یہ جدید اور معتبر ذولسانی شاعر انجم سلیمی کی نظموں کا مجموعہ ہے جسے دست خط مطبوعات فیصل آباد‘ اسلام آباد نے شائع کر کے اس کی قیمت 300 روپے رکھی ہے۔ جس کا انتساب سُپردگی‘ آئندگان کے لیے ہے۔ اس کتاب کے دیباچے مستند نظم کو شعراء آفتاب اقبال شمیم‘ ابرار احمد اور قاسم یعقوب نے لکھے ہیں۔ پس سرورق شاعر کا مختصر تعارف اور تصویر ہے۔ آخری صفحے پر شاعر کی دیگر تصنیفات کی فہرست درج ہے۔ خیال انگیز ٹائٹل کے ساتھ عمدہ سفید کاغذ پر چھپی ہوئی اس کتاب کا یہ دوسرا ایڈیشن ہے۔ ڈاکٹر وحید احمد اور ڈاکٹر جاوید انور کے علاوہ یہ نظم کے تیسرے اہم شاعر ہیں جو ہمیں فیصل آباد نے دیئے ہیں۔ واضح رہے کہ پیشے کے لحاظ سے وحید احمد‘ جاوید انور اور ابرار احمد‘ تینوں ڈاکٹر ہیں۔ افسوس کہ ڈاکٹر جاوید انور کا چند سال ہوئے حسین جوانی میں انتقال ہو گیا۔
انجم سلیمی کے بارے میں آفتاب اقبال شمیم لکھتے ہیں :
انجم سلیمی کی ان نثری نظموں میں جا بہ جا بے ساختگی سے گہری بات کہہ جانے کا انداز‘ اور تخلیقیت کا عنصر ہمیں متوجہ کرتے ہیں۔ بعض توانا اور خیال انگیز لائنیں تو بجائے خود ایک پُوری نظم کا تاثر دیتی ہے۔ ڈاکٹر ابرار احمد کی رائے میں :
انجم سلیمی کا قدیم خیال کیا ہے؟ اس کے لیے اس کے پاس موجود قدیم خبر سے رجوع کرنا پڑتا ہے‘ یہ قدیم خبر وہ ہے جو حجروں‘ خانقاہوں اور درگاہوں کی پناہ گاہ میں رہی۔ قاسم یعقوب اس کتاب کے بارے میں کہتے ہیں۔
انجم سلیمی کی نثری نظم‘ نثری نظم کے روایتی حصار میں مقید نہیں اور نہ ہی اس نظم کا تخلیقی رشتہ نثری نظم کی تاریخی روایت سے ملتا ہے‘ بلکہ انجم کی نثری نظم حیران کن حد تک آزاد نظم کا اگلا پڑائو اور مخفی طور پر اس سے گہرے رشتے میں منسلک اظہارِ ذات ہے۔
یہ وہ اقتباسات ہیں جو مذکورہ بالا دیباچوں سے لے کر اندرون سرورق درج کئے گئے ہیں۔ اُوپر مذکور فہرست کے مطابق شاعر کی مطبوعات میں اس کتاب کے علاوہ سُکے اتھرو : پنجابی شاعری‘ سنتاپ‘ پنجابی شاعری میں : اُردو غزلیں اور زیر طبع کتابوں میں دُھوپ کی دستک : اُردو نظمیں‘ قیاس : گرہ دار غزلیں اور مُنکھ دی وار : پنجابی شاعری شامل ہیں۔ آغاز میں غیر معمولی پنجابی شاعرہ امرتا پریتم کا یہ مصرعہ درج ہے :
دعویٰ عشق دا ہے ہنر دا نئیں
میں غزل کا آدمی ہوں‘ میں نے نثری نظم تو نہیں لکھی لیکن مجھے خوشی ہے کہ میں نثری نظم کے اوّل اوّل تسلیم کاروں میں شامل ہوں جب ہمارے بزرگ شاعر احمد ندیم قاسمی نثری نظم کو شاعری مانتے ہی نہیں تھے۔ میں کہا کرتا تھا کہ جو لوگ نثری نظم کو شاعری نہیں مانتے‘ اُنہیں نسرین انجم بھٹی کی نظمیں پڑھنی چاہئیں‘ اور اب میں اس ضمن میں ابرار احمد کا نام لیا کرتا ہوں۔ نیز یہ کہ بہت کم جینوئن شاعروں نے نثری نظم کی طرف توجہ دی ہے۔ میں تو نثری نظم کو مستقبل کی شاعری قرار دے چکا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ نثری نظم لکھنے والے کے لیے ایک زور دار نثر نگار ہونا بھی ضروری ہے۔ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ نثری نظم لکھنے والوں نے اسے گنجل دار جبکہ بے معنی بنانے کی طرف زیادہ توجہ دی ہے اور یہ کام وہ لوگ کرتے ہیں جن کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہوتا۔
بظاہر تو غزل کے برعکس‘ نثری نظم لکھنا کافی آسان ہونا چاہیے کیونکہ اس میں قافیہ و ردیف کی پابندی بھی نہیں ہوتی لیکن پُر تاثیر نثری نظم لکھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ ایک اور بات یہ بھی ہے کہ نثری نظم کی طرف وہ لوگ مائل ہوتے ہیں جو معروضی نظم نہیں لکھ سکتے۔ لیکن یہ بھی ہے‘ اور میں ایک بار پھر ابرار احمد کی مثال دینے پر مجبور ہوں کہ اس کی نثری اور عروضی یعنی آزاد نظمیں ایک دوسری سے بڑھ کر ہوتی ہیں۔ نیز یہ کہ نثری نظم لکھنے کے لیے بھی آپ کا شاعر ہونا ضروری ہوتا ہے جبکہ انجم سلیمی غزل میں بھی اُتنا ہی قابل اعتناء ہے جتنا نثری نظم میں‘ جبکہ وہ پنجابی شاعری میں بھی اہل نظر سے اپنا آپ منوا چکا ہے۔
اور‘ اب اس البیلے شاعر کی کچھ نظمیں :
میں اپنے لیے ایک نظم لکھنا چاہتا ہوں
نظم لکھنے سے پہلے؍مجھے ایک کتبہ لکھنا چاہیے؍ کتبہ لکھنے سے پہلے ؍ مجھے ایک قبر کھودنی چاہیے ؍ قبر کھودنے سے پہلے ؍ مجھے ایک دشمن بنانا چاہیے ؍ دشمن بنانے سے پہلے؍ مجھے ایک سچ بولنا چاہیے؍ کیونکہ ؍ ایک سچ بولنے سے ؍ بہت سے دشمن ہو جاتے ہیں؍ بہت سے دشمن ہونے سے ؍ بہت سی قبریں کھودنا پڑتی ہیں؍ بہت سی قبروں پر لگانے کے لیے؍ بہت سے کتبوں کی ضرورت پڑتی ہے؍ اور بہت سے کتبوں پر؍ بار بار ایک ہی نام اچھا نہیں لگے گا؍ بہت سے کتبوں پر لگانے کے لیے مجھے ایک نظم لکھنی چاہیے!
ایک ہم خیال کی موت
میں نے اُس کے کفن میں رکھ دیئے؍ کچھ ٹھنڈے بوسے ؍ پلکوں پر ٹکے ہوئے کچے آنسو؍ اور کاغذ پر اُونگھتی ہوئی ایک ادھوری نظم؍
میں نے اپنے پاس رکھ لیے؍ کچی نیند جاگے ہوئے خواب ؍ مُشک کافور میں بھیگی ہوئی سانسیں؍ اور خُدا جیسی ایک تنہائی!!
دُشمن کا نوحہ
رونے والو!! تھوڑی سی تعزیت مجھ سے بھی؍ میری خواہش تھی دشمن زندہ رہے؍ ایمرجنسی وارڈ میں پڑے؍ پُرسکون جسم پر؍ دو آنسو تو میں بھی رو سکتا ہوں؍ آخر اس کی شریانوں میں؍ ایک بوتل خون کی موت تو میری بھی ہوئی ہے!
ایک قدیم خیال کی نگرانی میں
زمانے کی میلی آنکھ نے ؍ مجھے دُھندلا دیا تھا؍ دُوسروں پر کُڑھتے کُڑھتے؍ مجھے اپنی تشویش ہوئی؍ بہت دنوں سے بُجھا پڑا تھا؍ جب دو دماغوں کی ہم آہنگی نے؍ مجھے روشن اور رواں کر دیا؍ معاً... میں نے خود کو ساحل پر مچھلی کی آنکھ سے دیکھا؍ اُف! سب کچھ کتنا سطحی ہے!؍ ساحل ڈوبنے سے پہلے پہلے؍ میں اپنے اندر اُتر گیا؍ جہاں میں پہلے سے موجود تھا؍ میں نے خوشگوار حیرت سے خود کو چھُوا؍ کہیں میں کوئی گزری ہوئی ساعت تو نہیں؟؍ یہ جان کر تسلی ہوئی...کہ ایک قدیم خیال کی نگرانی میں؍ میں کچھ اور گہرا اور چمکیلا ہو گیا ہوں؍ اور یہ بھی کہ...اب میں اپنے آرپار بھی دیکھ سکتا ہوں!!
آج کا مقطع
دھیان رکھتا ہوں‘ ظفرؔ زخمِ تماشا کا بہت
پھر بھی ٹانکے کئی کھل جاتے ہیں اکثر مرے