پہلی عالمی جنگ کے بعد لیگ آف نیشنز کی ایک کانفرنس کے موقعہ پر پولینڈ کے پادر رواسکی اور فرانس کے جارج کلی مینسیو کے درمیان پہلی بار مُڈ بھیڑ ہوئی۔ جارج کلی مینسیو نے پوچھا:
''کیا عظیم پیانو نواز آپ ہی ہیں؟‘‘
جواب میں پادر رواسکی نے اثبات میں سر جھکایا۔''اور اب آپ پولینڈ کے وزیراعظم ہیں؟‘‘۔
کلی مینسیو کے سوال پر پاسر رواسکی نے دوبارہ اثبات میں اپنا سر جھکا دیا۔
''اُف خدایا‘‘ جارج کلی مینسیو نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا ''کیا انحطاط ہے!!‘‘۔
افضال نوید مجھے اس لیے بھی بیحد عزیز ہیں کہ خوبصورت نظم گو اور میرے دوست ابرار احمد کے بھائی ہیں۔ آپ سالہا سال سے کینیڈا میں مقیم ہیں۔ میں نے ان کے پہلے مجموعۂ غزل کا دیباچہ لکھا تھا۔ وطن آتے ہیں تو ان کے ساتھ ملاقاتیں بھی رہتی ہیں۔ ان کا تازہ مجموعہ ''مجھ پر وجود آیا ہوا‘‘ بک ہوم لاہور نے چھاپا ہے ‘جس میں 243 غزلیں شامل ہیں۔ دیباچے نذیر قیصر‘ ناصر عباس نیر‘ قاسم یعقوب اور انجم سلیمی نے لکھے ہیں اور انتساب بڑی بہن امتہ العزیز کے نام ہے۔ پہلے مجموعے کے بعد انہوں نے ایک نیا تجربہ کرتے ہوئے ایسی مشکل پسندی سے کام لیا کہ ''لکھے موسیٰ پڑھے خدا‘ جس کا میں نے نوٹس بھی لیا۔ ایسا لگا کہ شاعر کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے اور قاری کو صرف چکرا دینا چاہتا ہے۔ اب شکر ہے کہ وہ سادہ بیانی پر آئے ہیں۔ دیباچہ نگاروں نے ان کے جو منتخب اشعار نقل کیے ہیں‘ ان میں کچھ ملاحظہ کریں:
تہہ بہ تہہ ماضی کو آگے سے ہٹاتا جائوں
تازہ دم ایسا میں ہو جائوں کہ پچھلا نہ لگے
لہو لہان بھی ہو جائوں تو رکوں نہ کہیں
دیارِ سنگ میں کرتا ہوا کمال چلوں
جنوں کی آخری حد تک تو جا کے دیکھ لیا
نمود اور کہاں میرے اُستخواں سے ہوئی
میں تو اسے شانوں سے لگا سمجھا ہوا تھا
ہر سمت سے گھیرے ہوئے بازو ہوا کیوں کر
دل اکھڑتے ہی ترے آگے بچھا پتیوں سا
ہر شجر کو سر راہے من و تو کو گزرا (ناصر عباس نیر)
مستقل رکھنا نہ ہو جب یہاں بے چینی کو
وقت کے حلقۂ سیماب میں کیوں آتے ہو
ابھی یہ لے کے چلا جائے گا ستاروں میں
یہ مجھ میں غنچۂ بادِ نسیم آیا ہوا
مرے وجود پہ سیّارگاں کہاں کھُلتے
ذرا سا ذرّہ بھی حاصل اگر نہیں ہوتا (قاسم یعقوب)
میری مٹّی کو اڑاتی ہے ہوا دیر تلک
تم چلے جاتے ہو اور شورِ عدم رہتا ہے (انجم سلیمی)
زیادہ تر اشعار درمدحِ خود ہیں‘ تاہم یہ اچھے اشعار ہیں۔ یہاں چند اپنے ہی مقولے دہرائوں گا‘ جو میرے معیارِ شعر کے حوالے سے ہیں۔ اچھی شاعری برُی شاعری ہوتی ہے اور اچھا شاعر ایک بُرا شاعر‘ جبکہ شعر کو غیر معمولی اور زبردست ہونا چاہیے اور شاعر کو یگانہ و یکتا۔ شاعری کی ٹرین میں صرف دو درجے ہوتے ہیں؛ فسٹ کلاس اور تھرڈ کلاس‘ اس میں درمیانہ درجہ نہیں ہوتا؛ جنانچہ شعر‘ اگر فسٹ کلاس نہیں تو تھرڈ کلاس ہے! شعر تو وہ ہوتا ہے‘ جسے پڑھتے یا سنتے ہی منہ سے واہ‘ نکل جائے اور آپ اسے کسی دوسرے کو سنانے کیلئے بے چین ہو جائیں۔ درمیانے درجے کی اور گزارے لائق شاعری کوئی شاعری نہیں ہوتی۔ ایسی شاعری ٹنوں کے حساب سے ہو رہی ہے اور شاعری پر واقعی یہ پیغمبری وقت ہے۔ زیادہ سے زیادہ‘ ایسی شاعر ی کو برداشت کیا جا سکتا ہے۔ شاعری کے اس قدر بے تاثیر رہ جانے کی ایک وجہ اس کا طرزِ اظہار بھی ہے‘ جو ہو بہو تقسیم ملک کے وقت کا ہے۔ اس کے علاوہ ایک سبب جدید طرزِ احساس کی کمی یا نہ ہونا ہے‘ نیز تجرید کو بروئے کار لائے بغیر جدید غزل وجود پذیر نہیں ہو سکتی۔ پکاسو نے یہ راز پا لیا تھا اور الٹی سیدھی لکیروں سے ایک تہلکہ مچا دیا تھا۔ شاعری کا ایک عیب کھل کر ‘اور مکمل اظہار بھی ہے۔ باتیں بہت ہو چکیں‘ اب اشاروں سے بھی کام لے کر دیکھا جائے۔ میرے سمیت‘ ہر شاعر کی غزل میں بھرتی کے اشعار بھی ہوتے ہیں‘ لیکن اگر سارے کا سارا کام ہی بھرتی کا ہو تو قاری کہاں جائے؟
قافیے کو بُرے کے گھر تک پہنچانا بھی کوئی شاعری نہیں ہے‘ جو بھرتی کے اشعار کا ایک بڑا سبب ہے۔ اور‘ اگر شعر کی چُولیں ہی ڈھیلی رہ جائیں تو یہ کیا بات ہوئی؟ میں نے اس کتاب کی 80 غزلیں پڑھی ہیں اور باقاعدہ ہانپ گیا ہوں۔ دیباچہ نگاروں کے ساتھ میرا کوئی اختلاف نہیں‘ وہ اپنے زاویۂ نگاہ سے بات کرتے ہیں۔ دیباچے کا مطلب ایک توصیفی سرٹیفکیٹ ہوتا ہے۔ ایسے دیباچے میری کتابوں پر بھی لکھے گئے ہیں‘ اور خود میں نے بھی کئی بار یہ سعادت حاصل کی ہے۔
میرا (ناقص سا) طریقہ تو یہ ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ شعر بنا ہے یا نہیں۔ محض ایک بیانیہ شعر نہیں ہو سکتا۔ محض نیا مضمون باندھنے سے بھی شعر نہیں بنتا؛حتیٰ کہ شعر بعض اوقات مضمون کے بغیر بھی بن جاتا ہے۔ اللہ میاں‘ جس پر خوش ہوتے ہیں ‘اسی کو یہ ہنر دیتے ہیں‘ لیکن کسی وجہ سے وہ یہ ہنر واپس بھی لے لیتے ہیں۔ افضال نوید کو چاہیے کہ توبہ تائب ہو کر اللہ میاں سے اس ہنر کی واپسی کی درخواست کریں ۔ع
ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمیں بعد
آج کا مقطع
راہ میں راکھ ہو گئیں‘ دھوپ کی پتیاں‘ ظفرؔ
آنکھ بکھر بکھر گئی اپنی ہی آب و تاب سے