نوازشریف کی مقبولیت سے کسی کو انکار نہیں ہے بلکہ سپریم کورٹ کے فیصلے اور عمر بھر کے لئے نااہل ہو جانے کے بعد بھی مقبولیت کا ایک قابل ذکر حصہ اب بھی موجود ہے۔ لیکن اس بات پر کوئی غور نہیں کرتا کہ یہ حاصل کس قیمت پر کی گئی ہے اور مُلک کو یہ کتنے میں پڑی ہے۔ موصوف کے حامیوں کا استدلال یہ ہے کہ اگر نوازشریف نے کھایا ہے تو کام بھی کیا ہے۔ اس سے آگے ان کی سوچ کام کرنے سے قاصر ہے۔ عام لوگوں کے لئے کرپشن کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ کرشن کو ہر سطح پر اس قدر عام کر دیا گیا کہ یہ ایک روٹین کا معاملہ ہو کر رہ گیا اور لوگوں نے سمجھوتہ کر لیا ہے کہ یہ بھی اُن کی زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے!
اس تناظر میں نوازشریف اینڈ کمپنی کے لئے اس گھوڑے پر سوار ہو جانا کوئی مشکل نہ رہا۔ بڑی تشہیری مہم اس غرض کے لئے میڈیا پر چلائی گئی اور دن رات ایک کر کے یہ باور کرا دیا گیا کہ دونوں بھائیوں نے ملک کو تیزرفتار ترقی کی راہ پر ڈال دیا ہے اور یہ اربوں روپے غریب عوام کی جیب پر ڈاکہ ڈال کر خرچ کیے گئے حالانکہ یہ ان کی ذاتی مشہوری کے لئے تھے اور ان سے واجب الوصول ہیں۔ چنانچہ ترقی کا جھوٹ اس کثرت اور تواتر سے بولاگیا کہ اکثریت اسے سچ سمجھنے لگی اور یہ حضرات اپنے اصل کام میں بھی لگے رہے۔
ملکی سیاست میں کرپشن کا گند گھولنا بھی انہی شرفاء کو زیب دیتا ہے کیونکہ بھٹو جیسا بھی تھا‘ اس پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے لیکن اس کے بعد بینظیر بھٹو کو بھی ان حضرات نے اس راہ پر ڈال دیا اور مرحومہ کا یہ کہنا ریکارڈ پر موجود ہے کہ اگر ہم پیسہ نہ بنائیں تو نوازشریف کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں اور چونکہ نوازشریف کی سیاست صرف اور صرف پیسے کی سیاست تھی تو اس کا جواب بھی پیسے ہی کی سیاست سے سے ہو سکتا تھا۔ چنانچہ زرداری کی حکومت آئی تو اس طریق کار کو بام عروج پر پہنچا دیا گیا۔ نواز برادران کے موجودہ دور میں کرپشن کا عالم یہ تھا کہ چیف جسٹس جمالی اپنے تقریباً ہر بیان میں کرپشن کا ''رونا‘‘ رونا ضروری سمجھتے کہ کرپشن کا یہ ناسُور ملک کے لئے زہر قاتل ثابت ہو رہا ہے۔ حتیٰ کہ صدر مملکت بھی اس کے خلاف دہائی دے اُٹھے اور تان اس پر ٹوٹی کہ خود میاں نوازشریف یہ کہہ اُٹھے کہ بے پناہ کرپشن موجود ہے اور اگر ہم کرپشن کو روکیں تو ملکی ترقی رُک جائے گی اور یہ وہ دلیل ہے جو آج تک کہیں نہیں دی گئی حالانکہ اس سے پہلے خم ٹھونک کر یہ دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ دیا گیا ہے بلکہ بقول چھوٹے میاں صاحب کرپشن کے بُت کو پاش پاش کر دیا گیا ہے‘ نیز یہ کہ اگر ایک دھیلے کی کرپشن ثابت ہو جائے تو اُن کا نام بدل دیا جائے جبکہ ابھی حال ہی میں شہبازشریف کا یہ بیان بھی آیا کہ وہ نوازشریف کی دیانت کا قرآن پر حلف دینے کو تیار ہیں!
