یہ بنگالی ادیب ربی سنکریال کا ناول ہے‘ جس کا انگریزی میں ترجمہ کیا گیا اور اب‘ اس کا اردو میں ترجمہ انعام ندیم نے کیا ہے ۔ یہ ناول ہماری دو نابغۂ روزگار ہستیوں غالبؔ اور منٹو کی آپس کی گفتگو پر مشتمل ہے۔ انتساب ''غیرحقیقی لوگ‘‘ کے مصنف مصطفی سراج کی یاد میں ہے‘ جبکہ انعام ندیم نے ترجمے کی اس کاوش کو اکبر معصوم کے نام کیا ہے۔آصف فرخی اپنے فاضلانہ دیباچے میں لکھتے ہیں: ''اس ناول کی تمام تر عمارت دو ستونوں کے بل بوتے پر قائم ہے‘ جو اردو ادب میں Iconic حیثیت رکھتے ہیں اور اپنے وقت کی نمائندگی کرنے کے ساتھ اس سے آگے بھی نکل جاتے ہیں۔ انیسویں صدی کے مرزا غالبؔ اور بیسویں صدی کے سعادت حسن منٹو‘ جن دونوں کے درمیان اس طرح کی ملاقات بھی طبعی طور پر ممکن نہیں تھی‘ جس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ عمر رسیدہ میرؔ نے نو عمر غالبؔ کے ابتدائی اشعار سُن کر ان کے بارے میں پیش گوئی کی ہوگی۔ دونوں اپنے حالات اور کیفیات کے اسیر ہیں اور انہی سے عبارت یہ زندگی کی کیفیات۔ معاشرے کے سماجی اداروں سے مخاصمانہ برتائو‘ فنی رویے اوراو ضاع سے شغف اور غرض ِ مماثلے اور مغائرت کا پورا ایک دائرہ کھینچا جا سکتا ہے۔ غیر مساوی لکیروں پر ایک دوسرے کے برابر چلتے ہوئے وہ مساوی نہ ہونے کے باوجود متوازی زندگی کے حامل نظر آتے ہیں۔ نادرۂ روزگار ہونے کی مشکلات سے لے کر غالبؔ کے روز و شب میں 1857 ء میں دہلی کی بربادی اور منٹو کے سلسلۂ زندگی میں 1947ء کا برپا کردہ ہنگامہ ایک دوسرے پر خوب روشنی ڈالتے ہیں۔ دونوں ہی انگریزوں کے قائم کردہ قانون و عدالت اور تعزیرات کا شکار اس طرح بنتے ہیں کہ قانون کی مشق اور فوجداری بھی افسانہ معلوم ہونے لگتی ہے۔ ورق الٹتے ہیں‘ مملکت برباد ہوتی ہے‘ ایک نئی حکومت وجود میں آتی ہے اور زندگی ایک بار پھر چل پڑتی ہے۔ دونوں کی اپنی اپنی زندگی‘‘۔ اپنے قابلِ قدر مقالے ''غالبؔ اور منٹو‘‘ میں ڈاکٹر شمس الحق عثمانی نے لکھا ہے:''غالبؔ اور منٹو اب نام نہیں‘ استعارے ہیں۔ ان کا خمیر انسانی جذبات و احساسات کی فہم اور پاسداری فن کی مساوی قوتوں سے اٹھا ہے ‘‘...لکھنے والا چابک دست ہو تو غالبؔ بھی افسانے میں ڈھل سکتے ہیں۔ ہمارے دور کے غالباً سب سے بڑے غالبؔ شناس شمس الرحمن فاروقی نے غالبؔ پر اپنی معتبر تنقید سے الگ ہٹ کر ''غالبؔ افسانہ‘‘ لکھا اور اس نوع کی تحریر کی مثال قائم کر دی ‘ لیکن ''دوزخ نامہ‘‘ کے مصنف نے صرف اتنا نہیں کیا کہ غالبؔ کو افسانے کے شیشے میں اتار لیا ‘بلکہ منٹو کے مقابلے میں لا بٹھایا کہ دونوں ہمکلام ہو گئے۔ یہ اجتماعِ ضدین نہیں‘ بلکہ مجمع البحرین بن گیا‘‘۔انعام ندیم عرضِ مترجم کے عنوان سے اپنے پیش لفظ میں رقم طراز ہیں:''تصور کیجیے انیسویں صدی‘ اگر بیسویں صدی کو گلے لگا لے‘ اور ہم اور آپ دو صدیوں کے اس ملاپ کے گواہ بن جائیں تو کیسا لگے گا؟ یوں دیکھا جائے تو دو صدیوں کے ملاپ کا یہ موقعہ اٹھارہ برس پہلے اس وقت آیا تھا‘ جب 31 دسمبر 1999ء کی رات دو صدیاں لمحہ بھر کیلئے ایک ہو گئی تھیں‘ لیکن یہاں تو بنگالی ادیب ربی سنکریال نے دو صدیوں کو ایک کتاب میں بند کر دیا ہے اور یہ ان
دو صدیوں کی دو نامور ہستیوں کی ملاقات کی دستاویز ہے ‘ان کا ناول ''دوزخ نامہ‘‘۔ اس ناول میں اردو شعر و ادب کی دو سر بر آوردہ شخصیات مرزا غالبؔ اور سعادت حسن منٹو اپنی اپنی قبر سے اٹھ کر اور ایک صدی کا فاصلہ طے کر کے ایک دوسرے سے محوِ گفتگو ہیں۔ اس لیے اس ناول کا ذیلی عنوان قائم کیا گیا ''دوزخ میں بات چیت ‘‘ انیسویں صدی کے شاعر اور بیسویں صدی کے افسانہ نگار کی مرنے کے بعد قبر میں ہونیوالی ملاقات میں ان کے اپنے اپنے زمانوں کا جو نقشہ ابھرتا ہے‘ وہی دوزخ نامہ ہے۔ یہاں غالبؔ اپنی داستان سنا رہے ہیں کہ کیسے وہ آگرہ سے شاہجہاں آباد‘ یعنی دہلی پہنچے۔ غالبؔ کا بچپن‘ لڑکپن اور جوانی ان کے عشق اور فاقہ مستی۔ 1857ء کے غدر کے بعد کے حالات اور انگریز سرکار سے پنشن کے حصول کیلئے غالبؔ کا کلکتہ کا سفر۔ غالبؔ یہ ساری داستان منٹو کو سنا رہے ہیں اور منٹو بھی ہندوستان میں اپنے قیام اور پاکستان ہجرت کر جانے کے بعد ہونے والی نا امیدی کی کہانی غالب ؔسے کہہ رہے ہیں۔ ان دونوں کی جیون کتھائوں کے ساتھ ناول اپنے بے شمار رنگا رنگ قصوں سے بھرا ہوا ہے‘ جن پر اب وقت کی گرد جم چکی ہے۔ ایک قصہ ختم نہیں ہوتا کہ دوسرے کا بیان شروع ہو جاتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے ‘قاری ایک اور الف لیلیٰ پڑھ رہا ہے‘ لیکن اس بار داستان شہر زاد نہیں سنا رہی‘ بلکہ اسے ہم مرزا غالبؔ اور منٹو کی زبانی سن رہے ہیں اور جس داستان کو مرزا غالبؔ جیسا شاعر اور منٹو جیسا افسانہ نگار سنائے‘ ذرا سوچیے وہ داستان کیسی پُر لطف ہو گی‘‘۔ ہمہ نوع دلچسپیوں سے بھری ہوئی یہ تحفہ کتاب پیپر پیک میں چھپی اور پانچ سو صفحات پر مشتمل ہے۔
اور‘ اب آخر میں احمد حماد کی زمین میںعلی ارمانؔ کی یہ تازہ غزل:
شال فلک کی چھوڑیں جی
اپنی مٹی اوڑھیں جی
میں خوابِ خرگوش میں ہوں
مجھ کو ذرا جھنجھوڑیں جی
پیر جی روٹی کھانی ہے
کیا اب چِلّہ توڑیں جی
ٹکّر مار کے انھّے واہ
پتھر کا سر پھوڑیں جی
آ کے رُکا جب دل میں وہ
لگ گئیں میری دوڑیں جی
ہو پائے تو زندگی کو
مصرع مصرع جوڑیں جی
اپنی فوٹو واپس لیں
اور میرا دل موڑیں جی
آج کا مطلع
میرے دل میں محبت بہت ہے
اور محبت میں طاقت بہت ہے