"ZIC" (space) message & send to 7575

فیض احمد فیض ؔکی شاعری کا ایک اکیڈیمک جائزہ

فیضؔ کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا‘ میں خود ان کے مداحین میں شامل ہوں۔ کچھ عرصہ پہلے میں نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ فیض ؔکے شعر میں ارتفاع تو ہے‘ گہرائی نہیں ہے اور اس کے کسی شعر کے ایک سے زیادہ معانی بھی نہیں نکلتے۔ اس پر مجھے حسن نثار کا فون آیا کہ یہ بات تو فیضؔ کی شاعری پر آج تک کسی نے نہیں کہی‘ میرا جواب تھا کہ آخر کسی کو تو یہ بات کہنی ہی تھی۔ میرا مطلب یہ تھا کہ شاعری کے جدید نظریات کے مطابق‘ شعر کو کثیر المعانی ہونا چاہیے اور اس سے ابہام کا تقاضا بھی کیا جاتا ہے‘ لیکن فیضؔ کی بالخصوص غزل ہمیں ان دونوں آلائشوں سے پاک نظر آتی ہے۔
پھر ہم نے دیکھا ہے کہ فیضؔ کا طرزِ بیان وہی ہے‘ جو تقسیم کے وقت تھا اور اس عرصے میں زبان نے جو نئی کروٹیں لی ہیں یا جس حد تک اپنا فیشن تبدیل کیا ہے‘ بالخصوص جدید طرزِ احساس کو بھی فیضؔ نے کوئی گھاس نہیں ڈالی‘پھر فیضؔ کی غزل میں کوئی ڈائیورشن یا ڈائیورسٹی نظر نہیں آتی اور ایسا لگتا ہے کہ وہ ساری عمر ایک ہی غزل لکھتے رہے ہیں۔ فیضؔ ایک نظریے کے تحت شعر کہتے تھے اور میری ناقص رائے میں ان کی شاعری کا زیادہ تر حصہ سیاسی اور صحافیانہ ہے‘ کیونکہ ان کا تعلق سیاسی نظریے سے بھی تھا اور صحافت کے ساتھ اس طرح کہ وہ ایک عرصے تک پاکستان ٹائمز‘ امروز اور ہفت روزہ لیل و نہار کے چیف ایڈیٹر بھی رہے۔ یہی صورت حال ایک اور نظریاتی شاعر احمد ندیم قاسمی کی بھی تھی؛ حالانکہ شاعر کسی سماج سدھار تنظیم کا رکن یا اخبار کا تجزیہ نگار نہیں ہوتا‘ لیکن فیضؔ نے کم و بیش یہ دونوں کام کیے؛ چنانچہ ان کی شاعری کا بہت تھوڑا حصہ ایسا رہ جاتا ہے‘ جو خالص شاعری کی ذیل میں آتا ہے اور جس پر ہمیں گزارہ کرنا پڑتا ہے۔
یقینا یہ موضوعات شاعر کے دائرہ کار سے باہر نہیں ہوتے ‘لیکن سوال صرف تناسب کا ہے ‘جبکہ نظریاتی شاعر پہلے نتیجہ نکالتا ہے اور پھر اس کے مطابق نظم تخلیق کرتا ہے اور فیضؔ کمیونسٹ پارٹی کے بھی باقاعدہ رکن تھے اور لینن پرائز انہیں ان کے نظریے کی بنیاد پر دیا گیا‘ محض شاعری پر نہیں۔ فیض ؔنے سیاسی نظریے ہی کی بنیاد پر گُل و بلبل‘ باغ و باغباں کے معنی بھی تبدیل کر دیئے‘ اس لئے ہمیں غالبؔ کے زندان اور فیضؔ کے زندان و قفس میں ایک واضح فرق نظر آتا ہے۔ ان استعاروں سے فیضؔ نے اپنے سیاسی نقطۂ نظر کے مطابق کام لیا۔
ڈاکٹر ابرار احمد لکھتے ہیں '' باقی سبھی اہم شاعر ہم تک گائیکی کے ذریعے پہنچے ‘جن میں ناصر ؔکاظمی‘ منیرؔ نیازی اور فیضؔ و فرازؔ سبھی شامل ہیں‘ لیکن ظفرؔ اقبال واحد شاعر ہے‘ جو ہم تک کتاب کے ذریعے پہنچا‘‘۔ یہ بات اگر میری تعریف میں ہے تو اسے نقل کرنے پر معذرت چاہتا ہوں اور اگر میں لوگوں تک گائیکی کے ذریعے نہیں پہنچا تو یہ میری نالائقی ہو سکتی ہے‘ جسے میں تسلیم کرتا ہوں۔فیضؔ کے بارے میں بجاطور پر کہا جاتا ہے کہ اُنہوں نے رومان اور مزاحمت کا ایک اعلیٰ نمونہ پیش کیا ہے‘ لیکن فیضؔ نے جس مجبور و مقہور طبقے کیلئے شاعری کی ہے‘ فیض ؔکا خود اس طبقے سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا‘ کیونکہ وہ ایک مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ فیضؔ نے جس طبقے کیلئے اتنی زور دار شاعری کی‘ کیا وہ شاعری اس طبقے تک پہنچی؟ ہرگز نہیں‘ بلکہ اس سے بھی وہی ایلیٹ طبقہ لطف اندوز ہوتا ہے‘ جو فیضؔ کا اپنا طبقہ تھا؛ چنانچہ فیض ؔکا یہ سارا نظریاتی کلام اس طبقے کیلئے محض ایک ذہنی عیاشی کی حیثیت رکھتا ہے اور ان کی کتابیں ان حضرات نے اپنے شیلف سجانے کیلئے رکھی ہوتی ہیں۔
پھر جو ہر سال فیضؔ میلہ منایا جاتا ہے‘ اس کے کرتا دھرتا اور شرکاء بھی اسی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور کوئی یہ تردد نہیں کرتا کہ اس جشن میں اُن لوگوں کو بھی شامل کیا جائے‘ جن کیلئے فیضؔ نے شاعری کے انبار لگا رکھے ہیں۔ میں نے ایک بار تجویز پیش کی تھی کہ فیضؔ کے کلام میں سے انتخاب کر کے اس کا پنجابی اور دیگر علاقائی زبانوں میں ترجمہ کروا کر پیپر بیک کتابوں پر پمفلٹس کی شکل میں خصوصاً دیہات میں رہنے والے ان لوگوں تک پہنچایا جائے‘ جسے پڑھ کر ان میں تحریک پیدا ہو کہ وہ خود بھی اپنی حالت کو تبدیل کرنے کے بارے سوچ بچار کریں‘ کیونکہ وہ اس بات سے صریحاً بے خبر ہیں کہ فیضؔ نے ان کے بارے میں کیاکچھ لکھ رکھا ہے‘ جبکہ فی الحال تو فیضؔ کے انقلابی کلام کا صریحاً غلط استعمال ہی ہو رہا ہے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فیضؔ‘ صوفی تبسم سے اصلاح لیا کرتے تھے اور جب صوفی صاحب کا انتقال ہوا تو یہ سلسلہ ختم ہو گیا اور شاید اسی لئے فیضؔ کے آخری دنوں کے کلام میں وزن وغیرہ کی فنی غلطیاں نظر آتی ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔
اوپر مجیدؔ امجد‘ منیرؔ نیازی اور ناصرؔ کاظمی کا ذکر آیا ہے‘ جنہوں نے کسی سیاسی یا غیر سیاسی نظریے کا سہارا نہیں لیا‘ جبکہ مزاحمت اور مایوسی کے آثار ان کے ہاں بھی نظر آتے ہیں۔ن‘ م‘ راشد کے ہاں بھی ایسے جذبات دستیاب ہے ‘لیکن ایک حُسن تناسب کے ساتھ؛ البتہ حبیبؔ جالب کی شاعری‘ وہ جیسی بھی تھی‘ اُن طبقات تک کسی حد تک پہنچی ضرور‘ جن کیلئے تخلیق کی گئی تھی ‘جبکہ فیضؔ کی ایسی شاعری مراعات یافتہ طبقے تک ہی محدود رہی۔''سر عام ‘‘نامی میرے مجموعے میں صرف اسی طرح کی غزلیں ہیں اور جن کی تحسین بھی ہوئی‘ لیکن کتاب کے فلیپ میں ‘میں نے اسے اپنی کم تر درجے کی شاعری قرار دیا ہے۔یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اختلاف رائے کے بغیر ادب جامد ہو کر رہ جاتا ہے۔ میں فیضؔ کے ماننے والوں میں سے ہوں‘ اسی لئے میں نے اس کا نوٹس بھی لیا ہے کہ میرے نزدیک یہ سوالات اور تحفظات موجود تھے‘ جو میں نے بیان کر دیئے ہیں۔ میں غلط بھی ہو سکتا ہوں‘ لیکن میں اپنی بات کہنے کے حق سے دستبردار نہیں ہو سکتا کہ یہ میری مجبوری بھی ہے اور میں یہ کام کرتا بھی رہتا ہوں۔ ادب میں رعایتی نمبر نہیں ہوتے۔ میں کسی کو رعایتی نمبر دیتا بھی نہیں‘کیونکہ میں خود کسی سے رعایتی نمبروں کا طلبگار نہیں ہوتا!
آج کا مقطع
میں روز اپنے کناروں سے دیکھتا ہوں‘ ظفرؔ
کہاں سے دُور ہے دنیا‘ کہاں سے دُور نہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں