شعروادب میں مین میخ نکالنا خاصا ناپسندیدہ عمل ہے لیکن غلط بیانی اور نقائص کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے اور اگر ان کی بروقت نشاندہی نہ کی جائے تو انہیں دُہرائے جانے کا خدشہ بھی موجود رہتا ہے جبکہ تخلیق ادب اور بالخصوص تخلیقِ شعر‘ تخلیق حُسن ہی کا دوسرا نام ہے لیکن اگر آپ ایک خوبصورت عورت کی تصویر بناتے ہوئے اس کی ناک چپٹی یا آنکھیں بھینگی دکھا دیں تو اس سے زیادہ افسوسناک صورتِ حال اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ اگر آپ نثری نظم لکھ رہے ہوں تو اور بات ہے لیکن اگر غزل یا پابند نظم پر طبع آزمائی کر رہے ہوں اور اس میں کوئی مصرع بے وزن ہو جائے تو اس سے بڑی زیادتی اور کوئی نہیں ہو سکتی۔
چنانچہ طبع کا موزوں ہونا شعر گوئی کی پہلی شرط ہے‘ اور اگر یہ آپ پہلی سیڑھی ہی نہیں چڑھ سکتے تو اوپر جانے کا سوال پیدا ہی نہ ہو گا۔ اگرچہ‘ میرے سمیت موزوں طبع لوگ بھی بعض اوقات کسی فنی غلطی کے مرتکب ہو سکتے ہیں لیکن اسے اگر آپ شعار ہی بنا لیں تو یہ ہرگز قابل معافی نہیں ہو گا۔ بیشک بعض اوقات بے دھیانی میں بھی ایسا سہو واقع ہو جاتا ہے کیونکہ غلطی کرنا تقاضائے بشریت بھی ہے لیکن کبھی کبھار ہمیشہ اور لگاتار نہیں۔
علاوہ ازیں‘ ایک غلطی حامد کی ٹوپی محمود کے سر پر سجا دینا بھی ہے جس کا ایک مظاہرہ آج ہمارے ایک موقر اُردو روزنامہ کے ادبی ایڈیشن نے کیا ہے جس میں ''میری بہترین غزلیں‘‘ کے عنوان سے جگر مرادآبادی کی مشہور غزل جس کا مطلع ہے ؎
اے جذبہ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے
منزل کے لیے دوگام چلوں اور سامنے منزل آ جائے
بہزاد لکھوی کے نام سے چھاپ دی گئی ہے جبکہ اس ایک غزل کو غزلیں کا نام دیا گیا ہے‘ یہ بھلا ہوا کہ تصویر اور تعارف بہزاد لکھنوی ہی کے حوالے سے ہے۔ اسی پر بس نہیں‘ ایک جگہ پاک ٹی ہائوس کا تعارف کراتے ہوئے اسے‘ سُرخی کے علاوہ چار بار پاک ٹی وی ہائوس کہا گیا ہے۔ کتابت کا سہو یا ٹائپ کی غلطی ایک آدھ بار ہو سکتی ہے‘ پانچ بار نہیں‘ حتیٰ کہ سُرخی میں بھی یہ کمال دکھایا گیا ہے۔
ہمارے کرم فرما ستیہ پال آنند کے ہاں وزن کی غلطی اُن کا طرّہ امتیاز بن کر رہ گیا ہے جس کا رونا ہم اکثر اوقات روتے بھی رہتے ہیں۔ ماہنامہ الحمراء میں اُن کا کلام باقاعدگی سے شائع ہوتا ہے۔ جریدہ ہذا کا شمارہ اگست اور ستمبر پیش نظر ہے۔ شمارہ اگست میں موصوف کی نظم شہپرکے عنوان سے شامل ہے جس کے مندرجہ ذیل مصرعے خارج از وزن ہیں ؎
اُس کو خود بھی تو کچھ معلوم نہ تھا
اُونچی چوٹی پہ کہیں بیٹھا ہوا یک بیک
دوسری نظم کا عنوان ہے ''شیشے کا تالاب‘‘ جس کا یہ مصرع محل نظر ہے ع
مالک و مُختار ہوتا لاب کی مالک و مختار ہے اب
یہ بھی ان کی مہربانی ہے جو ایک نظم میں تین عروضی غلطیوں پر اکتفاء کر لی‘ ورنہ شمارۂ ستمبر میں جو ان کی تین نظمیں زیورِ طبع سے آراستہ ہوئی ہیں۔ پہلی نظم ''دو جمع دو‘‘ میزبان تین اس کا یہ مصرع دیکھیے ع
اور جمع و تفریق کا علم ریاضی مختلف سچائیاں ہیں
دوسری نظم ''کتنے بھائی بہن تھے ہم‘‘ کا یہ مصرع جس میں بہن کو غلط تلفظ میں باندھا گیا ہے ع
کُل ملا کر کتنے بھائی بہن تھے ہم۔ اس کا آخری مصرع ع
یاذکریاً یا ذکریا‘ یا ذکریاً ذکی...بھی خارج از وزن ہے
ہمارے خیال میں ستیہ پال آنند تھوڑے تردد سے یہ نقائص دور کر سکتے تھے کیونکہ ان کے زیادہ تر مصرعے رواں اور بے عیب ہیں جبکہ ان کی نظمیں قابل اعتناء بھی ہیں۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے تو موصوف گزشتہ ساٹھ سال سے شعر کہہ رہے ہیں اور ہر بار یہ اہتمام روا رکھتے ہیں کہ کوئی نظم ایسی نہ لکھیں جس کے تمام مصرعے باوزن ہوں! زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ نشاندہی کرنے پر بھی ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا کہ یہ ناشاعری کے زمرے میں آتا ہے اور اس کا تدارک کرنے کی ضرورت ہے۔
اور‘ اب ضمیر طالب کے کچھ اشعار :
یہ کس کے دن ہیں ضمیر طالب
یہ کس کی راتوں میں آ گیا ہوں
مجھے ضرورت ہے مشورے کی
میں اپنی‘ باتوں میں آ گیا ہوں
اب خبر تک نہیں ہوتی اُس کو
شہر سے ہو کے چلا جاتا ہوں
جاگنے میں جہاں جا سکتا نہیں
میں وہاں سو کے چلا جاتا ہوں
یہ جو ویرانے ہیں ویرانے کہاں ہوتے ہیں
یہ جو دیوانے ہیں دیوانے کہاں ہوتے ہیں
ہر حقیقت میں حقیقت نہیں ہوتی ضمیرؔ
سارے افسانے بھی افسانے کہاں ہوتے ہیں
کسی خواہش‘ کسی لالچ‘ کسی رغبت کے بغیر
رہ رہا ہوں میں ترے ساتھ محبت کے بغیر
عشق میں دخل نہیں کوئی ارادے کا ضمیر
یہ نماز ایسی ہے جو ہوتی ہے نیت کے بغیر
آج کا مطلع
ابھی کچھ دیر اس کو یاد کرنا ہے
ضروری کام اس کے بعد کرنا ہے