اکبر معصومؔ کے پہلے مجموعے ''اور کہاں تک جانا ہے‘‘ کا پس سرورق اشفاق احمد اور دیباچہ میں نے لکھا تھا۔ کوئی ڈیڑھ برس پہلے اس کا دوسرا مجموعہ تیار ہوا تو اس نے پھر دیباچہ لکھنے کی فرمائش کی ‘جس پر میں نے کہا کہ رہنے دو یار‘ یہ اچھا نہیں لگتا۔ وہ مجموعہ ''بے ساختہ ‘‘کے نام سے چھپا تو اس نے مجھے یہ لکھ کر بھیجا:محبی ظفرؔ اقبال کے لئے!
ہیں تیرے آئینے کی تمثال ہم نہ پوچھو
اس دشت میں نہیں ہے پیدا اثر ہمارا( میرؔ)
بہت محبت اور نیازمندی کے ساتھ
اکبر معصوم‘ؔ سانگھڑ 7/6/18
یہ بھی اس کا انکسار تھا‘ ورنہ وہ اپنا اثر ٹھیک ٹھاک پیدا کر چکا تھا اور اثر وہ ہوتا ہے‘ جو آپ کا خالص اپنا ہو۔ کہیں سے کھینچ کر نہ لایا گیا ہو۔ میرے کالم میں اس کی باتیں ہوتی ہی رہتی ہیں اور آئندہ بھی ہوتی رہیں گی۔ فی الحال میں اس کی کتاب ''بے ساختہ‘‘ کے دیباچے سے کچھ اقتباسات پیش کرتا ہوں‘ جو ''جینے کی تیاری‘‘ کے عنوان سے ان کے دوست شفیق سہروردی نے لکھا ہے: ''مجھے اکبرؔ اور اس کی شاعری دونوں سے پیار ہے‘ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس محبت میں ''شکوہ جواب ِشکوہ‘‘ یا نذیر وعید والی کوئی بات نہیں۔ 2000ء میں 72 غزلوں پر مشتمل اس کی پہلی کتاب ''اور کہاں تک جانا ہے‘‘ چھپی۔ اس دوران عزیز ابن الحسن کے ہاں کتاب اور صاحب ِ کتاب دونوں سے ملاقات رہی۔ تب وہ شدت سے اپنے حصار میں تھا۔ وہ ''ریڈ اینڈ وائٹ‘‘ کے کش لگا کر محبوبہ کے سرخ ہوتے چہرے اور خون سفید ہونے کی باتیں کرتا تھا۔ یہ دھواں‘ دھڑکن اور سفیدی اس کی شاعری اور رویے میں آج بھی دکھائی دیتی ہے۔ برُی شاعری پر لکھنا پڑے تو اس کا خون سفید ہو جاتا ہے اور نتیجے میں کچھ دوستوں سے ہاتھ بھی دھونا پڑ جاتے ہیں‘ جسے وہ چاروناچار قبول بھی کر لیتا ہے۔ باقی رہے دھواں اور دھڑکن تو اگر میں یوں کہوں کہ دھواں سنائی دیتا ہے اور دھڑکن دکھائی دیتی ہے تویہ بھی غلط نہ ہوگا کہ وہ شاعر ہی نہیں‘ مصور بھی ہے۔ سمعی سے بصری اور بصری منظر سے تمثال گری کے گروںکا گیان رکھتا ہے۔؎
تو جنگل سانس لیتا ہے مرا بھی
ہوا چلتی ہے تصویر شجر میں‘‘
1961ء میں سانگھڑ میں پیدا ہونے والا اکبر علی انتہائی پیچیدہ عضلاتی بیماری‘ یعنی Proximal Myopathy میں مبتلا ہے‘ جس کا پتا 1989ء میں لاہور جا کر چلا۔ پہلے بھی چل جاتا تو وہ کیا کرتا۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ تدریجاً معذور کر دینے والی یہ بیماری لاعلاج ہے۔ 1994ء میں ایک دوسرے مرض ٹی بی نے جکڑ لیا‘ جس کے نتیجے میں وہ قطعی مفلوج ہو گیا اوراس کی سننے‘ بولنے‘ دیکھنے اور چکھنے کے علاوہ دیگر صلاحیتیں معطل ہو گئیں۔ اسے فوری طور پر آپریشن کی صعوبتوں سے گزرنا پڑا۔ اسے شدید تکلیف سے تو نجات مل گئی‘ لیکن وہ پوری طرح اس بحران سے نکل نہیں سکا۔ رفتہ رفتہ وہ اس قابل ہو گیا کہ وہیل چیئر پر بیٹھ کر جیسے تیسے زندگی کی دوڑ میں شامل رہ سکے۔ عضلاتی بیماری کا معاملہ د وسرا تھا۔ وہ سکول کالج کے زمانے سے تھی۔ چلتے ہوئے بار بار گرنا‘ کبھی خود کو گرنے سے بچانا‘ لڑکھڑانا‘ چوٹ کھانا تو کبھی اس عیب کو ہنرمندی سے چھپانا۔؎
گر جاتا ہوں روز ہی میں اونچائی سے
آج ذرا یہ خواب سنبھل کر دیکھوں گا
اب مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا کہ ایسی باتوں کے بیچ میں اکبر کی موجودہ حالت کا ذکر کروں تو کیسے؟ تدریجاً معذور کر دینے والی بیماری مایو پیتھی نے اکبر کا اب یہ حال کر دیاہے کہ سفر تو درکنار‘ پانی پینے‘ نوالہ منہ میں ڈالنے‘ قلم کتاب پکڑنے‘ ٹی وی کے چینل بدلنے‘ شیو کرنے‘ نہانے دھونے‘ کپڑے بدلنے‘ کروٹ لینے جیسے معاملات میں بھی اس کے ہاتھ پائوں درست سمت حرکت کرنے میں بآسانی ساتھ نہیں دیتے۔
اور اب ادریس بابر کا اکبر معصومؔ کے لیے تخلیق کردہ یہ عشرہ:
تھر کا آخری مور اُداس ہے
نظر انداز شدہ نظارے
دیکھنے اور دکھانے والا
خواب کی دھنیں بنانے والا
وہیل چیئر پہ سیڑھیاں چڑھتا
دل میں اور سر میں گھر کرتا
شاعر‘ بسرا ماکس تارے
غم سے ڈائری اور پین کانپے
پنکھڑیوں نے مکھڑے ڈھانپے
پھول کی خوشبو کس کے پاس ہے؟
تھر کا آخری مور اُداس ہے!
میں نے چند سال پہلے اپنے چھوٹے بھائی جاوید اقبال کے انتقال پر جو شعر کہے تھے‘ ان میں یہ مصرع بھی تھا۔ع
تم چل دئیے‘ باری تو یہ میری تھی مرے یار
اور یہ میرے ساتھ کافی عرصے سے ہو رہا ہے کہ باری میری ہوتی ہے اور اسے لے اڑتا کوئی اور ہے‘ اب یہ ظلم میرے ساتھ اکبر معصومؔ نے کیا ہے۔ پتا نہیں میرے ساتھ یہ مذاق اور کب تک ہوتا رہے گا؟اور اب آخر میں اکبر معصومؔ کا یہ شعر‘ جسے پڑھنے کے بعد اس کے بارے کچھ مزید جاننے کی ضرورت ہی نہیں رہتی ہے۔؎
سارے عالم پر بکھر گیا
میں بھرا ہوا ویرانی سے
آج کا مقطع
آپ جتنے بھی اندھیرے یہاں پھیلائیں ظفرؔ
دن چمکتا رہے گا رات نہیں ہو سکتی