سوال یہ تھا کہ اگر آپ کی ناک کے نیچے اربوں کی کرپشن ہو رہی ہے اور بیورو کریسی کشتوں کے پشتے لگائے چلی جا رہی ہے اور یہ سارا پیسہ جیسے تیسے بیرون ملک بھیجا جا رہا ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے۔ اگر آپ واقعی ایماندار ہیں تو آپ کے نیچے افسروں نے جو طوفان مچا رکھا ہے‘ یہ کیسے ممکن ہے۔ مچھلی ہمیشہ سر سے خراب ہونا شروع ہوتی ہے۔ اوپر کرپشن نہ ہو تو نیچے اس کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ کرپشن روکنے کا نیب کے نام سے جو ادارہ موجود تھا وہ بھی صرف پٹواریوں اورکلرکوں یا بہت چھوٹے افسروں کے خلاف کارروائی تک محدود رہا حتیٰ کہ سپریم کورٹ تک کو یہ کہنا پڑا کہ نیب نام کا کوئی ادارہ موجود ہی نہیں ہے جبکہ نیب کے چیئرمین کا بڑی مچھلیوں سے حذر کرنے کا عذر یہ تھا کہ ہم اپنے ریگولیٹر کی اجازت کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے۔ نتیجہ یہ ہے کہ حکمرانوں اور بیورو کریسی کے خلاف اربوں کے سکینڈل دبا دیئے گئے اور سردخانے کی نذر کر دیئے گئے جو اب کہیں کھلنے جا رہے ہیں۔
کرپشن عام آدمی کی زندگی پر کس طرح اثرانداز ہوتی ہے اور اپنی تباہ کاریوں کا جلوہ دکھاتی ہے۔ خود عام آدمی اس کا ادارک رکھتا ہے نہ یہ ادارک حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ کمیشن اور کک بیکس کوئی ایسی پیچیدہ کام نہیں ہے۔ مثلاً کسی بھی غیر ملکی سودے میں حکومت اگر پانچ روپے کی چیز دس یا سات روپے میں خریدتی ہے تو حکومتی خزانے کو یہ چیز سات یا دس روپے میں پڑتی ہے جبکہ اضافی تین یا پانچ روپے کک بیک یا کمیشن حاصل کرنے والے یعنی حکمرانوں کی جیب میںچلا جاتا ہے جس کے لیے طریقہ واردات یہ ہے کہ کمیشن کا پیسہ بیرون ملک ہی حکمرانوں کے اکائونٹ میں جمع ہو جاتا ہے اور جو روپیہ مقامی منصوبوں کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے وہ ہنڈی یا منی لانڈرنگ کے ذریعے ملک سے باہر بھیج دیا جاتا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہر روز بارہ ارب روپے کسی نہ کسی طرح بیرون ملک منتقل ہوتے ہیں جس سے مہنگائی بڑھتی ہے‘ آئے روز ٹیکس لگانے پڑتے ہیں اور جو بوجھ خزانے پر پڑتا ہے وہ پے درپے ملکی و غیر ملکی قرضوں سے پورا کیا جاتا ہے۔ یہ تو تھی کرپشن کی زد میں آنے والی معاشی صورتحال۔ سیاسی المناکیوں میں سے ایک یہ ہے کہ خارجہ پالیسی کے طفیل ہم بری طرح بین الاقوامی تنہائی میں مبتلا ہو چکے ہیں ماسوائے چین کے ہم یہ دعویٰ کر ہی نہیں سکتے کہ فلاں ہمارا دوست ملک ہے۔ بیرونی‘ خصوصاً مغربی ممالک میں کشمیر کے معاملے پر بھی ہمیں کوئی تائید حاصل نہیں ہے۔ ہمارا پاسپورٹ ہر جگہ شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ہماری برآمدات میں تشویشناک کمی رونما ہو چکی ہے۔ ہسپتال اور درس گاہیں ایک عبرتناک منظر پیش کرتی ہیں۔
حکومت افواج پاکستان کی حمایت اور اعتماد حاصل کرنے میں بھی اپنی مودی نواز پالیسی کی وجہ سے مسلسل ناکام چلی آ رہی ہے۔ چنانچہ یہ جعلی مقبولیت اس وقت تک ہی ہے جب تک یہ ٹولہ جسے سپریم کورٹ کی طرف سے ایک مافیا کا نام دیا گیا ہے۔ ریفرنسوں کے ذریعے اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچ جاتا‘ یعنی ع
سیل زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے
آج کا مقطع
خشمگیں مجُھ پر ہوا‘ اِک بار پھر وہ‘ اے ظفرؔ
پھر اُسے میرے سوالوں کا جواب آیا نہیں