اوسلو‘ ناروے میں مقیم اس پاکستانی شاعر کا یہ تیسرا مجموعۂ نظم ہے جسے سانجھ لاہور نے چھاپا اور اس کی قیمت 200 روپے رکھی ہے۔ انتساب امی جان ، شاہ جی اور وزیر آغا کے نام ہے۔ ابتدائیہ شاہد شیدائی کے قلم سے ہے جبکہ فلیپ نگاروں میں جو گندر پال، محمود ہاشمی اور بلراج کومل شامل ہیں۔ ''کسی حیران ساعت میں‘‘ کے حوالے سے جو گندر پال کی رائے: ''آپ کی نہایت اوریجنل شعری وارداتیں بظاہر مختصر ہونے کے باوصف زندگی کے بیچوں بیچ بڑی گنجان حیرتوں میں اتار لے جاتی ہیں اور اس نشاط آفر یں مہم کو سر کرنے کے بعد آپ کا قاری اپنے آپ کو نو بہ نو محسوس کرنے لگتا ہے، آپ واقعی بہت اچھے شاعر ہیں‘‘۔
محمود ہاشمی رقم طراز ہیں:
''آپ کے مجموعے کی ہر نظم مجبور کرتی ہے کہ اس میں شامل دوسری نظمیں بھی پڑھی جائیں چنانچہ میں انہیں پڑھ رہا ہوں۔ ایک مرتبہ، دو مرتبہ اور بعض بار بار۔ شکریہ کہ آپ نے اس زمانے میں جبکہ شاعری بالخصوص آزاد شاعری اکثر صورتوں میں خستہ و خوار ہو رہی ہے، مجھے موقع دیا کہ میں اس ضمن میں عمدہ نظموں کا مطالعہ کر سکوں‘‘۔
اور اب بلراج کومل کی رائے:
''فیصل ہاشمی کا شمار میں جدید تر نسل کے ان اردو شاعروں میں کرتا ہوں جو پچھے چند برسوں میں ابھر کر سامنے آئے اور توجہ کے مستحق ثابت ہوئے۔ ان کی نظمیں مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے ایک ایسا جہانِ اسرار خلق کرتی ہیں جو ہر قدم پر قاری کو حیرت و استعجاب کے تجربے سے روشناس ہونے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ بظاہر شفاف کیفیات فیصل ہاشمی کی نظموں سے ابھر کر کچھ ایسے خدوخال اختیار کر لیتی ہیں کہ ان تک مکمل رسائی حاصل کرنے کیلئے بار بار ان کو قریب سے دیکھنے اور محسوس کرنے کو جی چاہتا ہے‘‘۔
یہ بات اپنے طور پر نہایت خوش آئند ہے کہ ہمارے ہاں نظم کا کلچر اب باقاعدہ فروغ پانے لگا ہے اور جس میں ان جدید شعراء کا قابلِ قدر حصہ ہے اور غزل اورینٹڈ قاری کو ایک تازہ ہوا میسر آئی ہے، اگرچہ نثری نظم کا شور شرابا کچھ زیادہ ہے لیکن ایک تو اس کے ساتھ کماحقہ انصاف نہیں ہو پا رہا اور دوسرے یہ شاعر کیلئے ایک سہل انگاری کا شاخسانہ بھی ہے کیونکہ میٹر کے بغیر قاری کو متاثر کرنا اور اسے یقین دلانا کہ وہ شاعری ہی پڑھ رہا ہے خاصا مشکل کام ہے۔ اسی لئے میں یہ کہا کرتا ہوں کہ نثری نظم لکھنے کیلئے شاعر کا ایک عمدہ اور مضبوط نثر نگار ہونا بیحد ضروری ہے۔ پابند نظم تو ایک طرح سے قصہ ٔپارینہ ہو چکی ہے اور اسے اب پڑھنے کو جی بھی نہیں چاہتا کہ آئوٹ آف فیشن ہو گئی ہے۔ اس لئے اب آزاد نظم ہی کا دور دورہ ہے جسے فیصل ہاشمی جیسے شعراء پوری ثابت قدمی سے آگے بڑھانے میں مصروف ہیں۔ ان نظموں میں گہرائی بلکہ پیچیدگی کا بھی احساس ہوتا ہے لیکن یہ پیچیدگی نظم کا قابل فہم ہونا بھی یقینی بناتی ہے۔ غزل میں تو گپ شپ بھی چل جاتی ہے جبکہ نظم ایک سنجیدہ معاملہ ہے تاہم غزل کے بعد نظم کیلئے باقاعدہ ذہن بنانا ہوتا ہے اور تب ہی جا کر اس سے صحیح معنوں میں لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے اور لطف یہ ہے کہ فیصل ہاشمی کی نظمیں پڑھتے ہوئے ذہن اپنے آپ بن جاتا ہے ۔اب ان کی کچھ نظمیں دیکھیے:
زمیں پر آخری لمحے
اندھیرے دوڑتے ہیں رات کی ویران آنکھوں میں
چراغوں کی جڑوں سے روشنی کا خون رِستا ہے
سمندر کشتیوں میں چھید کرتی مچھلیوں سے
بھر گئے ہیں
منزلوں کی خواہشوں سے دور ہے اب ہر مسافر
اور صدا اس قید گہ سے
بھاگ جانے کی کڑی کوشش میں زخمی ہے
زمیں فالج زدہ ہونٹوں کی جنبش سے
ٹھہر جانے کو شاید کہہ رہی ہے
ہوا کی سانس ٹھوکر کھا رہی ہے!
میں جو موجود تھا
رات کی بے اماں وسعتوں میں
کہیں کھوگیا آسماں
جس کو دیکھا گیا تھا کبھی‘ اب زمیں دوز ہے
اور زمیں نامرادوں کی ایک پھیلتی بے نشاں قبر ہے
رینگتے آنکھ کے منظروں میں کئی اجنبی شہر ہیں
آج تک جن سے کوئی بھی گزرا نہیں
کیوں کسی کو کسی پہ بھروسہ نہیں
دُور جاتے ہوئے کارواں کو بلاتا ہوں میں
ریت پر نقشِ پاکی طرح مٹتا جاتا ہوں میں
میں جو موجود تھا، اب کہیں بھی نہیں
جسم و جاں میرے بس میں نہیں
میں کسی کے تو کیا‘ اپنی بھی دسترس میں نہیں
وقت کی دُھول ہوں میں
مجھے اب یقین ہو چلا ہے
میں خلقت کے پیچھے کہیں رہ گیا ہوں
اور اب میں زمانوں سے اپنے قدم
ملانے کی کوشش میں بھی تھک چکا ہوں
جہاں بھیڑ میں لوگ بہتے چلے جا رہے ہیں
وہیں راستے کے اس اگلے کنارے پہ رک کر
فلک پررواں، بادلوں سے الجھتی
کئی خواب بُنتی نظر کے تماشے میں مشغول ہوں
گزرتے ہوئے وقت کی دُھول ہوں میں
شاہد شیدائی اپنا دیباچہ اس طرح انجام کرتے ہیں:
''آخری بات یہ کہ فیصل ہاشمی خیال، احساس اور فکر کے تال میل سے اپنی نظم تخلیق کرتے ہیں جس کی مثال ان کے ہم عصروں میں کم کم ملتی ہے۔ یہ نظمیں کائنات کے عمیق مطالعے کا ثمرِشیریں ہے جن کی گہرائی میں نہ اترا جائے تو یہ قاری پر کبھی منکشف نہیں ہوتیں‘‘
آج کا مطلع
بات کرتا نہیں تو پھر کیا ہے
دن گزرتا نہیں تو پھر کیا ہے