ڈرامہ نویس اور فکشن رائٹر برادرم ڈاکٹر یونس جاوید نے بتایا ہے کہ ایک کالم نویس نے اپنے آج ہی کے کالم میں یہ شعر ؎
خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
علامہ اقبال سے منسوب کردیا ہے کہ یہ علامہ کے مشہور اشعار میں سے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ شعر مولانا ظفر علی خان کا ہے اور اس ضرب المثل شعر کی خلقت اور ملکیت سے انہیں محروم کر دینا سراسر زیادتی ہی کے زمرے میں آئے گا جبکہ علامہ کا بھی اس سے کچھ بھلا نہیں ہوگا۔
کسی شعر کو کسی دوسرے شاعر سے منسوب کیے جانے سے اصل شاعر کی حق تلفی ہوتی ہے اور اگر یہ ارادتاً کیا جائے تو صورت حال مزید افسوسناک ہو جاتی ہے اور بعض اوقات دلچسپ بھی۔ ممتاز فارسی شاعر انوریؔ ایک بار شہر میں جا رہے تھے کہ انہوں نے ایک جگہ کچھ لوگوں کو جمع دیکھا‘ جہاں ایک شخص ان کے اشعار بطور انوری سنا رہا تھا جس پر انوریؔ نے کہا کہ شعر چور تو سنے تھے‘ آج شاعر چور بھی دیکھ لیا!
بعض اوقات توارد بھی ہو جاتا ہے اور کسی دوسرے شاعر کا کوئی شعر یا مصرع لاشعور میں محفوظ ہو جاتا ہے اور کوئی شاعر اسے اپنے طور پر بیان کر دیتا ہے۔ ہمارے دوست جمیل یوسف نے کسی رسالے میں اپنی غزل چھپوائی جس کا یہ مصرع ع
رہا ہوئے تو پرندے اُڑان بھول گئے
بھی باندھ دیا جو دراصل اقبال ساجدؔ کا مصرع تھا۔ میں نے اپنے کالم میں اس کا نوٹس لیا تو وہ اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگے حالانکہ کہہ سکتے تھے کہ غیرشعوری طورپر ایسا ہوگیا ہے۔ خود میرے ساتھ بھی ایک دو بار ایسا ہو چکا ہے۔ کئی سال پہلے میں نے یہ شعر کہا ؎
یہ شہر چھوڑ دے کہ شرافت اسی میں ہے
رُسوائے شہر اب تری عزت اسی میں ہے
اس کے بعد میں نے رسالہ ''اوراق‘‘ میں شہزاد احمد کی ایک غزل دیکھی جس میں مصرع ثانی کے طور پر یہ مصرع استعمال کیا گیا تھا۔
بعض اشعار ''عطا‘‘ کی ذیل میں بھی آتے ہیں۔ ایک بار مجید امجد‘ منیر نیازی اور میں رسالہ ''سات رنگ‘‘ کے دفتر میں بیٹھے تھے کہ منیر نیازی نے اپنی غزل سنانا شروع کی‘ جس کا شعر ہے ؎
گئے دنوں کی روشنی
کہاں ہے تو‘ کہاں ہے تو
اسی دوران امجد صاحب نے یہ شعر کہہ کر منیر نیازی سے کہا کہ وہ اسے بھی شامل کر سکتے ہیں۔ ؎
یہ اک خلائے دم بخود
یہ اک جہانِ آرزو
چنانچہ منیر نیازی نے وہ شعر قبول کیا جو ان کی مذکورہ غزل میں موجود ہے۔
اسی طرح ایک بار محمد سلیم الرحمن‘ ریاض احمد چوہدری اور میں رسالہ ''سویرا‘‘ کے دفتر ہی بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے کہ محمد سلیم الرحمن نے شرارتاً یہ شعر لکھ کر میری طرف بڑھا دیا ؎
شاعر وہی شاعروں میں اچھا
کھا جائے جو شاعری کو کچّا
میں نے اس مطلع پر پوری غزل کہی جو گلآفتاب میں شامل ہے۔
ہمارے دوست جناب فرہاد احمد فگار بتاتے ہیں کہ یہ مشہور شعر مرزا علی اکبر مضطرب کا ہے؎
وصالِ یار سے دونا ہوا عشق
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
اور‘ اب یہ خانہ پُری:
کوئی سنے نہ سنے‘ اب سنایا جائے گا
یہ گیت آخری ہے اور گایا جائے گا
وہاں پہ ہوگی ملاقات اس کے ساتھ‘ جہاں
نہ جایا جائے گا مجھ سے نہ آیا جائے گا
جُدا کیے گئے ہیں راستے ہمارے‘ مگر
یہ جشن وہ ہے کہ مل کر منایا جائے گا
جو لایا جائے گا حفظ وامان میں اپنی
ہوس پرستوں سے اس کو بچایا جائے گا
ابھی کچھ اور ہے گنجائش اس محبت کی
ابھی کچھ اور یہ باجا بجایا جائے گا
رکھوں گا یاد کہ میں نے اُسے بھلانا ہے
اسی طریقے سے اس کو بھلایا جائے گا
ہماری اپنی ہیں آنکھیں‘ مگر ہماری نہیں
کہ دیکھنا ہے وہی جو دکھایا جائے گا
اگر تو خود سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں
تو راستے سے اسے بھی ہٹایا جائے گا
یہ دل میں بھیڑ تو کافی لگی ہوئی ہے‘ ظفرؔ
مگر یہیں کہیں اس کو بھی پایا جائے گا
آج کا مقطع
شاعری اور طرح کی اسے کہتے ہو ظفرؔ
میں پریشاں ہوں کہ یہ شاعری ہے بھی کہ نہیں