عزیزم افضال نوید نے کینیڈا سے اپنی تازہ غزل ارسال کی ہے جس سے پہلے وہ لکھتے ہیں،
''پیارے ظفر اقبال جی ، آپ نے راستے کا ادراک دے دیا، مشکل بات کوآسان کرنے کا طریقہ کہ آمد کی کیفیت بھی ساتھ میں شامل ہو جائے‘‘
غزل کا مطلع ہے ؎
درپس آئینہ تحلیل ہوا جاتا ہوں
جسم سے روح میں تبدیل ہُوا جاتا ہوں
اس زمین میں انہوں نے جو دیگر قوافی استعمال کیے ہیں وہ کچھ اس طرح سے ہیں یعنی تمشیل، تخیئل ، تسہیل اور ترتیل وغیرہ۔ اس سلسلے میں پہلی عرض تو یہ ہے کہ زمین، غزل میں بنیادی کردار ادا رکرتی ہے جبکہ سیدھی سادی زمینوں میں جن کے قوافی بھی معروف ہوں اور مشکل نہ ہوں تو ان میں عمدہ اشعار نسبتاً زیادہ آسانی اور روانی سے نکل آتے ہیں۔ مشکل یا غیرمانوس قوافی غزل کو غیردلچسپ تو بناتے ہی ہیں ان میں سے عموماً اچھا شعر بھی نہیں نکلتا۔ قافیے کو اس کے گھر تک پہنچانا کوئی صفت کی بات نہیں ہے، چنانچہ جو قوافی بجائے خودعمدہ شعر
کی تشکیل میں رکاوٹ بنتے ہوں ان سے اجتناب کرنا چاہیے، ہاں، اگر آپ قاری پر اپنی دھاک بٹھانا چاہتے ہوں تو الگ بات ہے ،لیکن قاری اس لیے غزل نہیں پڑھتا، شعر پہلی قرأت میں اگر سمجھ میں آ جائے تو اچھی بات ہے لیکن سمجھ میں آنے سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس میں وہ لطف ہو جس کا غزل کے شعر سے تقاضا کیا جاتا ہے کہ اس میں کوئی تاثیر، مزہ، شوخی، شرارت کچھ تو ہے کہ سپاٹ شعر ویسے ہی بے جواز ٹھہرتا ہے۔ چنانچہ جو شعر پڑھ، یا سن کر آپ کے منہ سے واہ، نہ نکلے وہ کیا شعر ہوا۔ تاہم، یہ بھی ضروری اور ممکن نہیں ہے کہ غزل کا ہر شعر مذکورہ طلسم کا حامل ہو یعنی حاصل غزل ہو، گویا غزل میں ایک دوشعر بھی ایسے نکل آئیں، بے شک باقی اشعاراتنے زور دار یا پرتاثیر نہ بھی ہوں تو کام چل جاتا ہے، لیکن اگر ساری غزل ہی میں پھسپھسی ہو تو اس غزل کا کوئی جواز نہیں ہو سکتا۔ غزل کاایک معاملہ یہ بھی ہے کہ اس کا ہر شعر ایک علیٰحدہ اکائی کی شکل میں ہوتا ہے یعنی نظم کے برعکس، اس لیے اگر آپ کے اندر شاعری واقعی موجود ہے تو نو دس اشعار میں ایک آدھ شعر تو ایسا ہو کہ قاری کو تھوڑی دیر کے لیے روک لے اور اسے لوگوں کو سنا کر بھی مزہ آئے۔
سوغزل کا شعر تو دو مصرعوں ہی کا کھیل ہوتا ہے اور شاعر کو خود بھی معلوم ہوتا ہے اور اگر نہیں تو ہونا چاہیے کہ شعر بنا ہے یا نہیں۔ اور شعر کے شعر ہونے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ الفاظ کو جوڑ کر انہیں بزعم خود شعر کی شکل دے دی جائے کیونکہ اس طرح شعر کا صرف پُتلا بنا دیا جاتا ہے اور اگر اس میں لطف سخن کی جان نہ ڈالی جائے تو وہ پُتلا ہی رہے گا جو اپنی جگہ سے خودہل سکتا ہے نہ قاری کو ہلا سکتا ہے ،یعنی را لُگانی کا ایک مجسمہ۔
