"ZIC" (space) message & send to 7575

غزل پر کُچھ خیالاتِ پریشاں

شاعری کسی نظریے کے تحت نہیں تخلیق کی جاتی‘ ایسی شاعری میں نظریہ تو مل جاتا ہے‘ شاعری تلاش کرنا پڑتی ہے‘ تاہم شاعری میں ‘جو واقعی شاعری ہو‘ کسی نظریے کا سراغ لگایا جا سکتا ہے۔ غزل کا معاملہ بالکل ہی اور ہے کہ یہ بنیادی طور پر عشق و محبت کی شاعری ہے‘ اگرچہ اس میں دوسرے موضوعات کی بھی منافی نہیں ہے لیکن غزل کی شاعری کو آپ دل کی شاعری کہہ سکتے ہیں جبکہ نظم میں دل اور دماغ دونوں ہی بروئے کار آتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ غزل میں دماغ کا کوئی لینا دینا ہی نہیں ہوتا۔ اعجاز حسین بٹالوی کا یہ قول پہلے بھی نقل کر چکا ہوں کہ غزل کا شعر خوش مزہ ہونا چاہیے۔
غزل اور نظم میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ غزل کے شعر سے فوری لطف اور تاثر کی توقع کی جاتی ہے۔ اس سے کوئی علم یا گیان حاصل کرنا مقصود و مطلوب نہیں ہوتا کہ اس کے لیے نظم موجود ہے‘ سو‘ غزل گو اگر عاشق ہے تو سبحان اللہ اسے شعر کہنا بھی چاہیے اور اس کا حق ادا کرنا بھی۔ اس لیے بھی کہ عشق غزل گو کے لیے ایک سہولت مہیا کرتا ہے اور شعر کہنے کا تقاضا کرتا ہے اور اگر آپ عاشق نہیں ہیں تو کسی سابقہ عشق اور اس کی یادوں سے کام لیا جا سکتا ہے جبکہ بعض شعراء تو دوسروں کے تجربہ عشق سے بھی کام چلا لیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ مضمون لازمی طور پر عشق ہی ہو‘ تاہم عشق کے علاوہ کہے گئے شعر میں لطف اور مزے کا پہلو خال خال ہی نظر آئے گا اور یہ بات کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ عشقیہ شعر نسبتاً زیادہ سہولت سے کہا جا سکتا ہے کہ اس کے پیچھے احساس اور جذبے کی ایک شدت کارفرما ہوتی ہے جبکہ غیر عشقیہ شعر ایک خاص تفکر کا متقاضی ہوتا ہے اور اس کے لیے موضوع باقاعدہ تلاش کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ غیر عشقیہ شعر متاثر تو کر سکتا ہے لیکن ایک والہانہ ردعمل پیدا کرنے سے بالعموم قاصر ہوتا ہے۔ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ یہ غزل کے لیے کوئی میڈ ایزی قسم کا نسخہ نہیں ہے اور صرف میرے تاثرات ہیں اور چونکہ میں یہ کام کرتا ہوں اس لیے اس کے بارے میں میرے کچھ خیالات بھی ہونے چاہئیں جن کی پابندی دوسروں کے لیے ازبس ضروری نہ ہو‘ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان سے اختلاف کی گنجائش بہرصورت موجود ہے۔ ویسے بھی شعر و ادب میں کوئی حتمی رائے تو ہوتی ہی نہیں جبکہ سہولتیں بھی ہر کسی کی اپنی اپنی ہوتی ہیں اور مجبوریاں بھی۔ پھر اس تحریر کا اولین مقصد یہ ہے کہ غزل لکھنے والے خود بھی غزل پر بات کیا کریں اور اسے نقادوں ہی کا درد سر نہ سمجھا جائے کیونکہ شعر کے بارے میں خود شاعر کی بات زیادہ حقیقی ہونی چاہیے اور غزل گوئوں کو اس پر کھل کر بات کرتے رہنا چاہیے۔ 
