موصولہ کتابوں رسالوں کا بس ذکر ہی کرتا ہوں کہ پورے تبصرے کے لیے ایک تو کالم میں جگہ نہیں ہوتی اور دُوسرے میں تبصرے کا اپنے آپ کو اہل بھی نہیں سمجھتا۔ فیصل آباد سے عزیزی شہزاد بیگ کا مجموعہ غزل ''تہمت‘‘ مجھے مل چکا ہے جس کے بارے میں موصوف کی تاکید یہ ہے کہ اس پر پورا کالم لکھیں کہ آپ شاعری ڈسکس کرتے ہیں اور کچھ باتوں کی سمجھ بھی آتی ہے (بقول اُس کے) کچھ عرصہ پہلے حضرت نے فون کر کے اپنی زیر طبع کتاب کا بتایا اور اس کا دیباچہ لکھنے کی فرمائش کی جس پر میں نے معذرت کر دی۔ پھر کہا‘ فلیپ ہی لکھ دیں‘ لیکن پھر معذرت کرنا پڑی‘ اور اب یہ کتاب میرے سامنے ہے جسے ''اکائی‘‘ نے چھاپا ہے اور قیمت 300 روپے رکھی ہے۔ توصیفی رائے دینے والوں میں ڈاکٹر خورشید رضوی‘ عطا الحق قاسمی‘ سعود عثمانی‘ ارشد جاوید‘ حسن عباس رضا‘ افضال نوید‘ صفدر سلیم سیال اور قمر رضا شہزاد شامل ہیں اور انتساب نورین بیگ کے نام ہے۔
محبوب خزاں مرحوم کا ضرب المثل شعر ہے ؎
بات یہ ہے کہ آدمی شاعر
یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا
اگر اجازت دیں تو میں ایک اپنا بھی قولِ ناقص درج کئے دیتا ہوں کہ شاعری کی ٹرین میں درمیانہ درجہ نہیں ہوتا۔ فسٹ کلاس ہوتی ہے یا تھرڈ کلاس۔ مطلب یہ کہ جو شعر فسٹ کلاس نہیں‘ وہ تھرڈ کلاس ہے کیونکہ گزارے موافق شعر تو سبھی کہہ لیتے ہیں۔
کتاب کو سونگھ کر ہی میں فیصلہ کر لیتا ہوں کہ اسے پڑھنا ہے یا نہیں کیونکہ شاعری اپنے آپ کو خود پڑھواتی ہے‘ اسے بیگار کے طور پر نہیں پڑھا جا سکتا تاہم چونکہ پورے کالم کی فرمائش کی گئی تھی اس لیے کوئی ڈیڑھ سوصفحات پر چھپی ہوئی غزلیں میں ساری کی ساری پڑھ گیا۔ جو شعر مجھے پسند بھی ہو‘ میں اس کے بارے میں بھی یہ کہنے سے قاصر ہوتا ہوں کہ یہ مجھے پسند ہے۔
سو‘ شعر کے لیے ضروری ہے کہ اس میں کوئی تازگی یا تاثر بھی ہو اور پڑھتے یا سنتے ہی آپ کے مُنہ سے ''واہ‘‘ نکل جائے‘ میں تو بے معنی شعر کا بھی مخالف نہیں ہوں لیکن وہ شعر جسے شاعر نے خود بے معنی بنایا ہو‘ ضروری نہیں کہ شعر سمجھ میں بھی آئے‘ غالبؔ کہتا ہے ؎
نہیں گرسرو برگ ادراک معنی
تماشائے نیرنگ صورت سلامت
یعنی شعر ویسے تو بھلا لگے۔ معنوی نہ سہی۔ اس میں کوئی صوری خوبی تو ہو۔ بلکہ میں تو اُوٹ پٹانگ شعر کے بھی حق میں ہوں بشرطیکہ اس میں شاعر کا کچھ اپنا آپ بھی نظر آئے۔ میں ساری کتاب اس لیے بھی پڑھ گیا کہ کچھ ایسے اشعار نکال سکوں جو آپ کی ضیافت طبع کے لیے بھی پیش کئے جائیں‘ لیکن افسوس‘ صد افسوس کہ مجھے ایک شعر ایسا نہیں ملا بلکہ اس کتاب میں گزارے موافق اشعار بھی خال خال ہی ملیں گے۔ حتیٰ کہ بعض اشعار تو ایسے بھی ملیں گے جن کے دو مصرعوں میں کوئی منطقی تعلق یا ربط ہی دستیاب نہیں ہے۔ یہی صورتحال کتاب کے ٹائٹل کی بھی ہے کہ نام کے ساتھ اُس کا کوئی تعلق یا مطابقت ہی نظر آتی۔ کتاب فنی نقائص سے تقریباً پاک ہے‘ تاہم دو تین شعر مجھے بہت کھٹکے مثلاً ؎
مرے جہاں میں تو کچھ بھی نہیں تھا باقی رہا
ترے خیال سے آباد کر رہا ہوں میں
اس کے پہلے مصرعے میں تقلید لفظی ہے جو باقاعدہ مصائب سخن میں شمار ہوتی ہے جبکہ مصرعہ اس طرح بھی ہو سکتا تھا ؎
مرے جہاں میں تو کچھ بھی رہا نہ تھا باقی
اسی طرح کے ایک اور شعر کا پہلا مصرعہ دیکھیے ع
جسے گرنے سے ہم نے تھا بچایا
یہ اس طرح بھی ہو سکتا تھا ع
بچایا تھا جسے گرنے سے ہم نے
ایک اور شعر ہے ؎
اُس کی چاہت نے دھو دیا شہزاد
ورق جو دفتر سیاہ میں تھا
دوسرے مصرع میں ''ورق‘‘ غلط تلفظ میں باندھا گیا ہے۔ مصرعہ اس طرح بھی ہو سکتا تھا ع
جو ورق دفتر سیاہ میں تھا
بہرحال‘ اس کتاب نے مجھے شرمندہ کیا ہے‘ ایک صاحب لکھتے ہیں کہ 20 سال تک ادب تخلیق کرنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ مجھ میں تو لکھنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے لیکن میں اُس وقت تک اتنا مشہور ہو چکا تھا کہ لکھنا ترک بھی نہیں کر سکتا تھا۔ شہزاد بیگ بھی خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ کتنا مشہور ہو چکے ہیں اور اب انہیں کیا کرنا چاہیے۔
اور اب خانہ پری کے لئے یہ تازہ غزل :
بُرا مطلوب تھا ہم کو کہ اچھا چاہتے تھے ہم
ابھی تک بے خبر ہیں آپ سے کیا چاہتے تھے ہم
ہمارے واسطے جب آپ کا ہونا ہی کافی تھا
تو پھر بتلائیں کیا اس سے زیادہ چاہتے تھے ہم
حقیقت ہے کہ ہم نے آپ سے کچھ بھی نہیں چاہا
مگر لگتا یہ تھا سارا زمانہ چاہتے تھے ہم
یہی کہتے رہے ہیں چاہیے کچھ بھی نہیں ہم کو
وگرنہ چاہنے کو اچھا خاصا چاہتے تھے ہم
بھلا ہم آپ سے بیگانہ رہ کر کیسے لگتے ہیں
جو سچ پوچھیں تو اتنا ہی تماشا چاہتے تھے ہم
کسی پر آج تک ظاہر نہیں ہونے دیا ہم نے
یہ مرنا چاہتے تھے ہم کہ جینا چاہتے تھے ہم
کہیں بنیاد ہی جس کی نہ ڈالی گئی ہو اب تک
اک ایسا شہر جس میں آنا جانا چاہتے تھے ہم
پسند آیا تھا کوئی درمیانی راستا ہم کو
کہ رکھی دین کی خواہش نہ دُنیا چاہتے تھے ہم
ظفرؔ ہم نے مناسب ہی نہ سمجھا تھا کہ بتلاتے
جسے چاہا نہیں دراصل کتنا چاہتے تھے ہم
آج کا مقطع
بہم تو تھے سبھی اسباب ڈُوبنے کے‘ ظفرؔ
کہ دشت و در میں چمک آبِ انتظار کی تھی