شعر آپ صرف اپنے لیے نہیں کہتے، خا ص طور پر وہ شعر یا غزل جسے آپ کہیں چھپوا بھی رہے ہوں، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ اس بات کا بھی خیال رکھیں گے کہ وہ پڑھنے والوں کو بھی پسند آئے۔ اگرچہ پڑھنے والوں کی بھی دو قسمیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ اسے شعر کا وقوف اور پہچان نہ ہو اور اس کے لیے دو مصرعوں کا ہر شعر ایک برابر ہوتا ہے۔ یقینا شاعر کا مقصد یا مخاطب ایسا قاری نہیں ہوتا۔ اسے تحسین نا شناس ہی کہیں گے جبکہ دوسری طرح کے قاری کی شعر سے توقعات سراسر مختلف ہوتی ہیں۔ چنانچہ یقینا شاعر ایسے ہی قاری سے مخاطب ہوتا ہے۔ بصورت دیگر اگر شاعر اور قاری ایک ہی قبیل کے ہوں تو یہ ساری بحث بیکار ہو گی۔
کراچی سے مبین مرزا کا جریدہ ''مکالمہ‘‘ موصول ہوا ہے جس میں لیاقت علی عاصم کی گیارہ غزلیں درج ہیں۔ اس شاعر کی غزلوں کا شروع ہی سے نوٹس لیتا رہا ہوں کہ اس نے عمدہ اشعار بھی کہہ رکھے ہیں۔ اس نے بھی ان غزلوں میں بالعموم غیرمانوس زمینیں اورقوافی استعمال کیے ہیں، خاص طور پر ردیفیں، جن میں سے کچھ ،یہ نہیں، تمام شد، سانس لیجئے، می رقصم، مری راکھ، وغیرہ ایسی ردیفوں میں اچھا شعر نکالنا بہت مشکل ہوتا ہے اور ان سے گریز کرنا چاہیے۔ حقیقت یہی ہے کہ سب سے پہلے شاعر کے ذہن میں غزل کی زمین آتی ہے یا وہ کوئی خاص زمین تیار کرتا ہے جس پر اسے غزل اُستوار کرنا ہوتی ہے ۔ بلکہ،اسے قافیے کا خیال بھی رکھنا چاہیے کہ زمین کے ساتھ قافیہ بھی ، غزل کے کامیاب یا ناکام ہونے کا باعث بنتا ہے جو بجائے خود زمین کا حصہ ہوتا ہے۔ قاری کا ہر گز یہ تقاضا نہیں ہے کہ آپ مثلاً مشکل ترانی بھی کتنی تعداد میں استعمال کر سکتے ہیں کیونکہ ایسے شاعر کا سارا زور شعر کو ''جوڑنے‘‘ پر ہی صرف ہو جاتا ہے اور وہ شعر کو ''جوڑ‘‘ کر ہی کسی قدر مطمئن ہو جاتا ہے اور اسے شعر بنانے کی مزید زحمت اٹھانے کا موقعہ بھی نہیں ملتا ،یا اس میں یہ ہمت ہی باقی نہیں رہ گئی ہوتی اور اسے عمدہ شعر کہنے کی سرشاری نصیب ہی نہیں ہوتی۔
زیادہ افسوسناک اور مایوس کن بات یہ رہی کہ ان میں جو صاف، سیدھی زمینوں والی غزلیں ہیں، وہ بھی بس گزارے موافق ہی ہیں جبکہ گزارے موافق شاعری کو محض گوارا کیا جاتا ہے، ویسے بھی میرے اندازے کے مطابق غزل پر یہ پیغمبری وقت ہے اور اچھے اچھے شعراء جن سے ہمیشہ عمدہ شعر کی توقع ہوتی ہے ۔ بس گزارا ہی کرتے دکھائی دیتے ہیں، میری بات چھوڑیے، میں تو اپنے آپ کو ویسے بھی ریٹائرڈ سمجھتا ہوں لیکن اکثر نئے اور جدید غزل کہنے والے شعرار میں بھی وہ اگلا سادم خم نظر نہیںآتا، یہ بھی نہیں ہے کہ غزل کی جگہ نظم لے رہی ہے کیونکہ نظم کی حالت اس سے بھی بدتر ہے۔ حالانکہ اس سے لطف سخن کا مطالبہ یا تقاضا کم ہی کیا جاتا ہے ، اس لیے رسائل کو بھی میرا مشورہ، یعنی بے طلب مشورہ یہ ہے کہ شاعری چھاپنے سے درگزرکریں اور صرف نثر پر گزارا کرنے کی کوشش کریں۔
آج کا مطلع
مزہ کچھ تو ملے گا موج کو منجدھار کرنے میں
بھلے میں ڈوب ہی جائوں یہ دریا پار کرنے میں