الطافِ صحافت
اس کالم کی تنگ دامانی تبصرے کی متحمل نہیں ہو سکتی، نہ ہی میں اپنے آپ کو اس کا اہل سمجھتا ہوں چنانچہ میں صرف اطلاع دیتا ہوں کہ فلاں مصنف کی فلاں کتاب چھپ گئی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ زیرِ نظر کتاب الطاف حسن قریشی مدیر اعلیٰ اردو ڈائجسٹ کی شخصیت اور صحافتی و ادبی خدمات کا احاطہ کرتی ہے جسے ڈاکٹر طاہر مسعود نے مرتب کیا اور قرطاس نے چھاپا ہے۔ انتساب ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کے نام ہے۔ پسِ سرورق تحسینی رائے دینے والوں میں مشتاق احمدیوسفی، سید ضمیر جعفری، وسعت اللہ خان، مجیب الرحمن شامی اور سلمیٰ اعوان شامل ہیں۔ سرورق کو صاحبِ کتاب کی تصویر سے سجایا گیا ہے۔ الطاف حسن قریشی ایک صاحبِ اسلوب ادیب اور روشن دماغ دانشور کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ان کے ساتھ پرانی یاد اللہ ہے اور مجھے ان کے ہفت روزہ ''زندگی‘‘ میں لکھنے کا شرف بھی حاصل ہے اور یہ ایک پورے عہد کا نام ہے۔ ان سے فیض حاصل کرنے والوں میں بہت سے نامی گرامی صحافی بھی شامل ہیں۔ یہ کتاب نہیں بلکہ ایک ایسی دستاویز ہے جو ادب و صحافت میں اپنے ہی رنگ بھرتی نظر آتی ہے!
''ادبیات‘‘ خصوصی شمارہ اردو ناول
ڈیڑھ صدی کا قصہ (دو جلدوں میں)
یہ معتبر جریدہ اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام اختر رضا سلیمی کی زیر ادارت اور ڈاکٹر یوسف خشک کی نگرانی میں شائع ہوتا ہے۔ جس میں اردو ادب کی اہم ترین صنف‘ ناول کی پوری تاریخ بیان کر دی گئی ہے۔ جلد اول 556، اور جلد دوم 596 صفحات پر محیط ہے۔ برصغیر کے نامور ادیبوں کی تحریریں اس میں شامل کی گئی ہیں جس سے اس صنفِ ادب کے اِرتقا سے لے کر اب تک کے تمام مراحل بیان کر دیے گئے ہیں اور ناول پر اس طرح کا مسبوط کام ہمارے ہاں پہلے نظر نہیں آتا۔ اس کی مجلسِ مشاورتِ متن میں ڈاکٹر توصیف تبسم، ڈاکٹر اقبال آفاقی، محمد حمید شاہد اور ڈاکٹر وحید احمد شامل ہیں۔ سرورق وصی حیدر کا تیار کردہ ہے جن کا مختصر تعارف تصویر کے ساتھ اندرون ِسرورق شامل کیا گیا ہے۔ یہ صرف ایک رسالہ نہیں بلکہ متعدد موضوعات اور شخصیات پر خصوصی نمبر بھی اس کے کریڈٹ میں شامل ہیں۔ تخلیق کاروں میں شمیم حنفی، ڈاکٹر احسان اکبر، ڈاکٹر آصف فرخی، محمد عاصم بٹ، زاہد حسن، ڈاکٹر طارق ہاشمی، ڈاکٹر ناہید قمر، قاسم یعقوب، ڈاکٹر سلیم اختر، مشرف عالم ذوقی، علی عباس حسینی، ڈاکٹر امجد طفیل، سراج منیر، ڈاکٹر رفیق سندیلوی، مبین مرزا، ڈاکٹرغفور شاہ قاسم، ڈاکٹر نثار ترابی، عامر سہیل، احمد حسین مجاہد، انیس اشفاق، محمد حمید شاہد، محمد سلیم الرحمن، خالد فتح محمد، شمس الرحمن فاروقی، ڈاکٹر مرزاحامد بیگ، ڈاکٹر ممتاز احمد خاں، خالد اقبال یاسر، ڈاکٹر سعادت سعید، مرزا اطہر بیگ، نیّر مسعود، اختر رضا سلیمی، سجاد بلوچ اور دیگران شامل ہیں۔
بیسویں صدی کا شعری ادب
یہ کتاب جامعات میں پڑھائے جانے والے اہم شاعروں کے فکر وفن کے تجزیے پر مشتمل ہے جسے ڈاکٹر بدر منیر الدین نے مرتب کیا ہے اور جسے نیشنل بک فائونڈیشن اسلام آباد نے شائع کیا ہے اور جس میں مولانا ظفر علی خان، مولانا حسرت موہانی، اصغر گونڈوی، مرزا یگانہ چنگیزی، حفیظ جالندھری، اختر شیرانی، میرا جی، فراق گورکھپوری، جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض، ن م راشد، مجید امجد، ناصر کاظمی، منیر نیازی، احمد فراز، جون ایلیا اور یہ خاکسار شامل ہیں۔ اس کا پیش لفظ منیجنگ ڈائریکٹر ادارہ ہذا ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے تحریر کیا ہے جبکہ عرضِ مرتب کے عنوان سے مرتب کتاب ہذا ڈاکٹر بدر منیر الدین کے قلم سے ہے۔ 510 صفحات پر مشتمل یہ کتاب مندرجہ بالا شعرا کے فکر و فن کا تجزیہ پیش کرتی ہے جو اپنی جگہ پر ایک افادیت کی حامل ہے۔
