افضال نوید کی اس کتاب میں تین طرح کے شعر ہیں۔ ایک تو وہ جو بالکل عام سے ہیں اور دوسرے وہ ‘جن میں پیچیدہ بیانی کا شوق پورا کیا گیا ہے اور جو دو تین بار کی قرأت سے بھی سمجھ میں نہیں آتے اور اگر بہت زور لگانے سے سمجھ میں آ بھی جائیں تو حاصل وصول کچھ نہیں ہوتا اور تیسرے وہ جو شعر بنتے بنتے رہ گئے ہیں۔ آپ کی ضیافتِ طبع کے لئے وہ غزلیں حاضر ہیں:
ہر قطرہ ابر کا جہاں ترسیل کا ہوا/ میں بھی پرندہ آنکھوں کی اک جھیل کا ہوا/ شب بھر ستارے تیرے مجھے جگمگا رہے/ بیکار سربکف تیری تعمیل کا ہوا/ یعنی بکھر بکھر گیا عکس ِ جمال ِ شب/ میں ارتعاشِ آئینہ تکمیل کا ہوا/ باہر نہ قطرہ چھلکا پیالے سے عمر بھر/ جتنا بھی ہو سکا تیری تحویل کا ہوا/ جب تک گزار بیٹھا نہ حصے کی زندگی/ ہمسر دوبارہ صورتِ تبدیل کا ہوا/ میں نے چرایا تھا اُسے اُس سے چرا لیا/ اُس پر کچھ اور سحر مری ڈھیل کا ہوا/ اس کو خبر نہیں تھی کہ متوازی آئیں گے/ سرکش وہ اور نقطۂ تکمیل کاہوا/ مجھ پر بھی کچھ خزاؤں کے ادوار آ گئے/ غنچہ سا میں بھی کلیوں کی تمثیل کا ہوا/ گھر گھاس کی گھنیری ردا میں تھا پہنا جب/ کچھ اور بھی اثر مری تعطیل کا ہوا/ مجھ کو بھی باب باب پہ سر پھینکنا پڑا/ میں بھی غبار رخنۂ تشکیل کا ہوا/ پڑھنا کسی کی آنکھ کا کافی تھا دیکھنا/ میں کیوں‘ اسیرنامۂ تفصیل کا ہوا/ مجھ سے نکل کے خاک وہ سر پھوڑتی مری/ میں بازگشت اپنی ہی ترسیل کا ہوا/ چھوڑی نہ لو سے لو کے نکلنے کی رہ کوئی/ پروانہ چاروں اور میں قندیل کا ہوا/ سویا میں نیل کنٹھ سا چادر کو تان کر/ اسرار نیلگوں تیری شہنیل کا ہوا/ بھائی مجھے نہ اپنی لگی لپٹی بھی نویدؔ/ بے ساختہ میں دوسری تاویل کا ہوا۔ تم نے ہمارے خط کی جو توقیر کر نہیں/ دیکھا تو کیا ٹھہر گیا تصویر کر نہیں/ کیا فائدہ تناؤ کا کڑیوں کے اندروں/ جو جال اختراع کی تعمیر کر نہیں/ تکمیلِ خوں خرابہ سے کیا ہاتھ دھویا وہ/ صیاد نے بھلا دیا زنجیر کر نہیں/ فرصت سے تاک پھلتا رہے ابردوباراں میں/ دیکھا ہے باغ کر اُسے جاگیرکر نہیں/ منفی سے ہوکے راستے مثبت کو جاتے ہیں/ مجھ سا رُکا ہوا بھی جو تدبیر کر نہیں/ مالک کا اور غلام کا خیر ِانا ہو کچھ/ کچھ راہِ سرزنش نہ ہو تحقیر کر نہیں/ اندر کے کھوکھلے در و دیوار بھر جو جائیں/ خوابِ مکیں جو دیکھا ہو تعبیر کر نہیں/ خود میں ہی ایک مٹتی ہوئی سوچ اکٹھی ہو/ مدھم تمام دہر ہو تصویر کر نہیں/ کن رس نہ ہونے کا کسی کو دوش کیسے دیں/ سُر سُچا لگ رہا ہو جو تاثیر کر نہیں/ تہہ داری کیسے صفحے پہ اُترے نشیب کی/ لکھا ہوا ملے بھی جو تسطیر کر نہیں/ ایسے میں کوئی موردِ غلطاں نہ ہو تو کیا/ عہدِ جوانی رکھے نہ جو پیر کر نہیں/ لیکن یہ سوچ کر کوئی نقصان ہو نہ جائے/ پلے پڑے ہیں کس کے جو تقصیر کر نہیں/ کس نے جہاں کو علم سے بے بہرہ کر دیا/ برتاؤ جو بھی دہر کا ہے نیر کر نہیں/ شوشے جو چھوڑے گردشِ ایام رہتے ہیں/ اثبات کر نہیں کبھی توقیر کر نہیں/ رہنا ملائمت میں ہی رہنا ہوا نویدؔ/ حاصل ہے جو سلوک وہ تشہیر کر نہیں۔
اب فنی کوتاہیوں پر کچھ بات ہو جائے‘ جو ایسے سینئر شاعر کے ہاں نہیں ہونی چاہئیں:
نہ کھیلنے سے تو بہتر تھا گو قلاش ہوئے (صفحہ 145) قلاش پر تشدید آئے گی۔سمیٹ لے مجھے اژدھام ختم کر نہ سکوں (صفحہ 176) اژدھام فاعلن کے وزن پر آئے گا۔رخنۂ رہن ِ بھنور ساعت ِ نو کی جانب(صفحہ177) اُردو لفظ کے ساتھ اضافت نہیں لگا سکتے۔ کر کے رکھے جو بے دخل مجھ میں (صفحہ 165) دخل فعل کے وزن پر آئے گا۔ہمارے لب پہ ہیں جو راگ تیری پائل ہیں (صفحہ 204) صحیح لفظ پایل ہے۔نفی سے کوئی بھی اثبات کر نہیں پایا (صفحہ 225) نفی کا یہ وزن درست نہیں۔
'نفی سے کرتی ہے اثبات تراوش گویا ‘(غالبؔ)
کسی بھی کُرے پہ بستی بسانے لگتا ہوں (صفحہ 242) کُرے پر تشدید نہیں ہے۔ہوگا مرا دُھواں میرے شہرِ اداس پر (صفحہ 248)یہاں اضافت نہیں لگا سکتے۔ہندسہ عمومی طور پر دس ہوتا ہے مرا (صفحہ 260) ہندسہ فاعن کے وزن پر آئے گا۔ٹھہرنے والا نہیں پہیہ ٔ تلف کہ روش(صفحہ261) اضافت نہیں لگا سکتے۔
آنگن تھا جس میں نیلگوں طیور اُڑتے تھے (صفحہ 268) طیور پر تشدید نہیں ہے۔ وہ عربی بولتی ہے اور اذاں سے ملتی ہے (صفہ 283) عربی فاعلن کے وزن پر آئے گا۔اوروں کے نظریات سے تنگ آنے لگتا ہوں (صفحہ 289) نظریات فعلاتن کے وزن پر آئے گا۔ پلٹی نقار خانوں سے خاموشی سی کوئی (298)نقار پر تشدید آئے گی۔جہاں پہ پہنچ کے آواز لرزی لوٹ گئی (صفحہ 306) پہنچ کا یہ وزن درست نہیں۔ رہین ِ گنتیٔ القاب کر نہ پاؤں میں (صفحہ 312) یہاں اضافت نہیںلگ سکتے۔جہاں سے ٹوٹا تھا سمبندھ پرانا ڈھونڈتے ہیں (صفحہ 327) سمبندھ فاعلات کے وزن پر ہے۔ لبوں کو کھینچتا سند یسہ جگر گیا ہے (صفحہ 404) اضافت غلط ہے۔
اور‘ اب آخر میں اس کتاب میں سے اپنی پسند کے یہ دو شعر:
مجھ کو اتنی بھی کہاں اپنی خبر ہونی تھی
وہ تو کہیے کہ مری راہ میں جنگل آیا
آسماںاور ہوُا جاتا ہے ہر روز نویدؔ
اُٹھتے رہتے ہیں دُھوئیں اتنے دفینے سے مرے
آج کا مقطع
لمس کی گرمی کہاں سے آئی تھی اس میں‘ ظفرؔ
یہ اگر وہ خود نہیں تھا‘یہ اگر آواز تھی