعہ ناول ہے جو ایک ہی سال کے دوران شائع ہوئے۔ کوئی ساڑھے پانچ سو صفحات پر مشتمل یہ ناول دوست پبلی کیشنز نے چھاپا اور اس کی قیمت1050روپے رکھی ہے اور نہایت عمدہ گیٹ اپ کے ساتھ اس کا ٹائٹل خالد رشید نے بنایا۔ انتساب بار کے قدیمی باشندوں‘اور دادا جی ملک عنایت اللہ اعوان کے نام ہے۔ اس کا پیش لفظ مستنصر حسین تارڑ نے لکھا ہے جو اپنی جگہ پر ایک حرف آخر بنتے جا رہے ہیں۔ اس کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
...اندور کے وہ سردار جی اگر وہ ابھی تک حیات ہیں‘ طاہرہ کا ناول نیلی بار پڑھ لیں تو بلونت اور بیدی تو کیا مجھے بھی فراموش کر کے طاہرہ کے چرنوں میں گر جاتے‘ اُسے اپنا ایک گورو مان کر اس پر ایمان لے آتے کہ ''نیلی بار‘‘ بھی تو گرنتھ صاحب کی ایک جادوئی تفسیر ہے۔
یہ طاہرہ پنجاب کی قرۃ العین طاہرہ ہے ‘ بے باک‘ بے دھڑک بیک وقت معصوم بھی اور دریدہ دامن بھی''نیلی بار‘‘ کے سامنے آج تک پنجاب کی جتنی بھی تحریریںاور تصویریں ناول کے کینوس پر پینٹ ہوئی ہیں سب کی سب پھیکی اور بے روح پڑتی دکھائی دیتی ہیں۔ اس ناول کے کچھ حصوں کے بارے میں مجھے احتیاط کا مشورہ دینا ہے‘ میں نہیں چاہتا کہ وہ بھی ایران کی طاہرہ کی مانند سچائی اور عشق کے جرم میں ایک اندھے کنوئیں میں دفن کر دی جائے اردو کے بیشتر ناول گونگے ہیں‘ وہ بولتے نہیں۔طاہرہ کا ناول بولتا ہے‘ آوازوں کا غدر مچ جاتا ہے، زمینی مناظر زندہ ہو جاتے ہیں۔ ڈاچیاں بلبلاتی ہیں، کجاووں پر براجمان عورتوں کے بدن دوہائی دینے لگتے ہیں۔کماد اور شٹالے کے کھیتوں میں سے پیراہن سنبھالتی حسین دیویاں بہت سیاہ رنگت کی ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ دربار لگ جاتے ہیں اور انار چھوٹنے لگتے ہیں جب آندھی کا سرخ غبار اٹھتا ہے تو اس کی گونج سناتی دینے لگتی ہے۔
''نیلی بار‘‘ پنجاب کا ایک مہا بیانیہ ہے۔ وہ مہا بھارت کے یدھ کی ہمسری کرتا ہومرکے ایلیڈ کو چیلنج کرتا ہے... وارث شاہ کے بیانیے کی قربت میں چلا جاتا ہے۔ گارلیا مارکیز نے کہا تھا کہ اگر ایک مرد خوش نصیب ہو تو اس کی زندگی میں ایک ایسی عورت آتی ہے جو اسے مرد بنا دیتی ہے۔ طاہرہ وہ ایک خوش نصیب ادیب ہے‘‘ اس ناول کو دس ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پس سرورق مصنفہ کی تصویر ہے اور اس کی تصانیف کی تفصیل دی گئی ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ ''گراں‘‘ نامی ایک اور ناول تکمیل کے مراحل میں ہے۔
''نیلی بار‘‘ شاید پہلا پاکستانی ناول ہے جس میں قیام پاکستان کے بعد سے لے کر تقریباً ساٹھ برس کی تاریخ کو پس منظر میں رکھا گیا ہے۔ اس زمانی دورانیہ میں وقوع پذیر سیاسی حالات و واقعات پر دیہی افراد‘ طبقات کے ردِ عمل کو بھی پیش کیا گیا ہے۔ یوں دیہاتیوں کا سادہ سا سیاسی شعور جو استحصالی پنجے میں جکڑا رہا‘ واضح ہو جاتا ہے۔
