"ZIC" (space) message & send to 7575

ہمارے اعضاء (3)

کمر
اسے کسا بھی جاتا ہے اور مہنگائی وغیرہ کی وجہ سے ٹوٹتی بھی رہتی ہے۔ بڑے سائز کی کمر کمرہ کہلاتی ہے۔ گدھے کا کام بھی دیتی ہے کیونکہ اس پر ہر چیز لادی جا سکتی ہے۔ کمرکس اُس پیٹی کو کہتے ہیں جس سے کمر کو کسا جاتا ہے۔ عُشاق کو معشوق کی کمر نظر نہیں آتی۔ کمر کے حوالے سے ایک شاعر کا شعر ہے ؎
کہو جاناں تمہاری بھی کمر ہے
کہاں ہے‘ کس طرف ہے اور کدھر ہے
اسے باندھا بھی جاتا ہے جس کی تفصیل اس شعر میں دی گئی ہے 
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے‘ باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
زیادہ عُمر رسیدہ ہونے پر یہ کمان بھی بن جاتی ہے لیکن اس سے تیر نہیں چلایا جا سکتا۔ کبھی یہ شعر کہا تھا 
مجھے کُبڑا نہ سمجھو‘ زندگی پر
میں ہنستے ہنستے دوہرا ہو گیا ہوں
پیٹ
اس پر لات بھی ماری جاتی ہے۔ اس کی مونث پیٹی ہے۔ پیٹ سے ہونا کا مطلب پیٹ سے ہونا ہی ہے۔ ہر پیٹ والے کو پیٹو نہیں کہا جا سکتا۔ پہلے پیٹ پوُجا‘ پھر کام دوُجا‘ حالانکہ پیٹ پُوجا بعد میں بھی ہو سکتی ہے۔ اس میں چوُہے بھی دوڑتے ہیں۔ جن کے لیے احتیاطاً ایک عدد بلی کا بھی انتظام ہونا چاہیے۔ اس پر پتھر بھی رکھا جا سکتا ہے۔ خالی پیٹ کا مطلب ہے نہارمنہ حالانکہ منہ پیٹ سے کافی فاصلے پر ہوتا ہے۔ اس میں صرف آنتیں ہوتی ہیں جو بڑھاپے میں ختم ہو جاتی ہیں‘ اسی لیے کہتے ہیں‘ پیٹ میں آنت نہ منہ میں دانت۔ کھایا پیا سب اسی میں جمع ہوتا ہے۔ اسے کاٹا بھی جاتا ہے۔ اس میں گُڑ گُڑ بھی ہوا کرتی ہے جیسے اندر بیٹھا کوئی حقہ پی رہا ہو۔ پیٹ بھر کے کھانے کا مطلب ہے مفت کا کھانا‘ یعنی فری لنچ جو کوئی نہیں کراتا۔ اوزار وغیرہ بیچ میں چھوڑنے کے لیے آپریشن اسی کا کیا جاتا ہے۔ کم و بیش جملہ اعضائے رئیسہ اسی میں ہوتے ہیں جبکہ خود غریب طبع ہے۔
دل
یہ کھٹا بھی ہو جاتا ہے‘ کسی قسم کی کھٹائی کے بغیر۔ بات بات پر ٹوٹنا‘ خراب ہونا‘ ترسنا‘ پھنکا جانا‘ دینا‘ لینا وغیرہ اس کے کام ہیں۔ کسی پر آ جانا اس کے لیے بائیں ہاتھ کا کرتب ہے۔ اگرچہ اس کا اصل کام بدن میں خُون پمپ کرنا ہے لیکن اس کے باوجود اس نے اور بھی بہت سے روگ پال رکھے ہوتے ہیں۔ اس کا سودا بھی کیا جاتا ہے۔ غزل کی اسی فیصد شاعری اسی کے گرد گھومتی ہے۔ اسے چرایا بھی جاتا ہے۔ کوئی بڑا کام ہو تو اس کے لیے دل کے ساتھ گردے کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے۔ دلی شہر اسی کی وجہ سے مشہور ہوا۔ اسے ہارا بھی جاتا ہے۔ یہ شور بھی مچاتا ہے جیسا کہ اس شعر سے ظاہر ہے 
بہت شور سُنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا
میر تقی میرؔ کے بقول اس کی بیماری آخر کام تمام کر کے ہی رہتی ہے۔ دلدار‘ دل پذیر‘ دلبر‘ دل رُبا‘ دلکش‘ دل آویز‘ دل دوز‘ دل جمعی‘ بیدلی وغیرہ سب اس کے شاخسانے ہیں‘ بزدل سمیت۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ دل بدست آور کہ حج اکبر است
ٹانگ
یہ عام طور پر پرائے پھڈے میں اڑائی جاتی ہے حالانکہ اس کا اصل کام چلنا ہے۔ ایک ٹانگ والے کو لنگڑا کہتے ہیں جیسے لنگڑہ آم ۔ اسے لات بھی کہتے ہیں جو حاتم طائی کی قبر پر ماری جاتی ہے۔ بھوت دو قسم کے ہوتے ہیں‘ باتوں کے اور لاتوں کے۔ ٹانگ کھینچی بھی جاتی ہے‘ صرف دوسروں کی ،بالعموم تیزرفتار ترقی کو دیکھ کر کھینچی جاتی ہے، یہ نہ ہو تو بیساکھی سے کام لیا جاتا ہے، حتیٰ کہ بیساکھی کسی کو کھینچ کر ماری بھی جاسکتی ہے۔ جو ٹانگ سے زیادہ کام کرتی ہے۔مذکراس کا ٹانگہ ہے۔ دو ٹانگیں اس لیے ہوتی ہیں کہ ٹانگ کے اوپر ٹانگ رکھ کر بیٹھا جا سکے۔ ٹانگنا ٹانگ ہلانے کو کہتے ہیں‘ جیسے کہ نمبر ٹانگنا یا نمبر ٹانگ۔ دو ٹانگیں اس لیے بھی دی گئی ہیں تاکہ بوقت ضرورت ایک ٹانگ کٹوائی جا سکے۔ لاٹھی بڑھاپے میں تیسری ٹانگ کا کام دیتی ہے ۔ جسے آلۂ ضرب کے طور پر بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ ران اور پنڈلی پر مشتمل ہے جس میں پائوں بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ انہیں دبوایا بھی جاتا ہے۔ چلتے چلتے تھکتی تو ٹانگیں ہیں لیکن نام پائوں کا لیا جاتا ہے۔ اگرچہ گھٹنا بھی ٹانگ ہی کا حصہ ہے لیکن اس کا مقام اور افادیت اپنی ہے جیسا کہ ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ۔ حالانکہ اس سے زیادہ مہمل بات اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ گوڈوں میں بیٹھا بھی جاتا ہے‘ پانی ناپنے کے بھی کام آتے ہیں۔
پائوں
یہ دھو کے پئے بھی جاتے ہیں‘ اور انہیں پکڑا بھی جاتا ہے اور تعظیم کے لیے چُھوا بھی۔ منقول ہے کہ بس میں سوار ایک مسافر نے ساتھ بیٹھے مسافر سے پوچھا‘ کیا آپ پولیس آفیسر ہیں‘ اس نے نفی میں جواب دیا۔ پھر پوچھا کہ پولیس میں آپ کا کوئی رشتے دار ہو‘ اس پر بھی جواب نفی میں ملا تو وہ بولا‘ تو پھر ماما‘ میرے پائوں پر پائوں کس خوشی میں رکھا ہوا ہے؟ اسے پسارا اور پھیلایا بھی جاتا ہے۔ ٹانگ اور پائوں کے درمیان واقعہ جو چیز ہے‘ وہ ٹخنہ کہلاتی ہے۔ اس میں پانی ہونا ضروری ہے۔ پائوں پٹخا بھی جاتا ہے اور انہیں سر پر رکھ کر بھاگا بھی جاتا ہے۔ اُلٹے پائوں واپس بھی آیا جاتا ہے‘ چڑیلوں کے پائوں ویسے بھی اُلٹے ہوتے ہیں‘ اسی لیے انہیں پچھل پائی کہا جاتا ہے۔ دبے پائوں آنے کا مقصد پائوں کو دبا کر چلنا ہے۔ ایڑی بھی اس کا اہم حصہ ہے جسے چوٹی کے ساتھ ملا کر زور لگایا جاتا ہے ،جبکہ تلوے صرف چاٹنے کے کام آتے ہیں جوتا اس میں پہنا جاتا ہے‘ محبوبائیں اس کا استعمال کم ہی کرتی ہیں جیسا کہ ایک شاعر نے کہا ہے ع
وہ ترا کو ٹھے پہ ننگے پائوں آنا یاد ہے
آج کا مطلع
سونا سا کچھ رگوں میں چھپایا ہوا تو ہے
چہرے سے رنگِ خاک اڑایا ہوا تو ہے

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں