محمد سلیم الرحمن اردو شعر و ادب کا ایک بڑا نام ہے۔ جینوئن ادیب اپنی زبان اور زمانہ ساتھ لے کر آتا ہے۔ نظم، تنقید اور ترجمہ، اس نے سارے پھول اسی تکون میں کھلائے ہیں جبکہ سویراؔ جیسے عظیم المرتبت جریدے کی مستقل ادارت ان کے علاوہ ہے۔ کوئی پچاس برس پہلے سویرا کے پس سرورق اشتہار چھپا کرتا تھا ،محمد سلیم الرحمن کی نظمیں، کل شائع ہوں گی‘ لیکن اسی کل میں کئی دہائیاں گزر گئیں اور ہم اس کا انتظار ہی کرتے رہے۔ یہ کتاب کا دوسرا ایڈیشن ہے، پہلا کب چھپا، میرے علم میں نہیں، یقینا اس اشتہار کے سالہا سال بعد ہی شائع ہوا ہوگا۔نظم ایک عجیب چیز ہے، یہ کبھی ختم نہیں ہوتی۔ میں نے ایک بار لکھا تھا کہ نظم کو آپ جہاں ختم کریں، جب بھی چاہیں اسے وہیں سے پھر شروع کر سکتے ہیں۔ کتاب کے پسِ سرورق اس کی تحریر درج ہے جس پر اس نے اپنا نام لکھنا ضروری نہیں سمجھا لیکن پہلی نظر میں ہی پتا چل جاتا ہے کہ اس کا خالق کون ہو سکتا ہے۔ یہ تحریر بجائے خود ایک نظم ہے، ذرا دیکھئے:
''شاعری کیا ہے؟ شعر کہنے والے کی ذات بیچ ایک دریاؤ، ذات کو بانٹتا ہوا، کبھی سیرابی، کبھی طغیانی، کبھی سکھاؤ، مگر ہمیشہ ایک جگائے رکھنے والا بہائو ‘نہ بھرنے والا زخم، جدائی کا نشان، اور ہر نظم ایک بظاہر بے ترتیب حقیقی یا خیالی دنیا کو بار بار مرتب کرنے کی کوشش۔ ہر نظم پیام ‘جسے کبوتر لے اڑے اور مخالف ہوائوں اور صدائوں سے الجھتا ہوا جانے کس گھر جا اترے، یا بوتل میں بند عبارت جو سمندر میں بہتے بہتے کسی کے ہاتھ آ جائے، ایک حیرت زدہ اجنبی کی کسی دوسرے حیرت زدہ اجنبی سے ہم کلامی۔خود سے آشنا ہوتے ہوئے، زندگی سے آشنا ہوتے ہوئے، اپنے تخیّل سے آزاد ہو کر، اپنے تخیّل میں گم ہو کر ایک عمر گزری ہے اور پھر بھی کسی ایسے آنکھ او جھل مقام پر جہاں صبح سدا گل ہوا چاہتی ہو اور شام طلوع ہونے کو چہیتے اور اہلے گہلے لفظوں سے نظمیں گوندھنے کا شوق دل سے جاتا نہیں۔ مجھے معلوم نہیں میں کون ہوں اور یہ نظمیں کس کی آواز میں کیا کہنا چاہتی ہیں۔ یہ کبھی سانچے میں ڈھلی ڈھلائی اور کبھی ابتر حالت میں میرے پاس آئی ہیں اور میں نے ان کا منہ دھویا ہے، لباس بدلا ہے اور ان کی بات کو کچھ سمجھا ہے، کچھ نہیں سمجھا، انہوں نے میرے کان میں کچھ کہا ہے اور میں نے، اپنے خیال میں، ان کا کہا دہرایا ہے اور جی چاہا ہے کہ خواب جیسی بے اختیاری میں مجھے کہیں سے جو ملا ہے، جس نے مجھے خوش بھی کیا ہے، اُداس بھی، حیران بھی، اس میں دوسروں کو بھی شریک کروں، دوسروں کی تنہائیوں میں کچھ دیر کے لیے، کچھ دور تک ، اپنی تنہائیوں کو بھی ملا دوں۔ دو چار قدم کسی طرف ساتھ چل کر راحت ملے تو سہی‘‘۔