میں غزل کے حوالے سے گزارے موافق شاعری کے حق میں نہیں ہوں کیونکہ اسے صرف گوارا کیا جاتا ہے حالانکہ ایسے قارئین کی تعداد کم نہیں ہے جو ایسی شاعری پر گزارہ بھی کر لیتے ہیں اگرچہ میری اپنی شاعری بیشک گزارے موافق بھی نہ ہو‘ لیکن میں اسے ناشاعری ہی قرار دیتا ہوں‘ اور ہمارے ہاں بھرمار بھی زیادہ تر ایسی ہی شاعری کی ہو رہی ہے‘ اگرچہ پرلطف خوش مزہ اور پرتاثیر شعر کہنا کوئی اتنا آسان بھی نہیں ہے اور مکھی پر مکھی مار کہ شاعری ہی اس قدر تخلیق کی جا رہی ہے اور مروتا اس پر داد بھی دی جا رہی ہے بلکہ اکثر اوقات حقیقی بھی‘ کیونکہ جہاں شاعری کا معیار بہتر نہیں ہوتا‘ وہاں اہل قاری بھی پیدا نہیں ہوتا اور ایسی شاعری کا سب سے بڑا نقصان یہی ہے کہ یہ قاری کی تربیت کرنے کی بجائے اس کو مزید پیچھے لے جاتی ہے۔ غزل کے شعر کا ایک ''عیب‘‘ یہ بھی ہے کہ یہ فوری اور توصیفی ردعمل کا متقاضی ہوتا ہے۔ یعنی شعر سن کر اگرآپ کے منہ سے ''واہ‘‘ نہیں نکلتی تو وہ شعر بیکار ہے کیونکہ شعر تو وہ ہے جو پڑھتے یا سنتے ہی آپ کو یاد بھی ہو جائے اور آپ اسے آگے چلانے کے لیے بیتاب بھی ہو جائیں ورنہ اگر آپ اچھا ہے کہہ کر خاموش ہو جائیں تو وہ کوئی شعر نہ ہوا۔ اصل اور بنیادی بات یہ ہے کہ یہ سارا کچھ اس فرمے پر منحصر ہے جو ہر شاعر کے ذہن میں فٹ ہوتا ہے اور شعر اس وقت تک مکمل ہی نہیں ہوتا جب تک وہ اس فرمے کے مطابق نہ ہو۔ 
غزل گوئوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ غزلوں کی غزلیں بھرتی کے اشعار سے محمور ہوتی ہیں یہ ٹھیک، ہے کہ غزل کا ہر شعر حاصل غزل نہیں ہوتا اور اس میں دو تین شعر ہی کام کے نکل آئیں تو اسے غنیمت سمجھنا چاہیے لیکن اکثر ایسی غزلیں ایسے ایک آدھ شعر سے بھی محروم رہ جاتی ہیں اور رسالے ایسی غزلوں سے بھرے ہوتے ہیں‘ اگرچہ ہر ایسا شاعر اپنے آپ کو ملک الشعرا سے کم نہیں سمجھتا اور‘ اب خانہ پُری کیلئے یہ تازہ غزل :
اندھیرے میں سمندر کو ستارہ کر رہے تھے ہم
کیا تھا ایک بار‘ اور اب دوبارہ کر رہے تھے ہم
ہمیں اپنا بھی دخل انداز ہونا بار خاطر تھا
تمہیں ملنا تھا اور خود سے کنارہ کر رہے تھے ہم
یہ اتنی سی توجہ بھی تمہاری کم نہیں‘ ورنہ
گزارہ ہو رہا تھا اور گزارہ کر رہے تھے ہم
تمہی نے دے دیا طعنہ ہمیں بے کار رہنے کا
وگرنہ کام تو سارا تمہارا کر رہے تھے ہم
ہماری پیش قدمی کو مگر تم نے غلط سمجھا
ابھی قائم ذرا سا بھائی چارہ کر رہے تھے ہم
کبھی اک دوسرے کی بات ہی سمجھی نہیں‘ ورنہ
اشارہ کر رہے تھے تم‘ اشارہ کر رہے تھے ہم
جو تھا مستور اُسے مستور ہی رہنے دیا ہم نے
جو ظاہر تھا اُسی کو آشکارا کر رہے تھے ہم
جو ٹکڑوں میں بٹا تھا اس کو باہم جوڑنے کے بعد
جو سالم تھا‘ اُسے اب پارہ پارہ کر رہے تھے ہم
ظفرؔ اس دل سے کوئی کام تو لینا ہی تھا ہم نے
یہی دیوار تھی جس کو سہارا کر رہے تھے ہم
آج کا مطلع
جسے ہردم اُچھالتا ہوں‘ ظفرؔ
ایک اٹھنّی ہے‘ وہ بھی کھوٹی ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں