"ZIC" (space) message & send to 7575

دعوتِ شیراز اور تازہ غزل

یہ ہمارے دوست حسین احمد شیرازی کی دوسری تصنیف ہے جسے سنگِ میل پبلی کیشنز نے بڑی تقطیع پر عمدہ گیٹ اپ کے ساتھ چھاپا ہے۔ سرورق پر جاوید اقبال کے چھوٹے چھوٹے کارٹونوں کی بہار لگی ہوئی ہے۔ انتساب یار جانی عرفان محمود عرف ''چھوٹے ربانی‘‘ کے نام ہے۔ دیباچہ نگاروں میں عطا الحق قاسمی، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ڈاکٹر رئوف پاریکھ، اور اشفاق احمد ورک شامل ہیں۔ عطا الحق قاسمی لکھتے ہیں:''میں نے جب مطالعہ شروع کیا تو مجھے محسوس ہوا کہ نقشِ دوم نقشِ اول سے دو قدم آگے ہیں۔ حسین شیرازی کی تحریر آپ کو قہقہہ بھی دیتی ہے مگر کم کم، البتہ چہرے کی مسکراہٹ اور سوچ کی لہروں میں کمی نہیں آتے دیتی۔ محفل میں بہت کم گفتگو کرتے ہیں‘ مگر انہیں پڑھتے ہوئے لگتا ہے کہ وہ لکھ نہیں رہے، اعلیٰ ذوق کے حامل بے تکلفانہ دوستوں کی محفل میں بیٹھے انہیں اپنی زندگی کے شنیدہ و دیدہ واقعات سنا رہے ہیں اور ان لمحوں میں جی چاہتا ہے کہ یہ طوطیٔ خوش بیاں بولتا چلا جائے اور ہم سنتے جائیں! میں کون ہوتا ہوں کہ حسین شیرازی کی اس اعلیٰ درجے کی خوش بیانی پر انہیں داد دوں، میں دعا ہی کر سکتا ہوں کہ وہ ہم کم نصیبوں میں اپنی تحریریں دان کرتے رہیں۔ حسین شیرازی ایسے شگفتہ نگار ادیب اگر ہمارے درمیان نہ ہوتے تو ہمیں یہ زندگی کتنی کٹھن محسوس ہوتی‘‘۔
ڈاکٹر رئوف پاریکھ کے خیال میں ''شیرازی صاحب کے مزاح کی نمایاں خصوصیات میں ان کا زبان پر عبور، ذوقِ شعری اور ایک فطری حسِ مزاح بھی ہے جو پھوار میں بھی ناہمواری اور ناگوار میں بھی خوشی کے کچھ پہلو تلاش کر لیتی ہے اور یہی کسی مزاح نگار کی سب سے عزیز متاع ہوتی ہے، بقول سرخیلِ قبیلۂ مزاح نگاراں مشتاق احمد یوسفی، حسِ مزاح ہی انسان کی چھٹی حس ہے اور اگر یہ حس پاس ہو تو انسان ہر مشکل سے ہنستا کھیلتا گزر جاتا ہے؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ کالج کے کھلنڈرے پن کے ساتھ اس دور کی ناگفتہ بہ حماقتیں اور ان کا ملبہ ہو یا ہمارے ہسپتالوں کی قابلِ رحم اور ناقابلِ علاج حالتِ زار، میاں بیوی کے رشتے کی نزاکتیں ہوں یا سرکاری ملازمت کا خار زار، شیرازی صاحب ان سب سے یوں ہنستے کھیلتے گزر جاتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ اگرچہ اس عمل میں بقول شاعر سیروں لہو خشک ہوتا ہے۔ تب کہیں جا کر ایک مصرع ٔترکی کی صورت نظر آتی ہے۔ لیکن لکھنے والے کا کمال یہ ہے کہ بڑی بے ساختگی اور روانی سے قاری کو اپنے احساسات میں شریک کر لیا ہے، ناگوار حالات و واقعات یا بے لطف مشاہدات کو ایک لطیف انداز اور خوبصورت زبان کے ساتھ لطف لے لے کر پیش کرنا قاری کے لیے زندگی آموز ۔