علاوہ ازیں گنجی بار نیلی بار کے سبھی رنگ ڈھنگ‘ موسم ‘فصلیں‘ گیت اورماہیے خصوصاً عورتوں کی نفسیات چوہلیں ‘باہمی لڑائیاں ‘ سٹھنیاں‘ لوک کہانیاں اورلوک دانش۔ ایک خزانہ محفوظ کرنے کی کوشش کی گئی ہے یعنی مٹتی ہوئی تہذیب رنگ اور طرز بو دو باش۔ کی تفصیلات و جزئیات موجود ہیں جن پر اب جدت کا رنگ آ رہا ہے۔ یہ جدت بھی آخر ی ابواب میں موجود ہے۔ دیہاتیوں کے معصوم روحانی جذبے 9/11کے بعد مذہبی تفسیر سے دو چار ہو کرمجاہد بننے کی استحصالی کتھا‘ وہ جو مذہب کو دور کوئی آسمانی شے سمجھتے اور مسجد و ملا پر چھوڑ دیتے تھے ملا ‘جو ان کے لیے ''سیپی‘‘ تھا جیسے موچی نائی سیپی ہیں ‘وہ یکدم ان کی زندگیوں پر حاوی ہو گیا۔ بتدریج ایسی تبدیلیوں کو اس ناول میں واضح کیا گیا ہے۔ نہیں تبدیل ہوئیں تو عورتیں ڈنگ ڈنگ ‘ٹوپا ٹوپا جیتی ہوئیں۔
ایوب خان ‘ بھٹو‘ ضیاء الحق ‘ بے نظیر ‘ نواز شریف ہر لیڈر پر ان کے معصومانہ تبصرے خام سی سیاسی اپروچ سچی اور کھری زندگیاں ‘ پناہیوں‘جانگلیوں آباد کاروں‘ جاگیرداروں‘ سیاست دانوں‘ وڈیروں‘ امیروں‘ پیروں اور درگاہوں میں گھومتی معاشرت سیاست اور تاریخ حکومتی ایوانوں اور محلات سے لے کر کچی جھگیوں میں پلتی جہالت معصومیت اور خام کاری گناہ و ثواب‘ پکھی واسی اور پٹڑی واس ننگی فطرت اور بے رحم سچ جو یہاں ہر کہیں بکھرا پڑا ہے۔
بیسیوں کرداروں میں سے منصورہ بیگم اور بختاور کے کردار ناول کے پہلے باب میں سامنے آئے اور پھر حالات نے مار دیے لیکن تلازمۂ خیال کی تکنیک میں ان کرداروں کی گونج باقی ابواب میں سنائی دیتی رہتی ہے بلکہ مرکزی کرداروں پر غالب رہتی ہے۔
علی جواد کا کردار ہماری سیاست کا چہرہ ہے جو ایک یونیورسٹی کے پلیٹ فارم سے طالب علم لیڈر سے ابھر کر ہر دور میں ہر حکمران کا پس پردہ کارندہ رہا ہے اور اس پر حاوی ہوا ہے ملک عبدالرحمن اور پیر اسرار احمد جو ناول میں پھیلے ساٹھ سالہ پاکستانی سیاست کے دورانیہ میں کسی نہ کسی طرح وزارت کے قلمدان پر قابض رہتے ہیں۔
مختلف ادوار‘ حادثات و واقعات میں سے گزرتی اس کہانی میں پاکیزہ اور زارا فتح شیر کے مضبوط کردار ناول کے چاروں کھونٹ کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ زارا جو شہری تہذیب ‘ یونیورسٹیوں اور جاگیردارانہ نظام کی پروردہ ہے۔پاکیزہ جو دیہی پابندیوں اور ناانصافیوں کا شکار ہو کر بھی زندہ رہتی ہے۔ یہ ناول حقیقی واقعات اور افسانوی کرداروں کے سچے افعال ‘ پاکستانی دیہی و شہری معاشرت کے پس منظر میں منفرد اسلوب کا حامل ایک دلچسپ تحریر ہے جس کے متعلق اسد محمد خاں نے کہا تھا ''یہ نہایت عمدہ فکشن ہے‘‘ اس کا ہر باب ایک مکمل کہانی بھی ہے اور مرکزی وحدت میں پرویا ہوا بھی۔ اس کی زبان‘ اسلوب لوک دانش‘ مکالمات کی فضا بندی‘ پنجابیت‘ پنجابی معاشرت‘ چولہا چوکے‘ تنور‘اور کوٹھے‘ غرض پنجاب کی زمین اور معاشرت کے تعلقات اور ڈکشن کا مجموعہ ہے۔ اسے پڑھیے اور سر دھنیے!
آج کا مطلع
یہ بات الگ ہے مرا قاتل بھی وہی تھا
اس شہر میں تعریف کے قابل بھی وہی تھا