کل والا کالم‘ جو مصباح نوید کے افسانوی مجموعے کے حوالے سے تھا اور جن کے بارے میں کتاب کے پیش لفظ میں بتایا گیا تھا کہ وہ صدیقہ بیگم اور نذیر احمد کی بیٹی ہیں، چونکہ ان ناموں کے ساتھ کوئی صراحت موجود نہیں تھی اور جو والدین بھی ایک افسانہ نگار کے تھے، اس لیے یہی گمان گزرا کہ یہ رسالہ ادبِ لطیف کی ایڈیٹر صدیقہ بیگم اور نیا ادارہ کے مالک اور رسالہ سویرا کے سابق مدیر نذیر احمد تھے‘ جو کہ درست نہیں تھا۔ سو! معذرت کے ساتھ وضاحت پیش ہے۔
تاہم اس کتاب کے مندرجات نے کچھ پرانی یادوں کو ضرور تازہ کیا۔ مذکورہ پیش لفظ میں راجہ عبدالقادر اور ان کی صاحبزادی نبیلہ کیانی کا ذکرِ خیر موجود تھا۔ راجہ صاحب اپنی ذات میں خود ایک انجمن تھے۔ جب وہ حیات تھے تو میں اور عزیزی اسلم طاہر القادری ایڈووکیٹ ان کے ہاں فرید ٹائون ساہیوال میں ان کی صحبت سے فیضیاب ہونے کے لیے جایا کرتے تھے۔ چند سال پہلے معلوم ہوا کہ نبیلہ کیانی گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھا رہی ہیں۔ وہاں کا تو طالب علم ہونا ہی ایک اعزاز اور فخر کی بات ہے، چہ جائیکہ آپ وہاں درس و تدریس سے وابستہ ہوں۔ میں نے انہیں فون کیا اور کہا کہ میں کسی دن ملنے کے لیے آئوں گا لیکن نہ جا سکا‘ جس کا افسوس ہے، شاید کبھی پھر ملاقات ہو جائے۔
آج صبح ہی ساہیوال سے اپنے دیرینہ مہربان عزیز خان کا بھی فون آیا جو مذکورہ کالم ہی کے بارے میں تھا۔ ان سے اپنے ایک پرانے ساتھی خواجہ عسکری حسن کی خیریت بھی دریافت کی اور پتا چلا کہ تنہائی نے ان کی صحت کو متاثر کر رکھا ہے۔ سن کر تعجب ہوا کہ تنہائی تو ایک شاعر ادیب اور تخلیق کار کے لیے نعمت کی حیثیت رکھتی ہے۔ یاد رہے کہ موصوف شاعر بھی ہیں، چند سال پیشتر انہوں نے اپنا یہ شعر
کبھی دیکھا نہ آنکھ بھر کے اُسے
بھر کے دیکھا تو آنکھ بھر آئی
سنایا جو مجھے اور آفتاب کو اچھا لگا، اور اس نے اسے اپنے ایک شو میں شامل بھی کیا۔ سو ‘اُن سے گزارش ہے کہ شعر کہا کریں اور کتابیں پڑھا کریں، تنہائی کی ایسی کی تیسی! اچھے وقتوں میں جب ہم سرگرم جیالے ہوا کرتے تھے، موصوف غالباً ڈسٹرکٹ پیپلز پارٹی ساہیوال کی تنظیم میں جنرل سیکرٹری تھے۔ صدر رائو خورشید علی خاں تھے جو 70ء کے انتخابات میں ایم این اے منتخب ہوئے اور جو اسمبلی میں بھٹو صاحب پر بہت تنقید کیا کرتے تھے، لیکن بھٹو صاحب انہیں ہمیشہ کہتے کہ رائو صاحب! آپ مجھ پر جتنی بھی تنقید کریں، میں آپ کو ٹکٹ ضرور دوں گا! ہمارے ساتھ کے زیادہ تر لوگ اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں، جن میں حاجی صادق ایم این اے، شیخ محمد ریاض، رائے میاں خاں کھرل ایم پی ایز، رانا غلام صابر ایم این اے، حافظ فتح، ملک ظفر مسعود، چودھری عبدالرزاق برتنوں والے شامل ہیں۔ چودھری عبدالرزاق برتنوں والے نے ایک بار بتایا کہ میں ایک دن دکان پر بیٹھا تھا کہ ایک نہایت خستہ حال سا شخص دکان میں داخل ہوا، میں اسے گدا گر سمجھتے ہوئے کچھ پیسے دینے کو تھا کہ وہ بولا، میں فلاں جگہ سے آیا ہوں، جہاں میں پیپلز پارٹی کا صدر ہوں! رائے میاں خاں جوانی میں ہی فوت ہو گئے۔ ایک دن اچانک انہیں عارضۂ دل کا شبہ ہوا، لاہور جا کر ڈاکٹر سے چیک اَپ کرا رہے تھے کہ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ جو بچ رہے ہیں انہیں یاد کر کر کے اداس ہوا کرتا ہوں۔ اسی سلسلے میں آج اپنے دوست اسلم پراچہ ایڈووکیٹ کو فون کر کے عالم شیر خاں لودھی، محمد یار خاں لاشاری، رانا محمد اظہر اور پروفیسر سلیم باغی کی خیریت دریافت کی، پتا چلا کہ سلیم باغی گھٹنوں میں پرابلم کی وجہ سے وہیل چیئر پر آ گئے ہیں۔ ان کے بارے میں ایک دلچسپ واقعہ یہ کہ ایک آدمی کسی دوسرے ضلع سے انہیں ملنے کیلئے آیا، گھنٹی دی۔ اندر سے غالباً باغی صاحب خود نکلے‘ جن کا اصل نام تو انہیں بھول گیا تھا۔ سو، بولے: غدار صاحب ہیں؟ سلیم باغی اور رانا اظہر دونوں پارٹی میں کٹر نظریاتی آدمی تھے۔ رانا صاحب 77ء کے الیکشن میں پارٹی ٹکٹ پر ایم پی اے بھی منتخب ہوئے جو بعد میں جنرل ضیاء نے اسمبلیاں توڑیں اور مارشل لاء لگا دیا۔ موصوف بیحد سادہ طبیعت کے آدمی ہیں۔ ایل ایل بی ہونے کے باوجود پریکٹس نہیں کی البتہ کچہری باقاعدگی سے آتے اور دوستوں سے گپ شپ کر کے چلے جاتے۔ اُن دنوں وہ اپنے قریبی گائوں میں مقیم تھے جہاں سے اپنے ملازم کے ساتھ بائیسکل پر بیٹھ کر آتے تھے۔ میں 1995ء میں لاہور چلا آیا تو جب بھی اوکاڑہ جاتا انہیں ملنے کیلئے ان کے ہاں ضرور جاتا۔ کوئی سال‘ دو سال پہلے انہوں نے اپنی سیاسی سرگزشت کے حوالے سے ایک کتاب بھی لکھی۔ اب وہ تصویریں بھی بناتے ہیں۔ شہر میں ان کا دم غنیمت ہے۔
ایک پرانے ساتھی کامریڈ عبدالسلام کا ذکر ہونے سے رہ گیا۔ کمیونسٹ تھے، لیکن عملی سیاست سے ہمیشہ دور رہے۔ پیپلز پارٹی کے مداح تھے، لیکن پارٹی میں شامل نہیں ہوئے۔ ادیب اور صحافی تھے۔ پریس کلب کی ساری رونقیں ان کے دم قدم سے تھیں۔ ادبی محفلوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ ستلج کاٹن ملز کی لیبر یونین کے کرتا دھرتا تھے اور شہر کے خاص معززین میں شمار ہوتے تھے۔ ایک اور ساتھی، رائو خالد مسعود یاد آ گئے ہیں۔ اوکاڑہ سے ہفت روزہ ''گرفت‘‘ نکالتے تھے۔ میری شرارتی سیاسی نظمیں بڑے اہتمام سے شائع کرتے۔ آج کل لاہور میں ہوتے ہیں، ایک بار ان کا فون آیا تھا، ملاقات نہیں ہوئی۔ میری عمر کا بہترین حصہ انہی لوگوں کی قرابت میں گزرا!
اور‘ اب آخر میں اوکاڑہ سے مسعود احمد کی غزل:
چند سانسوں کی ریزگاری ہے
اور کیا زندگی ہماری ہے
موت ہنس کر قبول کر لیں گے
یہ اگر پیش کش تمہاری ہے
عید کا چاند دیکھنے کے لیے
اس گلی کا طواف جاری ہے
نیند آئی تو ہم نے آنکھوں میں
رات بھر جاگ کر گزاری ہے
ہم اسے لازمی سمجھتے ہیں
عشق مضمون اختیاری ہے
اُڑ رہا ہوں ہوا کے دوش پہ میں
آسماں پر میری سواری ہے
یہ خسارے بغیر ٹکتا نہیں
دل بھی اندر سے کاروباری ہے
آج کا مطلع
حصہ کوئی اپنا وہاں ڈالا ہی نہیں تھا
اس نے ابھی محفل سے نکالا ہی نہیں تھا