شیرازی صاحب کا تحریر ایک مختصر نمونہ:''ہمارے ملک میں کئی لوگ اپنے خاندان ہی میں رشتے داری کرتے ہیں۔ واضح ہے کہ اس ماحول میں لڑکے لڑکیوں کی ابتدائی پسند بھی اپنے عزیز و اقربا میں ہوتی ہے اور باہمی تنازعات کی وجہ سے اکثر و بیشتر یہ بیل منڈھے نہیں چڑھتی اور پھر عاشق ''ماموں جان‘‘ کہلواتے ہیں جبکہ محبوبہ ''پھپھو‘‘ بن جاتی ہے۔ ماموں جان کے بیاہ پر متعلقہ بلکہ ذہنی مطلّقہ لڑکی دل میں خون کے آنسو روتی اور چہرے پر روحانی رنج لیکن بناوٹی مسّرت کے بے ڈھنگے امتزاج کا سائن بورڈ لگا کر
کمالِ ضبط کو میں خود بھی آزمائوں گی
میں اپنے ہاتھ سے اس کی دلہن سجائوں گی
کا ورد کر رہی ہوتی ہے۔ اس لڑکی کے نکاح پر ناکام عاشق باراتیوں کے خیر مقدم کے لیے استقبالیہ بناتے ہوئے سیڑھی سے گر کر ٹوٹنے والے بازو پر ہسپتال میں پلستر لگواتے ہوئے بھی خدا کا شکر ادا کرتا ہے کہ اسے رخصتی کی قباحت سے غیر حاضری کا معقول بہانہ مل گیا ہے۔ البتہ عیادت کے لیے آنے والے شر انگیز ملاقاتیوں کا یہ جملہ اسے کلاشنکوف کے برسٹ کی طرح لگتا ہے جو اس کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے کہتے ہیں، بہت افسوس ہے کہ تم اپنی بہن کی ڈولی اٹھا کر اسے الوداع نہ کہہ سکے‘‘۔میری رائے میں مزاح کی ٹرین میں بھی شاعری کی طرح صرف فرسٹ کلاس ہوتی ہے اور تھرڈ کلاس، درمیانہ درجہ نہیں ہوتا، اس لیے مزاح پارہ فرسٹ کلاس ہوتا ہے یا تھرڈ کلاس اور اس طرح درمیانے درجے کا مزاح بھی تھرڈ کلاس ہی ہوتا ہے اور جس طرح درمیانے درجے کا مزاح بھی چل جاتا ہے۔ مختصر یہ کہ آدمی مزاح نگار ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ امید ہے کہ اس کتاب کے آٹھ ایڈیشن چھیں گے ع
ایں دُعا از من واز جملہ جہاں آمیں باد !
اور ،اب آخر میں یہ تازہ غزل
یہ جو تیرے ساتھ رہنے کا ہمارا خواب ہے
واہمہ ہے سر بسر، سارے کا سارا خواب ہے
جس کی گنجائش نہیں تیری زمینوں پر کہیں
کوئی دل کے آسمانوں پر اُتارا خواب ہے
خواب ہے اور نیند کا وہ درمیاں میں ٹوٹنا
نیند کا پھر زور کرنا اور دوبارہ خواب ہے
آرزو کے گھور اندھیرے میں یہ رہ رہ کر جو آج
جھلملاتا ہے کہیں کوئی ستارہ، خواب ہے
خواب کی تعبیر بھی بتلا رہا ہے بیش و کم
لگ رہا ہے یہ کسی جانب اشارہ خواب ہے
یہ جو میرے خواب سے ہر دم اُلجھتا ہے ابھی
اور کوئی ہو نہیں سکتا، تمہارا خواب ہے
جیسے پتھر سے کوئی شیشہ ہو ٹکرایا ہوا
پرزہ پرزہ ہے خیال اور پارہ پارہ خواب ہے
تُو کہیں بھی ہو، کسی کے پاس بھی رہتا رہے
کیا کیا جائے، ہمیں یہ بھی گوارا خواب ہے
رہ گئی ہے خواب میں جو خواب کی خوشبو، ظفرؔ
شاید اُس کے خواب سے میں نے گزارا خواب ہے
آج کا مقطع:
مار ڈالیں گے تجھے اُس بزم میں بولا تو ظفر
یہ بھی طے ہے کہ نہ بولے گا تو مر جائے گا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں