"ZIC" (space) message & send to 7575

کچا چٹھا

میرے کریڈٹ پر اس وقت لگ بھگ 45 ہزار اشعار موجود ہیں، اور ابھی یہ اننگز جاری ہے۔ میں نے ہر طرح کا شعر کہا ہے، اخلاقی، غیر اخلاقی، اُوٹ پٹانگ، تقریباً بے معنی اور ایسا بھی جسے لوگ کہیں کہ کیا یہ بھی شعر ہے؟ اور، یہ سارے شعر کی تلاش ہی کے سلسلے ہیں کہ صورتحال کچھ ایسی رہی کہ ؎
میں بھاگتا پھرتا ہوں بے سود تعاقب میں
یہ شعر کی تتلی ہے جو ہاتھ نہیں آتی
ایک انٹرویو میں جب مجھے کہا گیا کہ اپنا کوئی پسندیدہ شعر سنائیں تو میرا جواب تھا کہ میں نے ابھی تک کوئی پسندیدہ شعر نہیں کہا ہے اور نہ ہی آئندہ ایسی کوئی خاص امید ہے۔ ایک عرصہ پہلے بی بی سی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں میرا یہ جملہ خوب وائرل ہوا کہ یہ عین ممکن ہے کہ کسی سہانی صبح کو میں اپنا سارا کلام ہی منسوخ کر دوں۔ 1962ء میں جب میرا پہلا مجموعۂ کلام ''آبِ رواں‘‘ چھپا تو، اسے جدید اردو غزل کا ایک نیا موڑ قرار دیا گیا، حتیٰ کہ اب اس کا ذکر کرتے وقت اس کے ساتھ میرا نام لینا بھی ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ میرا دوسرا مجموعہ گل آفتاب شائع ہوا تو شمس الرحمن فاروقی نے لکھا کہ دیوانِ غالبؔ کی اشاعت کے بعد یہ پہلی تہلکہ خیز ترین کتاب آئی ہے۔ ''غبار آلود سمتوں کا سراغ‘‘ کے بارے میں پروفیسر جیلانی کامران نے، جو ان دنوں دی سول اینڈ ملٹری گزٹ میں کتابوں پر تبصرہ کیا کرتے تھے، لکھا کہ یہ ظفر اقبال کا ماسٹر پیس ہے اور یہ کتاب دیوانِ غالبؔ کے مقابلے میں رکھی جا سکتی ہے۔ اُدھر ادبی محفلوں میں انتظار حسین نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ شمس الرحمن فاروقی نے ظفر اقبال کو کہیں غالبؔ سے بڑا شاعر قرار دے دیا تو ظفر اقبال کا ہاضمہ اتنا تیز تھا کہ وہ اسے ہضم کر گیا۔ انہی دنوں نئی دہلی سے شائع ہونے والے جریدے ''استعارہ‘‘ کے پہلے شمارے میں چھپنے والے ایک خاتون (غالباً زینب علی) کے مضمون کا پہلا جملہ ہی یہ تھا کہ کیسا زمانہ آ گیا ہے، ظفر اقبال کو غالبؔ سے بڑا شاعر قرار دیا جا رہا ہے۔ اس کے فوراً بعد ہی میری اور فاروقی کے درمیان کھٹ پٹ ہو گئی۔ ہوا یوں کہ انہوں نے رسالہ ''شب خون‘‘ میں ایک مضمون لکھا جس کے بارے میں نے انہیں لکھا کہ اس میں زبان کی کم و بیش پندرہ غلطیاں ہیں۔ انہوں نے جواب میں اپنی وضاحت چھاپی جس میں یہ بھی لکھا کہ ظفر اقبال جتنے عمدہ شاعر ہیں اتنے ہی بُرے نقاد بھی ہیں۔ میں نے جواب میں انہیں لکھا کہ اس وضاحت میں بھی زبان کی یہ یہ درجن بھر غلطیاں موجود ہیں۔ لیکن انہوں نے میرا وہ خط چھاپا نہ اس کا کوئی جواب دیا۔ میں نے اس پر انہیں ایک تند و تیز خط لکھا کہ ہم پنجابی ڈھگّے ہی سہی لیکن ہمیں اپنی بات کہنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ اس کے علاوہ میں نے دو سال تک ان کے رسالے کا بائیکاٹ کیے رکھا اور یہی وہ زمانہ تھا جب انہوں نے کہا کہ میں نے ظفر اقبال کے بارے میں ایسی کوئی بات نہیں کہی۔ تاہم میرے پاس مشفق خواجہ کا وہ خط موجود ہے جس میں انہوں نے لکھا کہ یہ بات فاروقی صاحب نے ایک ریڈیو ٹاک شو میں کہی تھی۔ تاہم میرا مؤقف یہ تھا کہ کسی کے کہنے سے کوئی چھوٹا یا بڑا نہیں ہو جاتا، میں اتنا ہی رہوں گا جتنا کہ ہوں۔ علاوہ ازیں ''اب تک‘‘ کی پہلی جلد میں مَیں نے لکھا کہ میرے مرنے کے 50 سال بعد یہ طے ہوگا کہ میں بڑا شاعر تھا یا چھوٹا، یا شاعر تھا بھی کہ نہیں!
یہ واقعہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ پانچ سات برس پہلے ایک دن مجھے فون آیا کہ میں فلاں گوئندوی بول رہا ہوں۔ میں نئی دہلی سے ساداتِ امروہہ کے مشاعرے میں شرکت کے لیے بائی ایئر کراچی آیا تھا، اور مجھے بائی ایئر ہی واپس جانا تھا لیکن اب میں بائی ٹرین لاہور آ گیا ہوں کہ آپ کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا کہ میں ایسی کوئی قابلِ دید چیز تو نہیں ہوں؛ تاہم آپ تشریف لے آئیں۔ وہ آئے اور گپ شپ کے دوران کہا کہ ظفر اقبال صاحب! یقین کیجیے، بھارت کتنا بڑا ملک ہے، اس کے ہر اہم شہر کی ہر ادبی انجمن میں دو گروپ پائے جاتے ہیں، ایک پرو ظفر اقبال اور ایک اینٹی ظفر اقبال۔ اور آپس میں ان کی اکثر اوقات ٹھنی رہتی ہے۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ جس ملک میں مَیں آج تک گیا ہی نہیں، وہاں میں زیرِ بحث رہتا ہوں۔ کوئی مجھے گالی دے رہا ہے اور کوئی پیار سے یاد کر رہا ہے!کئی سال پہلے جب میرے ایک عزیز میاں محمد زمان، جو اُن دنوں وفاقی وزیر تھے، امریکہ گئے تو وہاں انہیں ایک مشاعرے میں مہمان کے طور پر شرکت کی دعوت دی گئی جس میں احمد فرازؔ بھی آئے ہوئے تھے۔ انہیں کسی نے بتایا کہ یہ جو مہمان ہیں، ظفر اقبال کے رشتے دار ہیں۔ دونوں میں تعارف ہوا تو اس دوران میاں زمان نے فرازؔ سے پوچھا کہ ظفر اقبال ہمارے تو گھر کا آدمی ہے‘ اس کو ہم جو بھی سمجھتے ہوں، آپ کی اُن کی شاعری کے بارے میں کیا رائے ہے؟ تو فرازؔ نے کہا کہ لوگ ہمیں پڑھتے ہیں اور ہم ظفر اقبال کو۔ شہزاد احمد نے بتایا: اس وقت میں بھی وہاں موجود تھا۔
اوکاڑہ سے شاعر مسعود احمد کے بھائی پروفیسر ندیم اصغر نے فون پر بتایا کہ فیس بک پر ایک پوسٹ کے مطابق ساقی فاروقی نے کہہ رکھا ہے کہ پاکستان میں کل ڈیڑھ شاعر ہیں۔ ایک ظفر اقبال اور آدھا منیر نیازی۔ آفتاب اقبال کا خیال ہے کہ میرا کلام کا صرف 30 فیصد اعلیٰ شاعری کہلا سکتا ہے!
