''قومی آواز‘‘ کے مدیر وغیرہ تو کوئی آئے نہیں۔ اختر فیروز نے رئیس صاحب سے شاید کیا سُنا ہو گا۔ معلوم ہوا قومی آواز کے دفتر جانا ہے۔ اس قسم کے مشورے مجھ سے چھُپا کے آسمانوں میں کئے جاتے تھے۔ قومی آواز ہمارے مقامی رحیم یار خاں کے روزناموں کی طرح کا روزنامہ ہے۔ دفتر میں مدیر اوّل موہن چراغ سے ملاقات ہوئی۔ سُرخ و سفید خوبصورت نوجوان آدمی‘ چائے اور مٹھائی سے وہیں چھوٹے سے کمرے میں جس طرح عام ملنے والوں کی تواضع کی جاتی ہے‘ رئیس صاحب کی بھی کی گئی۔ پیغام رئیس صاحب نے اپنے ہاتھ سے لکھ کر دیا۔ مُدعا اس دفتر میں حاضری کا تھا بھی یہی۔ پیغام چھپے تو ذرا دلی کے حلقوں میں مقبول خاص و عام ہوں۔ اخبار کا عملہ ہی کتنا تھا‘ وہ تک رئیس صاحب قبلہ کی آمد سے بے خبر نکلا۔ چائے پی کر رئیس صاحب نے میز در میز دیکھ بھال شروع کی تو عملے کے لوگوں نے جانا کون آیا۔ خطاب کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی۔ حرف حرف سے ہندوستان کی محبت ٹپکی پڑتی تھی۔ اخبار کیا ہے موجودہ دور کا اخبار پہلے ایک تحریک ہوا کرتے تھے‘ اب کاروبار ہیں۔ ہندوستان پاکستان میں کشیدگی بڑھانے میں اخبارات کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ ہو گا لیکن ہندوستانی اخبارات کے کچھ اور مقاصد بھی ہیں۔ مثلاً ایک ذہن پیدا کرنا‘ ہندوستانیت۔ رئیس صاحب کا پیغام یہ رہا۔'' محظوظ ہو جیے آج چھتیس برس بعد کراچی سے دہلی پہنچنے اور ہندوستان کے سب سے بڑے اردو اخبار ''قومی آواز‘‘ میں قدم رکھنے اور اس کے اخلاص پیشہ دردمند اور باشعور کارکنوں سے ملاقات کرنے کے بعد ذہن کا ایک دریچہ ماضی کی طرف اور دوسرا دریچہ مستقبل کی طرف وا ہوا۔ ذہن کا وہ دریچہ جو ماضی کی طرف وا ہوتا ہے‘ اس سے جھانکا تو یہ شعر ذہن میں گونجنے لگا کہ ؎
دل پہ یوں چھوڑ گیا سیلِ بلا اپنے نقوش
جس طرح ریت پہ لہروں کے نشاں ہوتے ہیں
اور دوسرا دروازہ مستقبل کی طرف کشادہ ہوا اور اس دریچے یا دروازے سے میں نے محبت اخلاق دوستی حسنِ مفاہمت کی اس دنیا کا نظارہ کیا جو ''پاک ہند دوستی‘‘ کی شکل میں نمودار ہونے والی ہے۔
جو نئی دُنیا ابھی تخلیق کی منزل میں ہے
اُس کا کربِ آفرینش بھی ہمارے دل میں ہے
قومی آواز ہندوستانی قوم کی آواز ہے۔ میں پاکستانی عوام‘ پاکستانی دانشوروں‘ پاکستانی اخبار نویسوں اور پاکستانی شاعروں کے ساتھ اُس آوازکا ہم نوا ہوں اور میرے رفیق سفر اور رفیق کار محمود احمد اکبر آبادی جنرل سیکرٹری پاک ہند پریم سبھا اور جناب اختر فیروز سیکرٹری جنرل مہران رائٹرز کلچرل گلڈ بھی میرے ہم آواز ہیں۔‘‘
رئیس امروہوی 11 ؍ اکتوبر 1982ء
قومی آواز میں چیمیسفورڈ کلب کے مشاعرے کی روداد بھی چھپی۔ ابتدائیہ ملاحظہ ہو۔ ''دو قریب ترین پڑوسی ملکوں میں دوستی اور آپسی تعلقات کی جڑوں کو مضبوط کرنے میں اور صلح و آشتی کی فضا کو پربہار بنانے میں زبان اور قلم کا کردار خاص ہوتا ہے اور یہ سب کچھ شاعروں‘ ادیبوں‘ صحافیوں اور فنکاروں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ دہلی کی صحافتی زندگی میں آپسی اتحاد اور یکجہتی کے علمبردار کنور مہندر سنگھ بیدی سحر ایسے ہی پرخلوص وضع دار اور ملنسار لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے دوستی کے اس درخت کو پروان چڑھانے میں جو کام کیا ہے وہ فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اس پس منظر میں ہم اپنے قارئین کی توجہ چیمیسفورڈ کلب میں منعقدہ پاکستان اور ہندوستان کے شعراء کی محفل کی طرف مبذول کرنا چاہتے ہیں جو پاک ہند پریم سبھا کراچی کے صدر رئیس امروہوی اور اختر فیروز کے اعزاز میں تھی۔ اس موقعہ پر کنور مہندر سنگھ بیدی سحرنے کہا کہ انڈو پاک مشاعروں کا سلسلہ پھر شروع کیا جا رہا ہے جس کے لیے شعراء کے ساتھ سامعین کی بھی مدد کی ہمیشہ ضرورت رہے گی۔ جناب رئیس امروہوی تقریباً پچیس سال کے بعد ہماری دعوت پر ہندوستان تشریف لائے ہیں...
اور‘ اب خانہ پُری کے طور پر یہ تازہ غزل :
زمیں سے نکلے ہیں یا آسماں سے آئے ہیں
کوئی پتا نہیں چلتا کہاں سے آئے ہیں
جہاں پہ آئے ہیں اب اور رُک نہیں سکتے
وہاں پہ جا نہیں سکتے جہاں سے آئے ہیں
اسی لیے کسی آداب سے نہیں واقف
جہاں پہ کوئی نہیں ہم وہاں سے آئے ہیں
جسے کسی بھی طرف راستا نہیں ملتا
اِک ایسے ٹھہرے ہوئے کارواں سے آئے ہیں
بتائیں گے یہ پرندے ہی داستاں اپنی
جو ایک برق زدہ آشیاں سے آئے ہیں
جو ہم نے آپ لگایا تھا واپسی کے لیے
تلاش کرتے ہوئے اُس نشاں سے آئے ہیں
وہ جس نے اپنے یہ پیغام روک رکھے تھے
جو آئے ہیں تو اُسی مہرباں سے آئے ہیں
تمہاری سمت اگر آئے ہیں کوئی جھونکے
تو یہ پلٹ کے مرے بادباں سے آئے ہیں
مرے سُخن میں سلیقے جو ہیں کوئی تو ظفر
یہ فیضِ سلسلۂ رفتگاں سے آئے ہیں
آج کا مقطع
محبت سربسر نقصان تھا میرا‘ ظفر‘ اب کے
میں اس سے بچ بھی سکتا تھا مگر ہونے دیا میں نے