"ZIC" (space) message & send to 7575

دو خالد مسعودوں کے درمیان مَیں اور تازہ غزل

ہماری قسمت میں دو خالد مسعود لکھے گئے تھے۔ پہلے اوکاڑہ والے راؤ خالد مسعود اور پھر ملتان والے خالد مسعود خان۔ گویا یک نہ شد دو شد۔ حالانکہ ایک خالد مسعود ہی کیا کم تھے کہ ہماری زندگی میں دوسرے بھی آ دھمکے، یعنی ؎
ایک بیداد گر رنج فزا اور سہی
میں 1995ء میں لاہور آ گیا تو اوکاڑہ والے سے جدائی ہو گئی اور ہمیں ملتان والے پر ہی گزارہ کرنا پڑاکہ قناعت پسندی ویسے بھی ہماری گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ لطیفہ یہ ہوا کہ کچھ عرصے بعد راؤ خالد مسعود بھی لاہور چلے آئے لیکن رابطہ نہ ہو سکا۔آج ان کا فون آیا تو ؎
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے
70ء کی دہائی ایک معرکہ آرا زمانہ تھا۔ پیپلز پارٹی نے الیکشن جیتے تھے اور گویا ایک طرح سے صفایا ہی کر دیا تھا۔ حاجی صادق ایم این اے، راؤ خورشید علی خاں بھی ایم این اے اور شیخ ریاض، حاجی محمد یار لاشاری، رائے میاں خاں اور رانا اکرام ربانی رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔ خاکسار سمیت شیخ ریاض، رانا اظہر، سلیم باغی، عالم شیر خاں لودھی، چوہدری عبدالرزاق برتنوں والے، ملک ظفر مسعود، حافظ فتح محمد، منیر چوہدری جو کہ ایک ہی تھیلی، پی پی پی‘ کے چٹے بٹے تھے، بلکہ بہت سے ان کے علاوہ بھی تھے مثلاً شیخ عبدالسلام، صدیق جِن، محمد رمضان جانی اور کئی دوسرے۔ اب آتے ہیں اپنے اصل موضوع یعنی راؤ خالد مسعود کی طرف۔ یہ وہاں سے ''گرفت‘‘ نامی ایک اخبار نکالتے تھے‘ جو ہماری سرگرمیوں کا ایک طرح سے مرکز ہوا کرتا تھا۔ راؤ صاحب کا کچھ ایسا تعلق پی پی پی سے تو نہیں تھا لیکن ان کی ایک اہمیت اپنی جگہ پر ضرور تھی۔ ''گرفت‘‘ کے علاوہ شیخ اسلم وہاں سے واردات نامی اخبار نکالتے تھے ان کا اصل تعلق چیچہ وطنی سے تھا۔ افسوس کہ اب وہ اس دنیا میں نہیں رہے۔ ایک پرچہ محمد نواز بھی نکالتے تھے جنہیں ہم پیار سے نواز موٹا کہا کرتے تھے۔ مرزا بشیر محمد کا ''پاک پنجاب‘‘ ان سب سے پرانا تھا۔ محمد نواز اور مرزا صاحب بھی اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔ لطف یہ ہے کہ اوکاڑہ ابھی تحصیل ہی تھا۔ ضلع نہیں بنا تھا۔
رانا محمد حنیف ایڈووکیٹ جن کا تعلق ساہیوال سے تھا۔ فیڈرل منسٹر ہوئے جب کہ رانا اکرام ربانی اور حاجی محمد یار خاں لاشاری صوبائی وزیر بنے۔ ''گرفت‘‘ میں جو شعری شرارتیں ہم کیا کرتے تھے، اپنا ہدف یہ سارے حضرات ہوا کرتے۔ چونکہ میں اُن کا ساتھی ہی تھا، اس لیے یہ ''حملے‘‘ نہ صرف برداشت کرتے بلکہ اُن سے لطف اندوز بھی ہوتے۔ ہم سبھی حادثاتی طور پر ہی پپلیے ہو گئے تھے ورنہ نظریاتی طور پر ہماری کچھ کارگزاری نہ تھی، بالکل اسی طرح جس طرح خود بھٹو صاحب سوشلسٹ ہو گئے تھے۔ البتہ رانا اظہر اور سلیم باغی دونوں کٹڑ نظریاتی آدمی تھے جبکہ پارٹی میں واحد مقررسلیم باغی اور عالم شیر خاں لودھی تھے۔ میرے سمیت باقی حضرات بس گزارہ ہی کرتے تھے۔ سلیم باغی نے ایک سٹڈی سرکل قائم کر رکھا تھا جس میں وہ سوشلزم کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ بھٹو صاحب سے اختلاف کی وجہ سے سب سے پہلے میں، اس کے بعد حنیف رامے اور پھر رانا اظہر بھی پارٹی چھوڑ گئے جبکہ رانا صاحب نیشنل عوامی پارٹی میں شامل ہو گئے حالانکہ وہ 77ء کے الیکشن میں پارٹی ٹکٹ پر رکن صوبائی اسمبلی بھی منتخب ہوئے تھے۔
جیسا کہ اوپر عرض کر چکا ہوں، وہ دور بڑا ہی ہنگامہ خیز تھا۔ اپنی جگہ پر کچھ رونق ''گرفت‘‘ نے بھی لگائی ہوئی تھی اور ہم لوگوں کو اس کی اشاعت کا باقاعدہ انتظار ہوا کرتا تھا۔ اکثر زعماء جن میں رائے صادق، شیخ ریاض، راؤ خورشید علی خاں، رائے میاں خاں، علی احمد مجاہد، ملک ظفر مسعود، چوہدری عبدالرزاق وفات پا چکے ہیں لیکن یادوں میں ابھی تک زندہ ہیں۔ ان میں ایک نہایت اہم شخصیت کامریڈ عبدالسلام کی بھی تھی جو پرلے درجے کے نظریاتی تو تھے ہی، ادب بھی اُن کا ایک حوالہ بنتا ہے کہ وہاں کی ادبی مجالس کے روح و رواں بھی وہی تھے۔ صابر لودھی، الفت رسول اور لطیف الفت بھی، جو مقامی کالج میں لیکچرر تھے، ان محفلوں کی رونقوں کو دوبالا کیا کرتے۔ صابر لودھی کا بھی انتقال ہو چکا ہے۔ ''گرفت‘‘ کے حوالے سے تو راؤ خالد مسعود کے ساتھ ایک وابستگی تھی ہی، لاہور میں آئے تو وہ مجھے تلاش کرتے رہے اور میں اُنہیں۔ بالآخر انہوں نے مجھے ڈھونڈ ہی نکالا۔ اس زمانے میں زندگی ویسے بھی بہت پرجوش اور ہنگامہ پسند تھی، اس لیے اس وقت کی یادوں کی بھی ایک اپنی حیثیت ہے۔ راؤ صاحب نے بتایا کہ وہ اسلام آباد آئے ہوئے ہیں۔ اتوار تک واپسی ہوئی تو ایک نہایت ہی خوبصورت ملاقات برپا ہوگی۔ 
اور، اب آخر میں اس ہفتے کی تازہ غزل:
جاری اپنا بیاں تو رکھنا ہے
اِس ندی کو رواں تو رکھنا ہے
نہ رہی جب زمین پاؤں تلے
سر پہ یہ آسماں تو رکھنا ہے
اس محبت سے واپسی کے لیے
کہیں کوئی نشاں تو رکھنا ہے
اپنے ہاتھوں خراب کرنے کو
یہ بڑھاپا جواں تو رکھنا ہے
ایک آ سیبِ آرزو کے لیے
خالی دل کا مکاں تو رکھنا ہے
فکرِ سود و زیاں نہیں، نہ سہی
فرقِ سُود و زیاں تو رکھنا ہے
تیرے ہونے کا کچھ یقین نہیں
پھر بھی تیرا گماں تو رکھنا ہے
پیڑ کی جگہ اب ہوا ہی سہی
کہیں پر آشیاں تو رکھنا ہے
جس کو گھیرا ہوا تھا کب سے، ظفر
اب اُسے درمیاں تو رکھنا ہے
آج کا مقطع
اک خواب تھا کہ بیچ میں ہی چھوڑ کر ،ظفرؔ
اک یاد ہے کہ دل سے جدا کرکے آئے ہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں