... یہ بھی کوئی بات ہے‘ آپ یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ آپ رئیس الشعرا رئیس امروہوی ہیں‘ شاعرِ پاکستان، میاں تم نہیں سمجھتے،واقعی میں کیا خاک سمجھتا یہ تو وہ بازی گر ہیں جو دیتے ہیں دھوکا کُھلا‘ معلوم ہوا اور بڑی شان سے فرمایا‘ پچاس ہزار روپیہ کمانا ہے یہاں سے۔ روئے سُخن اختر فیروز کی طرف زیادہ تھا‘ ہاں بھائی پچاس ہزار لو پھر پُوری تفصیل سے یہ بھی بتایا‘ دس ہزار تو بہن کی بیٹی کی شادی ہے‘ اُسے دوں گا اور باقی کہاں اور کیسے دیے جائیں گے‘ یاد نہیں رہا، میں حیران یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے۔ اوّل تو رئیس صاحب اوسطاً پانچ چھ ہزار روپے ماہانہ گھر بیٹھے کما لیتے ہیں۔ بیٹا کوئی ہے نہیں، پانچوں بیٹیاں بیاہی جا چکی ہیں۔ داماد ایک سے ایک لائق فائق کمائو پوت۔ کوئی لندن تو کوئی نیو یارک میں۔ دوسرے یہ کہ اگر پچاس ہی ہزار کا مسئلہ تھا تو پچاس ہزار کے لیے ہندوستان میں ہاتھ پھیلانے کی کیا ضرورت ہے۔ حضرت اپنے چیلے چانٹوں‘ اپنے مُریدوں کو اشارہ کر دیں۔ کراچی شہر تو نہیں ہے وہ اپنا لالو کھیت ہے۔ ایک دو مہینوں میں مشاعروں نشستوں سے پچاس ہزار کھرے کر لیے جاتے۔ مہاجرین بنگلہ دیش کے نام پر آخر لاکھوں کے وارے نیارے ہوئے ہی تھے۔
اسّی ہزار تو اپنے مکان کی مرمت پر بقول خود قرض لے کر لگا دیا تھا۔ میں بھی کہوں یہ دونوں رئیس صاحب اور اختر فیروزآخر کنور صاحب کی اتنی خوشامد کیوں کر رہے ہیں۔ چاپلوسی میں کیوں لگے ہوئے ہیں۔ بچھے جاتے ہیں۔ ہندوستان کیا بُلا لیا سات پشتوں پر احسان کر دیا۔ کیا کرتے آخر دلی میں رہنا ہے کھائیں گے کیا‘ یہاں میں ایک دوسرے رُخ پر بھی گفتگو کر لوں۔ رئیس صاحب کے وہاں میرا جانا آنا1941ء میں شروع ہوا یہ وہ زمانہ تھا جب ان کی بیگم لڑ جھگڑ کر مانک جی سٹریٹ کے بنگلے سے ترکِ سکونت کر کے کھارا در کے فلیٹوں میں جا بسی تھیں اوررئیس اپنے بھائیوں کے ساتھ رہ رہے تھے۔ آدھا مکان ان کے قبضے میں تھا ہی۔ رئیس صاحب کے حلقے میں میں سمجھتا ہوں جون ایلیا کے توسط سے محمد علی صدیقی تھے‘ انور شعور‘ حسن عابدی‘ عبید اللہ علیم‘ سحر انصاری تھے، شکیل عادل زادہ تو تھے ہی گھر کے ایک فرد۔ تو یہ تھا ایک ٹولہ ۔ اب دیکھ لو یہ سب لوگ آج دنیائے ادب میں اپنا ایک مقام پیدا کر چکے ہیں۔ جی الانہ ٹہلتے ہوئے شام کو آجایاکرتے تھے۔ اسی طرح چند ایک اور ذی حیثیت اور ذی وقار لوگ سات آٹھ سال معقول لوگوں ‘پڑھے لکھے نوجوانوں‘
اُبھرتے ہوئے ادیبوں اور شاعروں میں گزرے۔ 1949ء میں اباّ سید مبارک شاہ جیلانی بانی مبارک اردو لائبریری و مدیر سہ ماہی لالۂ صحرا محمد آباد کا انتقال ہُوا اور میرا کراچی جانا کم سے کم تر ہو گیا۔ سال میں محض ایک چند روزہ دورہ بلکہ دو دو برس بھی نہ جا سکا۔ رئیس صاحب ایوبی مارشل لا کے بعد سیاست چھوڑ کر نفسیات پر لکھنے لگے تھے۔ حلقۂ ارادت بڑھا تو تصوّف میں آئے اور اب کچھ بے قاعدہ کچھ باقاعدہ پیر ہیں۔ پاک بھارت جنگ ہوئی‘ بنگلہ دیش وجود میں آیا تو ماہرِ نفسیات بابائے مہاجرین بھی بن گیا۔ روپے پیسے کی دھول اُڑی اور شادی بیاہ کے دفتروں میں عصمتوں کی وہ لوٹ مچی کہ اللہ دے اور بندہ لے ۔ کھلی چھٹی تھی بقول رئیس صاحب قبلہ ‘ سبیل لگی ہوئی ہے اب ... کوئی جواں مرد تو آئے‘ صلائے عام ہے۔ انقلابات کی تان صنفِ نازک پر ہمیشہ بری طرح ٹوٹتی ہے۔ گھریلو ماحول اور نشست برخواست سب القط۔ باقاعدہ دفتر بنے اور فضا بھی دفتری بن گئی۔ سیاست میں بھی ہاتھ پائوں مارے۔ میں نے خط لکھ کر روکا۔ وہ خط بھی اسی بیاض میں ہے۔ یہ بہت اچھا ہے کہ میں نے سب چیزیں نقل کر رکھی ہیں، لو پڑھو:
یہ کیا حماقت ہوئی آپ سے۔ اس سے پہلے بھی آپ جذبات کی رو میں بہہ کر اصغر خان سے جا ملے تھے‘ وہ تو خیر شمولیت نہ تھی۔ ان سے ہمدردی تھی یا اپنے وجود کے تشخص کے لیے سہارا لینا مقصود تھا، مگر یہاں تو پوری تصویر ی خبر ہے کہ آپ پارٹی میں آ گئے ۔ کیوں آئے؟ قومی اسمبلی‘ صوبائی اسمبلی کا رکن بننے کے لیے؟ گورنر بننے کے لیے؟ وزیر بننے کے لیے؟ یہ سب کچھ آپ بن گئے بتائیے کیا کر سکیں گے آپ، جو بے لاگ مشورے اب دے سکتے ہیں آپ۔ اب دے رہے ہیں آپ کیا شمولیت کے بعد ممکن ہیں۔ حاضر باش ‘ہاں میں ہاں ملانے والے بننے کی صلاحیت تو آپ میں موجود ہے مگر آپ کی شاعرانہ ناقدانہ رگِ حمیّت بھی تو کبھی کبھار پھڑکے گی یا اس پر ''نس بندی‘‘ کا عمل کرا دیا جائے گا۔ گاندھی کی مثال آپ کے سامنے ہے وہ کانگریس میں کبھی شامل نہیں ہوئے مگر ہوتا سبھی کچھ انہیں کے مشورے سے تھا۔ آپ کی ہمدردیاں انتخابات سے پہلے بھی اور بعد میں بھی حتیٰ کہ اردو تحریک میں پِٹنے کے اور اسلام آباد میں ذلیل و خوار ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی کے ساتھ رہی ہیں‘ پھر یہ اعلان بازی کیا معنی۔ یہ چھچھورپن کس خوشی میں۔ ہم آپ کو ایک اعلیٰ مفکر کی سطح سے اترتا ہوا دیکھ کر خوش نہیں ہو سکتے۔ یاد ہے آپ کو میں نے بھی ایک بار ذرا ٹٹولنے کے لیے یہی مشورہ دیا تھا کہ سولی پر چڑھ جائیے مگر اس وقت آپ کسی اور رنگ میں تھے اور وہی رنگ مناسب تھا۔ یہاں آپ کو ذہنی سطح بلند کرنے کی تحریک میں شامل ہونا چاہیے بلکہ آپ تو بجائے خود ایک تحریک ہیں۔ آپ کا جو میدان ہے وہی آپ پر سجتا ہے ۔ بے رحم نقاد ہی آپ اچھے لگتے ہیں۔ آپ کے قطعات شاہد ہیں کہ آپ کے مشورے ہمیشہ قوم و ملک کی فلاح و بہبود کی نشاندہی کرتے رہے ہیں۔ اگر آپ کو وزارت کی کرسی میں دھانس دیا گیا تو گویا آپ کے ہاتھ کاٹ لیے گئے۔ دماغ سُن کر دیا گیا۔ اپنے فیصلے پر نظرثانی کیجیے یہ میرا مشورہ ہے‘ ممکن ہے''غلط‘‘ ہو۔
(مکتوب انیس بنام رئیس، تحریر30نومبر1976ء)
آج کا مطلع
اگرچہ منع بھی کرتا نہیں مروّت میں
ملائے رکھتا ہے اِنکار بھی اِجازت میں