آج ہمدم دیرینہ رانا اکرام ربانی کا میسج موصول ہوا جس میں انہوں نے کلبھوشن یادیو کے حوالے سے لکھے جانے والے میرے ٹوٹے پر اظہار خیال کرتے ہوئے اسے نہ صرف پیشگوئی قرار دیا بلکہ کہا کہ وہ خود بھی سمجھتے ہیں کہ بالآخر اس کے بارے فیصلہ میری رائے کے مطابق ہی ہو گا۔ اس دوران بھارتی جاسوس کی ملاقات بھی ان کی والدہ اور اہلیہ سے کروائی جا چکی ہے جو انسانی ہمدردی کا ایک خوبصورت اظہار تھا۔ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو اس نے ہمارے ملک میں جو کچھ بھی کیا وہ بھارتی حکومت کے کل پُرزے کی حیثیت سے کیا جس میں اُس کا اپنا کوئی مفاد نہیں تھا۔ اس طرح اسے سزا دینے کی بجائے یہ معاملہ براہ راست بھارتی حکومت سے اُٹھایا جائے۔
اس کا ایک مقدمہ بین الاقوامی عدالت میں بھی چل رہا ہے۔ اس میں اگر فیصلہ اس کے حق میں بھی ہو جائے تو بھی پاکستان اس پر عمل کرنے کا پابند نہیں ہے کیونکہ یہ سیاسی قیدی کا معاملہ نہیں تھا‘ جاسوسی کا تھا جس کی سزا ہر کہیں پھانسی کا پھندا ہے جس کی سنائونی اُسے دی جا چکی ہے‘ تاہم میری رائے میں پاکستان کو کسی بھی ایسے فیصلے کا انتظار کئے بغیر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رحم کی اپیل پر ہمدردانہ غور کرتے ہوئے اسے چھوڑ دینا چاہیے اور جہاں تک اسٹیبلشمنٹ کا تعلق ہے تو حکومت اگر اس کے حق میں فیصلہ کر لے تو اس کی جانب سے بھی‘ اپنے ایک حالیہ بیان کے مطابق کسی بھی معاملے حتیٰ کہ بھارت کے ساتھ معاملات کے حوالے سے بھی‘ سول حکومت کی پالیسی کی حمایت کی جائے گی‘ نیز یہ بھی کہ بعض جنگیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو لڑائی کی بجائے محبت سے بھی جیتی جا سکتی ہیں!
اب آتے ہیں رانا صاحب کی طرف کہ ہم دونوں کی نوجوانیاں پیپلز پارٹی کی ہنگامہ خیزیوں ہی میں گزریں۔ جہاں تک اوکاڑہ کا تعلق ہے تو یہ چوہدری عبدالرزاق برتنوں والے کی بیٹھک میں قائم ہوئی جہاں رانا صاحب کے والد گرامی رانا غلام صابر عُرف کھدر پوش بھی آیا کرتے اور جو خود ماضی میں رُکن قومی اسمبلی رہ چکے تھے۔ الیکشن 70ء کا مرحلہ آیا تو صوبائی اسمبلی کا ایک ٹکٹ رانا اکرام ربانی کے حصے میں آیا جس پر وہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہو کر پنجاب میں وزیر مقرر ہوئے۔ دوسری بار کامیاب ہوئے تو وہ قائد حزب اختلاف تھے۔ اس کے بعد پارٹی میں باقاعدہ دو دھڑے بن گئے جبکہ دوسرا بڑا دھڑا رائو سکندر اقبال کی قیادت میں کام کرتا رہا۔ مشہور تھا کہ پارٹی قیادت خود بھی ہر جگہ دھڑے بازی کی حوصلہ افزائی کرنے کی ذمہ دار تھی کہ یہ زیادہ فعال رہے۔ رانا غلام صابر مرحوم چونکہ خود ایک زبردست عوامی لیڈر تھے اس لیے بھی رانا اکرام کے لیے ایک مکمل تربیت گاہ موجود تھی۔ عجیب زمانہ تھا وہ۔ اُس پر کھل کر روشنی ڈالنے کے لیے صفحوں کے صفحے درکار ہیں۔
اس کے بعد جب ہم لوگ بھٹو صاحب کی پالیسیوں سے مایوس ہوئے تو میرے اور رانا صاحب سمیت پرانے لوگ رفتہ رفتہ پارٹی چھوڑنے لگے۔ میں تو رامے صاحب کی مساوات پارٹی میں چلا گیا اور رانا صاحب مسلم لیگ میں شامل ہو گئے بلکہ کچھ عرصہ محکمہ اینٹی کرپشن میں افسری بھی کرتے رہے۔ اس کے بعد ہمارا آپس میں رابطہ ہی نہ رہا‘ ماسوائے ایک ریستوران میں ہیلو ہائے کے۔ ان کے بھائی رانا احتشام ربانی ادبی مصروفیات میں لگ گئے۔ دیپالپور روڈ پر ان کا ڈیرہ اُسی طرح آباد ہے‘ ماسوائے سیاسی ہنگاموں کے۔ اوکاڑہ کی سیاست میں رانا‘ رائو اور میاں خاندان کا بڑا حصہ رہا ہے جو میاں فیملی کی حد تک اب بھی باقی ہے کہ میاں یاور زمان صوبائی وزیر ہیں اور ان کے قریبی عزیز میاں محمد منیر رُکن صوبائی اسمبلی کی حیثیت میں۔ رائو سکندر اقبال پارٹی چھوڑ کر پرویز مشرف کے ساتھ ہو گئے اور دوبارہ وفاقی وزیر رہنے کے بعد ایک غیر معروف اُمیدوار سے ہزاروں ووٹوں سے شکست کھا گئے اور اس دھڑے کا مقصد یوں ختم ہوا۔ کل والے کالم کا زیادہ تر حصہ نظم اور نثری نظم کے بارے میرے ناقص خیالات ہی کی نذر ہو گیا اور نصیر احمد ناصر کا کماحقہ کلام پیش نہ کر سکا۔ ان کی کچھ اور نظمیں دیکھیے :
ہم بارانی لوگ ہیں
ہم بارانی لوگ ہیں؍ وہ نہیں جانتے؍ ہم اپنے اُونچے نیچے کھیتوں‘ ڈھلمل موسموں؍ اور جھاڑیوں بھرے قبرستانوں کو کبھی نہیں چھوڑتے؍ اور جڑی بُوٹیوں کی طرح؍ فصل در فصل اُگتے رہتے ہیں؍ وہ ہمیں تلف کرنے کے لیے؍نت نئے اسپرے چھڑکتے ہیں؍ ہم پھر اُگ آتے ہیں ؍ ہم پر خس و خاشاک مارنے والے؍ کیمیاوی زہر اثر نہیں کرتے؍ ہم جہاں جاتے ہیں؍ اپنی مٹی اپنی ہریالی ساتھ رکھتے ہیں؍ ہم بارانی لوگ ہیں؍ وہ نہیں جانتے؍ شہروں میں رہتے ہوئے بھی؍ ہماری آب و ہوا میں کیکر کے پھولوں کی خوشبو بسی ہوتی ہے؍ اور ہمارے سروں پر سدا شیشم کی چھائوں رہتی ہے؍ ہم دھوپ اور تیز بارش سے نہیں ڈرتے ؍ ہم ایک نہیں‘ دو نہیں ؍ ہماری پشت پر پُورا دیہہ ہوتا ہے؍ وہ کبھی نہیں جان پائیں گے؍ ہمارے دروازے اُونچے‘ صحن کھلے‘ برآمدے لمبے دل بڑے اور جسم کھردرے کیوں ہوتے ہیں؍ ہم آبادیوں میں گُم ہوتے ہوئے راستے ہیں؍ اور شاملات کے رقبے ہیں؍ ان کے کمپیوٹر ہماری شناخت نہیں کر پائیں گے؍ ہم درختوں‘ چراگاہوں اور جولائی کے بادلوں جیسے ہیں؍ ہمارا کھرا پانے کے لیے؍ انہیں زمین و آسمان کی خانہ شماری کرنی پڑے گی؍ ہم بارانی لوگ ہیں؍ ہم جانتے ہیں؍ وہ ہمیں کاغذ کی مار ماریں گے؍ رپٹوں اور مثلوں میں گھسیٹیں گے؍ اور ہماری بے ضرر حرکات و سکنات پر ٹیکس لگا دیں گے؍ ہمیں دفتروں‘ تھانوں‘ کچہریوں کے پھیرے لگوا لگوا کر؍ ایک دن داخل دفتر کر دیں گے؍ لیکن وہ نہیں جانتے؍ ہم بارانی لوگ ہیں؍ اُگنا اور پھیلنا ہماری مجبوری ہے؍ ہم ان کے روزنامچوں سے نکل کر؍ گھر گھر‘ گلی گلی‘ شہر شہر‘ پھیل جائیں گے؍ فلک بوس عمارتوں کے لیے؍ ہموار کی گئی زمینوں پر؍ قبروں کی طرح اُگ آئیں گے!!
کچھ مرنے کے لیے زندہ چھوڑ دیئے گئے ہیں
زیادہ تر مار دیئے گئے؍ تشدد کے بعد؍ کچھ بھون دیئے گئے؍ آتشیں ہتھیاروں کے ساتھ؍ اور پھینک دیئے گئے اجتماعی قبروں میں؍ کچھ کی آنکھوں پر؍ سیاہ پٹیاں بندھی ہوئی تھیں؍ وہ مرتے ہوئے خود کو بھی نہ دیکھ سکے؍ کچھ سرحدیں پار کرتے ہوئے؍ محافظوں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے؍ کچھ کھلے سمندروں میں؍ ڈوب گئے؍ اُن میں بچے بھی تھے؍ بوڑھے اور جوان مرد بھی؍ لڑکیاں اور عورتیں بھی؍ کسی کے ہاتھوں پہ لمس تھا؍ کسی کے ہونٹوں پہ پھول؍ کسی کی آنکھوں میں خواب؍ کسی کے سینے میں اُمید؍ موت کسی کے دل میں نہیں تھی؍ لیکن مارے گئے؍ جو بچ گئے؍ وہ کیمپوں میں مرنے کے لیے چھوڑ دیئے گئے ہیں؍ پتہ نہیں انہیں کب‘ کہاں اور کیسے موت آئے گی!
آج کا مقطع
میں پھول ہی سمجھتا رہوں گا اُسے‘ ظفر
جو اس کے ہاتھ میں ابھی پتھر نہیں ہوا