میرے پاس اظہار رائے کے لیے جو کتابیں آتی ہیں‘ چند ماہ پہلے اُن میں سے ایک کتاب کے پسِ سرورق جس کتاب کا اشتہار تھا‘ اس کا عنوان کچھ اس طرح سے تھا۔ ''ظفر اقبال کی لسانی تشکیلات و تجربات کا تحقیقی مطالعہ‘‘۔مصنف کا نام یاد نہیں۔ میرا خیال تھا کہ مصنف یہ کتاب مجھے بھی بھیجیں گے لیکن کوئی ایک ماہ تک بھی کتاب مجھے نہ ملی تو میں نے سوچا کہ یہ ضرور میرے خلاف ہو گی ورنہ کتاب مجھے ضرور بھجوائی جاتی جبکہ یہ تجربات پہلے ہی بہت سے ناقدین کو ہضم نہیں ہو رہے۔
تاہم‘ مجھے تعجب تھا کہ ''گلافتاب‘‘ کو شائع ہوئے نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اور اب اس گڑھے مُردے کو کیوں اُکھاڑا جا رہا تھا لیکن میں مطمئن اور خوش تھا کہ دیکھوں کس کس طرح سے میرے لتے لئے جاتے ہیں اور اب میں واقعی اس روّیے سے لطف اندوز ہوتا ہوں جبکہ کتاب لکھنے والے نے بالکل غلط اندازہ لگایا کہ میں اس کا بُرا منائوں گا اور اب اس باسی کڑھی میں اُبال آیا ہی ہے تو اس کا مزہ میں کیوں نہ لوں کہ اس مُردے کو کیسے زندہ کیا گیا ہے۔
اتنا مجھے یاد رہ گیا کہ کتاب فیصل آبادکے ایک اشاعتی ادارے نے شائع کی ہے جس کے بارے میں میرا گمان تھا کہ یہ ہمارے شاعر دوست انجم سلیمی کا ادارہ ہے‘ میں نے موصوف کوفون کیا کہ آپ نے فلاں کتاب چھاپی ہے‘ مصنف نے تو مجھے نہیں بھیجی‘ آپ ہی بھجوا دیں‘ جس پر انہوں نے بتایا کہ اب اُس ادارے سے اُن کا کوئی تعلق نہیں ہے‘ تاہم وہ کتاب حاصل کر کے مجھے جلد بھجوا دیں گے چنانچہ ان کا بھیجا ہوا نسخہ مجھے مل چکا ہے اور اس کے بارے میرے اندر ایک خاص شوق بھی پیدا ہو چکا تھا۔
کتاب خاصی سمارٹ ہے اور میرے بارے چھپنے والی کتاب کو سمارٹ تو ضرور ہونا چاہیے بیشک وہ میرے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ مصنف کا نام منیبہ زہرا نقوی ہے اور اس کی قیمت 300 روپے رکھی گئی ہے اور یہ بھی اطمینان ہوا کہ میرے مخالفین اس پر تین سو روپے ضرور خرچ کریں گے اور مجھے افسوس بھی ہوا کہ موصوفہ نے یہ کتاب لکھ کر اپنا وقت ہی ضائع کیا ہے کیونکہ اس میں کم و بیش اُنہی باتوں کو دہرایا گیا ہو گا جو اب تک میرے شعری تجربات کے حوالے سے مزے لے لے کر یار لوگ بیان کر چکے ہیں‘ اس لیے بہتر تھا کہ یہ خاتون یہ کتاب لکھنے کی بجائے کوئی بہتر کام کر لیتیں۔کتاب کا کوئی دیباچہ ہے نہ سرورق پر کوئی تحریر‘ ظاہر ہے کہ اس فرسودہ موضوع پر لکھنے کے لیے کوئی تیار ہی نہیں ہو گا البتہ انتساب ضرور موجود ہے جس کے مطابق کتاب امّی جان اور ابا جی کے نام ہے۔ تاہم‘ مجھے یقین تھا کہ اس کتاب کی اشاعت کے پیچھے کوئی نہ کوئی سازش ضرور ہے کیونکہ ملک عزیز میں ہونے والے ہر واقعہ کے پیچھے کوئی نہ کوئی سازش ضرور ہوتی ہے جن میں حکومت وقت کے خلاف ہونے والی سازش ہرکہ و مہ کی زبان پر ہے‘ خدا جانے یہ سلسلہ کب ختم ہو گا۔