حیرت
یہ سید افسر ساجد کا مجموعۂ کلام ہے جسے بُکس اینڈ ریڈرز‘ بوسن روڈ ملتان نے شائع کیا ہے۔ انتساب ملک محمد تحسین کھوکھر کے نام ہے۔ پسِ سرورق ڈاکٹر ریاض مجید کی تحسینی رائے درج ہے جبکہ اندرونِ سرورق اظہارِ خیال کرنے والوں میں پروفیسر انور جمال اور ڈاکٹر حمید اللہ شیخ شامل ہیں۔ پیش لفظ شاعر کا بقلم خود ہے جبکہ دیباچہ نگاروں میں فیاض تحسین، ریاض مجید، امجد اسلام امجد اور نصرت صدیقی شامل ہیں۔ آپ مختلف انگریزی روزناموں میں ادبی کالم نگاری بھی کرتے رہے ہیں، نمونۂ کلام:
ہونٹوں کا ہلانا بھی کسی کام نہ آیا
آیا بھی کوئی نام تو وہ نام نہ آیا
اک حسرتِ بے نام مری آبلہ پائی
آشفتہ سری پر کوئی الزام نہ آیا
میں استعاروں میں جی رہا ہوں
یہ سلمان ثروت کا مجموعۂ کلام ہے جو ہمارے منفرد اور مرحوم شاعر ثروت حسین کے صاحبزادے ہیں اور جسے ''آج کی کتابیں‘‘ کراچی نے شائع کیا ہے۔ انتساب اس لامتناہی خلا میں اُس جزیرۂ عافیت اور جزیرے کے باسیوں کے نام ہے جسے گھر کہا جاتا ہے۔ خلا نورد کے عنوان سے پیش لفظ شاعر کا قلمی ہے جبکہ دیباچے ڈاکٹر ضیاء الحسن اور سرور جاوید نے لکھے ہیں۔ اندورنِ سرورق انگریزی زبان میں شاعر کا تعارف اور تصویر شائع کی گئی ہے اور افتخار عارف کی طرف سے تحسینی رائے درج ہے جو لکھتے ہیں کہ ثروت حسین نے جہاں سفر آغاز کیا تھا اسی روایت کو آگے بڑھانے میں سلمان اگر منہمک رہے تو بہت جلد اردو شاعری میں ایک خوشگوار اضافہ ہوگا۔ اس میں نظمیں اور غزلیں شامل ہیں جبکہ کتاب کے آخر میں شاعر کی متعدد نظموں کے انگریزی تراجم شائع کیے گئے ہیں جو انیس الرحمن نے کیے ہیں۔ سرورق نادیہ خالد کا تیار کردہ ہے جبکہ مصوری وصی حیدر کی ہے۔ نمونۂ کلام:
اَنا کے بل پہ زمانے سے کٹ گیا تھا کوئی
خود اپنی ذات کے خانوں میں بٹ گیا تھا کوئی
کتابی سلسلہ اجرا
اسے کراچی سے اقبال خورشید نکالتے ہیں۔ زیر نظر شمارہ شکیل عادل زادہ نمبر ہے جس میں شہرۂ آفاق رسالے ''سب رنگ‘‘ کے ایڈیٹر کی خدمات کا مفصل جائزہ لیا گیا ہے اور جسے مختلف ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے جو حسبِ ذیل ہیں: خواب دیکھنے والا، خراجِ تحسین، سب رنگ، نذرانۂ عقیدت (منظوم) اور خطوط کہانی۔ کتاب میں شکیل عادل زادہ کی متعدد تصاویر بھی شائع کی گئی ہیں جو موصوف کی عمر کے مختلف حصوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ لکھنے والوں میں عامر ہاشم خاکوانی، ڈاکٹر امجد ثاقب، جمال احسانی، اقبال خورشید، سحر انصاری، نصیر ترابی، ڈاکٹر معین الدین عقیل، انور شعور، اخلاق احمد، ڈاکٹر محمود احمد کاوش، مہناز انجم، رجب الدین، ڈاکٹر خلیل اللہ شبلی، علامہ اعجاز فرخ، انور خواجہ، سید ایاز محمود، ڈاکٹر آفتاب مضطر ہیں۔ جبکہ رئیس امروہوی، عینی آپا، ابن انشا، جون ایلیا، گلزار، اسد محمد خاں، کمال احمد رضوی اور سید نور کے خطوط شامل ہیں۔ 307 صفحات پر محیط یہ جریدہ اپنے عہد کے اس مقبول و ممتاز مصنف کا احوال پیش کرتا ہے۔
آج کا مقطع
جو زور سے قہقہہ لگایا
اس میں بھی ظفرؔ‘ ہنسی نہیں تھی