لطف کی بات یہ ہے کہ بھارتی نقاد حضرات اپنے کہے پر نظر ثانی بھی بڑے ذوق و شوق سے کرتے ہیں۔ فاروقی صاحب کی مثال اوپر دے چکا ہوں۔ یہ 1995-96ء کی بات ہے جب اسلم کولسری اردو سائنس بورڈ لاہور میں میرے ساتھ ریسرچر کے طور پر کام کرتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ عطا الحق قاسمی‘ سفیر پاکستان کی طرف سے منعقدہ ایک مشاعرے میں شرکت کے لیے ناروے میں تھے، مشاعرہ شروع ہونے سے تھوڑی دیر پہلے گوپی چند نارنگ بھی پھرتے پھراتے وہاں آ پہنچے جنہوں نے سب سے پہلی بات یہ کہی کہ ظفر اقبال کی ''ہے ہنومان‘‘ اگلی صدی کی سب سے زیادہ زیر بحث رہنے والی کتاب ہوگی۔ اس بحث کا آغاز انہی نے کرنا تھا لیکن وہ خاموش رہے، شاید اس خوف سے کہ یہ کتاب ہندوئوں کی ایک مذہبی شخصیت کے بارے میں تھی، اس پر ردعمل کے طور پر وہ کچھ نہ بولے ہوں۔ اپنی تحریروں کے مطابق یہ دونوں حضرات صحیح معنوں میں میرے قدردان بھی ہیں جس کی گواہ میرے بارے ان کی تحریریں ہیں۔ اس بارے میں برادرم افتخار عارف کا یہ جملہ دلچسپی کا حامل ہے کہ یہ دونوں حضرات آپس میں سخت مخالف ہیں لیکن آپ وہ واحد شخصیت ہیں جس کے اعتراف میں یہ دونوں یک زبان ہیں!
تاہم میں نے ''استعارہ‘‘ ہی میں شائع ہونے والے ایک خط میں ان سے اس بات کی تصدیق چاہی کہ انہوں نے ''ہے ہنومان‘‘ کے بارے میں یہ بات کہی تھی یا نہیں؟ لیکن ان کا جو جواب وہاں چھپا اس میں انہوں نے نہ اس کی تصدیق کی نہ تردید، بس گول ہی کر گئے!
یہ تحریر جو اگرچہ دوسروں کے تاثرات پر مشتمل ہے، پھر بھی، میں اپنے منہ میاں مٹھو قسم کی اس گفتگو کے لیے قارئین اور اللہ میاں سے معافی کا خواستگار ہوں!
اور، اب آخر میں آزاد حسین آزادؔ کی شاعری:
اصول توڑے گئے، ضابطے بنائے گئے
جہاں کہیں بھی نئے راستے بنائے گئے
ہمی سے یار ہوئی ابتدائے سر بکفی
پھر اس کے بعد کئی سلسلے بنائے گئے
نکل سکے نہ کسی ساتویں طرف انسان
حیات و موت سے کچھ دائرے بنائے گئے
......
زندہ ہوں، اور تہِ بارِ گراں زندہ ہوں
غیر ممکن ہے مرے لوگ کبھی زندہ ہوں
روزنِ زیست سے باہر بڑی آوازیں ہیں
عین ممکن ہے کہ اس بار سبھی زندہ ہوں
شہر کا شہر پلٹ آیا ہے پتھر لے کر
میں نے آواز لگائی تھی ابھی زندہ ہوں
صرف اس نبض کا چلنا ہی نہیں زندگی دوست
ہاں یہ ممکن ہے کہ ہم میں سے کئی زندہ ہوں
آج کا مقطع
شاعری اور اس طرح کی اسے کہتے ہو‘ ظفرؔ
میں پریشاں ہو کہ یہ شاعری ہے بھی کہ نہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں