کچھ عرصہ پہلے ایک مؤثر انگریزی روزنامے نے مجی مسعود اشعر سے کتابوں کے بارے میں کچھ سوالات کیے تھے ‘جن میں سے ایک تو ایسی کتاب کے حوالے سے پوچھا گیا‘ جس کو واجب سے کم شہرت ملی ہو‘ جس کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ نثار عزیز بٹ کا ایک ناول‘ جو تقسیم کے بارے ہے اور جسے خواہ مخواہ نظر انداز کر دیا گیا۔ ایک سوال یہ بھی تھا کہ آپ کے خیال میں کوئی ایسی کتاب‘ جسے ضرورت سے زیادہ شہرت حاصل ہو گئی ہو؟ تو ان کا جواب تھا کہ بانو قدسیہ کا ناول'' راجہ گدھ‘‘ جس کے کئی ایڈیشن بھی چھپے اور شہرت بھی بہت پائی‘ لیکن اس میں کوئی خاص بات نہیں تھی۔ میں ان کے جواب سے سو فیصد متفق ہوں‘ کیونکہ مجھے بھی اس میں کچھ نظر نہیں آیا تھا‘ جبکہ اشفاق احمد سے ہٹ کر بھی وہ ایک ادبی شخصیت کی حامل ضرور تھیں۔
میں فکشن کا آدمی نہیں ہوں‘ بلکہ فکشن کا باقاعدہ قاری بھی نہیں ہوں اور میری فکشن کے بارے میںرائے محض ایک عام رائے کی حیثیت رکھتی ہے‘ تاہم فکشن کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک عام پڑھے لکھے قاری کو بھی اپیل کرے۔ اسی طرح میں نے قرۃ العین حیدر کا ناول
''آگ کا دریا‘‘ بھی نصف‘ یعنی صرف وہیں تک پڑھ سکا‘ جہاں تک گوتم کا ذکر چلتا ہے اور اس کے بعد گنگا جمنی اُردو میں گفتگو‘ جو آدمی کو ویسے ہی تھکا دیتی ہے‘ آ کر رک گیا۔اسی طرح عبداللہ حسین کی کہانیوں میں بھی کہیں کہیں محیّر العقول واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ مثلاً :ایک جگہ ایک مولوی صاحب ایک نوزائیدہ حرامی بچے کا سر پتھر سے کچل دیتے ہیں۔ کوئی مولوی چاہے‘ کتنا بھی سفاک کیوں نہ ہو‘ اتنا شقی القلب نہیں ہو سکتا۔ ایک جگہ ایک عورت تین مردوں کو ایک ایک کر کے قتل کر دیتی ہے۔ مصنف کو تعقلاتی منطقے سے باہر نہیں نکلنا چاہیے اور ساتھ ساتھ قاری کو قائل بھی کرتے رہنا چاہئے۔ اکادمی ادبیات نے ''نئے ادب کے معمار‘‘ کے سلسلے میں عبداللہ حسین پر جو کتاب چھاپی تھی اور جس کا دیباچہ مجھ سے لکھوایا گیا تھا‘ میں نے اس میں اپنے تحفظات کا اظہار بھی کر دیا تھا۔
ہمارے بزرگوار احمد ندیم قاسمی نے بھی اپنے کئی افسانوں میں ایسا کیا ہے‘ مثلاً :افسانے ''چھلی‘‘ میں گائوں کی ایک ان پڑھ لڑکی‘ جو شہر میں آ کر چھلیاں بھون بھون کر بیچتی ہے‘ اس کی زبان سے موصوف نے ایسے ایسے جملے ادا کروائے ہیں کہ وہ باقاعدہ ارسطو لگتی ہے‘ اسی طرح ان کے ایک افسانے کی ایک خاتون کردار‘ جو زمیندارنی ہے‘ اس کے شوہر کو ٹی بی ہے‘ اس دوران‘ ایک ڈاکٹر صاحب‘ جو ولایت سے آتا ہے اور صورت ِاحوال دیکھ کر اس کی سرزنش کرتا ہے کہ اس نے اپنے شوہر کے برتن علیحدہ کیوں نہیں کیے؟ لیکن وہ خاتون اس کی بات پر کان نہیں دھرتی؛ حتیٰ کہ اسی مرض سے اس کے شوہر کا انتقال ہو جاتا ہے۔یہی نہیں‘ بلکہ اس کے تینوں بیٹے بھی یکے بعد دیگرے ٹی بی میں مبتلا ہو کر مر جاتے ہیں۔ اور یہ بات عقل ‘تسلیم ہی نہیں کر سکتی۔ایک اور افسانے نے غالباً '' پرمیشر سنگھ‘‘ میں ترکِ ِوطن کے دنوں میں ایک قافلہ بھارت سے پاکستان کی طرف روانہ ہے کہ اس دوران ایک عورت کا چار سالہ بچہ لا پتہ ہو جاتا ہے‘ جس پر وہ یہ کہتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھتی ہے کہ کہیں پھول چننے چلا گیا ہو گا‘ کہیں تتلی پکڑنے چلا گیا ہو گا‘ ایک ماں تو اس صورت میں اپنی جگہ سے ہلتی ہی نہیں جب تک کہ اس کا بچہ بازیاب نہ ہو جائے۔خیر‘ وہ بچہ ایک سکھ کے ہاتھ لگ جاتا ہے ‘جہاں وہ پل بڑھ کر جوان ہو جاتا ہے‘ تو ایک روز وہ سکھ اس پر ترس کھا کر اسے سرحد پر چھوڑ آتا ہے۔ پاکستان پہنچ کر جب اس کی پگڑی ڈھیلی ہو کر کھلتی ہے‘ تو اس کے کیس اس کے کانوں پر بکھر جاتے ہیں‘ یعنی نہ تو اسے بھیجنے والوں کا اس بات کا خیال آیا اور نہ ہی لڑکے کو یہ سوجھی کہ وہ اپنے بال ہی کٹوا لے۔ اس کے علاوہ بھی اس کہانی میں ایسے ایسے واقعات سامنے آتے ہیں کہ آدمی سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔
مہمانوں کی آمد
اگلے روز صادق آباد سے ڈاکٹر کبیر اطہر‘ ڈاکٹر عافر شہزاد اور ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ کے ہمراہ تشریف لائے۔ تھوڑی ہی دیر بعد عمیر نجمی بھی ان میں آ شامل ہوئے‘ بلکہ شاہدہ دلاور شاہ نے تو انہیں اس وقت تک روکے رکھا ‘جب تک وہ اس قافلے میں خود بھی شامل نہ ہو گئیں۔ ان کا چیلنج تھا کہ آپ ہوتے کون ہیں‘ جو میرے بغیر ظفر اقبال سے ملنے چلے جائیں! تینوں نے میری فرمائش پر اپنا اپنا کلام مجھے سنایا۔ فیس بک کا ذکر چلا تو میں نے کہا کہ اس پر عام سے اشعار پر بھی داد کے ڈونگرے برسنے لگتے ہیں‘ جس پر ڈاکٹر شاہدہ دلاور نے بتایا کہ وہاں سبحان اللہ‘ ماشاء اللہ نام کا ایک باقاعدہ گروپ ہے‘ جو یہی کام کرتا ہے۔
مزید مہمان
میں نے کہہ رکھا ہے کہ میں ویک انڈ پر اپنے بیٹے جنید اقبال کے پاس ماڈل ٹائون چلا جاتا ہوں اور اتوار کی شام کو لوٹتا ہوں؛ چنانچہ اس سلسلے میں پہلے اقتدار جاوید اور اس کے بعد ادریس بابر کی آمد سے رونق میں اضافہ ہو گیا۔ دو ''شاعرانہ‘‘ فون بھی آئے۔ ایک ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب کا تھا کہ کسی روز ملاقات کے لیے تشریف لائیں گے اور دوسرا ڈاکٹر خواجہ زَکریا صاحب کا جو اپنی نئی کتاب ارسال کرنے والے تھے۔ اس سے پہلے اکبر معصوم بتا چکے تھے کہ انہوں نے میرا انتخاب کیا ہے‘ جس میں پانچ سو غزلیں اور اڑھائی ہزار شعر ہیں۔ یہ ان کی ہمت ہے‘ ورنہ اس سے پہلے وہ کہہ چکے تھے کہ آپ کا انتخاب نہیں ہو سکتا۔ بارش مسلسل ہو رہی ہے اور سارے کام بند ہیں۔ آج کا اخبار بھی نہیں پہنچا۔ باقی درجہ بدرجہ خیریت ہے۔
آج کا مطلع
سمجھا ہے اور کتنا بے اندازہ سمجھا ہے
میں دیوار تھا اور تُو نے دروازہ سمجھا ہے