یہ کتاب ایک یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی طرف سے پیش کی گئی ہے جہاں ہونے والے ایک مشاعرے میں شرکت سے میں نے معذرت کر دی تھی اور بظاہر اس کتاب کی اشاعت اسی کا شاخسانہ ہے۔ آغاز میں ایک تعارفی نوٹ کے حوالے سے پتا چلتا ہے کہ اس کتاب میں موصوفہ نے اپنے کوئی نصف درجن بہنوں بھائیوں کی معاونت حاصل کر رکھی ہے جس کے بعد یہ تحقیقی مقالہ مکمل ہوا۔
کتاب کو چار ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے جو کچھ اس طرح سے ہیں۔ خاکسار کے تعارف کے بعد خاکسار کے سوانح‘ شخصیت اور کتب کا تذکرہ ہے‘ پھر باب دوم ہے جس میں اُردو شاعری میں لسانی تشکیلات سے بحث ہے‘ اسی باب میں اُردو شاعری میں لسانی مباحث کا جائزہ ہے اور لسانی تشکیلات کا تعارف و پس منظر۔ باب سوم میں ظفر اقبال کی شاعری میں لسانی تجربات‘ ظفر اقبال کے نزدیک ایک لسانی تجربات کی ضرورت و اہمیت‘ ''گلافتاب‘‘ کے لسانی تجربات کا جائزہ اور ظفر اقبال کی شاعری میں لسانی تجربات کی نوعیت۔ اس کے علاوہ مندرجہ ذیل موضوعات سے بحث کی گئی ہے : کثیر اللسانی تجربات‘ گرامر میں ردوبدل‘ زبان شکنی و زبان سازی‘ ذولسانی تجربات‘ پنجابی زبان اور ثقافتی حوالے‘ متروک الفاظ کا استعمال‘ تلفظ میں تبدیلی‘ پنجابی طرز پر تراکیب سازی‘ نئے معیار کی تشکیل‘ الف کے اضافے سے نئے الفاظ اور محاورات میں تصرف اور منفرد استعارے۔ اس کے بعد باب چہارم‘ ظفر اقبال کے لسانی تجربات کا مجموعی جائزہ۔
میں نے خوشی خوشی کتاب کا مطالعہ شروع کیا تو میری خوش گمانی باقاعدہ مایوسی میں تبدیل ہونے لگی کہ یہ تو ایک بیحد پازیٹو جائزہ تھا حتیٰ کہ میرے اپنے جائزوں سے بھی زیادہ پازیٹو! جبکہ کتاب کے آخری پیراگراف میں تو مصنفہ نے کھوتا ہی کھوہ میں ڈال دیا ہے‘ لکھتی ہیں :
''ظفر اقبال کے لسانی تجربات کے جائزہ سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ اُنہوں نے لسانی تشکیلات کے بنیادی رجحان سے اثر تو قبول کیا ہے لیکن اُسے بعینہ اپنی غزل کا جزو نہیں بتایا‘ بلکہ روایات اور جدت کے امتزاج سے وہ الفاظ گرامر‘ تلفظ‘ زبان سازی اور زبان شکنی کے تجربات کرتے ہوئے نئی راہ سلجھاتے نظر آتے ہیں اور اس حوالے سے وہ ہر طرح کے الفاظ کو غزل کا جزو بناتے ہوئے اسے نئے شعری پیکر اور نئی معنویت کا لبادہ عطا کرتے ہیں اور یوں اُن کی غزل اسلوبیاتی سطح پر اپنے اندر فکر و معنی کا ایسا غیر مختتم خزانہ رکھتی ہے کہ جس میں الفاظ تراکیب نئے مصادر اور قوافی پیرہن بدل بدل کر غزل کی روایاتِ کہنہ کو یوں اجالتے ہیں کہ ظفر اقبال کی پیروی کرنا جان جوکھم میں ڈالنے کے مترادف دکھائی دیتا ہے۔ الغرض ظفر اقبال نے نئی شعری روایات کی تشکیل سے ابلاغ کی نئی سطحوں اور نئے لسانی گلشنوں کی طرف پیشرفت کا عندیہ دیا ہے‘‘۔
مجھے مایوس کرنے پر منیبہ زہرا نقوی کا شکریہ جنہوں نے میرے اس خدشے کو بھی خاصی حد تک درست کر دیا ہے ؎
یہی ہے فکر‘ کہیں مان ہی نہ جائیں‘ ظفرؔ
ہمارے معجزۂ فن پہ گفتگو ہے بہت
آج کا مقطع
کسی کے دل میںجگہ مل گئی ہے تھوڑی سی
سو‘ کچھ دنوں سے ظفرؔ گوشہ گیر ہو گئے ہیں