یہ کتاب نہایت اعلیٰ گیٹ اپ میں ''قوسین‘‘ نے چھاپی ہے جس کے ناشر سلیم و ریاض ہیں یعنی محمد سلیم الرحمن اور ریاض احمد چودھری۔ مجھے خوشی اور فخر ہے کہ یہ ترکیب میری وضع کردہ ہے اور میرے تیسرے مجموعۂ کلام ''رطب ویا بس‘‘ میں موجود ایک غزل کی ردیف بھی، اور جس کا ایک شعر کچھ اس طرح سے ہے؎
چائے منگوائیے صلاح الدین/ کھڑکیاں کھول دو سلیم و ریاض
''آبِ رواں‘‘ کا دوسرا ایڈیشن اسی ادارے نے چھاپا تھا اور جس میں محمد سلیم الرحمن کا لکھا ہوا خوبصورت دیباچہ بھی شامل ہے۔ سلیم صرف نظم لکھتا ہے لیکن اس پر غزل کا ایک مطلع تخلیق کرنے کی تہمت بھی ہے۔میں اس کا ذکر پہلے بھی کہیں کر چکا ہوں کہ ایک دن ہم سویراؔ کے دفتر میں بیٹھے تھے کہ اس نے یہ شعر لکھ کر میری طرف سرکا دیا؎
شاعر وہی شاعروں میں اچھا
کھا جائے جو شاعری کو کچّا
میں نے اس شرارتی عطا کو قبول کرتے ہوئے اس پر پوری غزل لکھی جو ''گلافتاب‘‘ میں شامل ہے۔مُشتے از خر وارے کے طور پر اس کی ایک نظم:
تیرے ستم کے سینکڑوں رنگ ہیں یا کبھی کبھی
کوئی سارنگ بھی نہیں
ساتھ رہے ترے یہاں جانے کہاں کہاں مگر
یوں ترے سنگ بھی نہیں
تُو نے کبھی نہیں سنا، کون ہیں ہم، کہاں ہیں ہم
آیا نہ لب پہ دل کا راز
لے گئی اُس طرف ہوا تو نے جدھر کا رخ کیا
ہم کہ تھے سر بسر نیاز (جاری ہے)
اور، اب آخر میں یہ تازہ غزل:
نالہ کبھی ہمارا ترا نہ نہیں ہوا
بیگانہ ہی رہا جو یگانہ نہیں ہوا
جلتا رہا ہے ساتھ ہمارے جو سر بسر
لیکن کبھی وہ شانہ بشانہ نہیں ہوا
مدت سے ایک خواب کا ٹکڑا اُسی طرح
دل میں پڑا ہے اور پرانا نہیں ہوا
سیدھا تھا صاف راستا اور مختصر بہت
میں اس لیے سفر پہ روانہ نہیں ہوا
میں جو چھپا ہوا تھا خود اپنی ہی آڑ میں
تب ہی تو دشمنوں کا نشانہ نہیں ہوا
اک عمر ہو گئی ہے کسی کام کے بغیر
رونا نہیں ہوا کبھی گانا نہیں ہوا
جس میں ہمیں ہی مار دیا جائے گا کہیں
پورا ابھی بیاں وہ فسانہ نہیں ہوا
جس کے لیے زمین ہی ساری ادھیڑ دی
دریافت آج تک وہ خزانہ نہیں ہوا
وہ سمت ہی مجھے نہیں اب یاد اے ظفرؔ
مجھ کو جدھر سے آئے زمانہ نہیں ہوا
آج کامقطع:
ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اب جہاں جنّات، ظفر
انہی اِطراف میں اپنا بھی پری خانہ تھا