نواز شریف کو حکومت نے باہر بھیجا
اپنی مرضی سے آئیں گے: رانا ثناء
رکن قومی اسمبلی اور سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ''نواز شریف کو حکومت نے باہر بھیجا، اپنی مرضی سے آئیں گے‘‘ وہ تو جانے کو تیار ہی نہیں تھے، حکومت نے انہیں زبردستی بھیجا اور جب تک انہیں وہاں سے کوئی زبردستی نہ بھیج دے‘ وہ واپس کیسے آ سکتے ہیں اور یہ جو مفاہمت کی باتیں ہو رہی ہیں تو یہ بھی ان کی با عزت واپسی کے لیے راستہ ہموار کرنے کی خاطر ہیں تا کہ آتے ہی انہیں جیل میں نہ بھیج دیا جائے ورنہ پھوکی مفاہمت انہیں کیسے قبول ہو سکتی ہے اور شہباز شریف ایسی مفاہمت کر ہی کیسے سکتے ہیں کیونکہ کوئی بھی شریف آدمی محض جیل جانے کے لیے اتنی دور سے کیسے واپس آ سکتا ہے، اس لیے کسی اچھی خبر کا انتظار کرنا چاہیے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں اظہار خیال کر رہے تھے۔
میں بانیٔ متحدہ کو لندن سے واپس
لا سکتا ہوں نہ نواز شریف کو: شیخ رشید
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''میں بانیٔ متحدہ کو لندن سے واپس لا سکتا ہوں نہ نواز شریف کو‘‘ اور اس ضمن میں میرے سارے سابقہ بیانات کو سنجیدگی سے نہ لیا جائے کیونکہ جب پہلے ہی کسی کام یا بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا تو ان بیانات کو اتنی سنجیدگی سے کیوں لیا جائے ؟جبکہ ضرورت سے زیادہ سنجیدگی قوم کے لیے اچھی چیز نہیں ہے کیونکہ ماحول کو خوشگوار رہنا چاہیے جو انسانی صحت کے لیے بھی ضروری ہے کہ آخر گپ شپ بھی کوئی چیز ہوتی ہے اور اگر یہ نہ ہو تو آدمی کو چڑچڑا بنا کر رکھ دیتی ہے اور ہم جو کچھ بھی کر رہے ہوں‘ قوم کو چڑچڑا بنانے کی غلطی نہیں کر سکتے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
شہباز شریف اور نواز شریف اپنے تجربات اور
مزاج سے بات کرتے ہیں: شاہد خاقان عباسی
سابق وزیراعظم اور نون لیگ کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''شہباز شریف اور نواز شریف اپنے تجربات اور مزاج سے بات کرتے ہیں‘‘ اور چونکہ دونوں کے تجربات اور مزاج میں کافی فرق ہے‘ اس لیے ان کی بات بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے اور وہ صرف ووٹ کو عزت دینے پر ہی متفق ہیں؛ تاہم اب آزاد کشمیر اور سیالکوٹ کے انتخابات کے بعد وہ اس پر بھی نظر ثانی کر رہے ہیں کیونکہ ہمارے سمیت یہ دونوں ووٹ کو عزت دیتے رہ گئے اور ووٹوں نے ہمارے ساتھ ہاتھ کر کے دکھا دیا کیونکہ انہوں نے اس سے یہی سمجھا کہ ووٹ کو عزت دینے کا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ اپنا استعمال اپنی مرضی سے یقینی بنائیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
پی ٹی آئی میں جتنی کرپشن ہے
کسی جماعت میں نہیں: خورشید شاہ
پاکستان پیپلز پارٹی کے اسیر مرکزی رہنما سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ ''پی ٹی آئی میں جتنی کرپشن ہے کسی جماعت میں نہیں‘‘ اور ہم حیران ہیں کہ اتنی کم کرپشن پر یہ لوگ گزارہ کیسے کر رہے ہیں کم از کم انہیں ہماری اور نون لیگ کی طرف ہی دیکھنا چاہیے کیونکہ اتنا پیچھے رہ جانے پر وہ کیسے ترقی کر سکتے ہیں کیونکہ یہ مسابقت کا زمانہ ہے جبکہ اس قدر پیچھے رہ جانا تو ویسے بھی شرمناک ہے اور اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہ کوئی باقاعدہ سیاسی جماعت ہے ہی نہیں بلکہ ناتجربہ کاروں کا ایک ٹولہ ہے جو صرف ہم جیسے جہاندیدہ افراد کو شرمندہ کرنے کے لیے وجود میں آیا ہے اور ہمیں ان کی اس قابلِ رحم حالت پر بیحد افسوس ہے کہ آخر یہ اقتدار میں آئے کس لیے ہیں۔ آپ اگلے روز احتساب عدالت سے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
عوام کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کے لیے
ہر ممکن اقدام کر رہے ہیں: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان احمد نے کہا ہے کہ ''عوام کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کے لیے ہر ممکن اقدام کر رہے ہیں‘‘ کیونکہ جو عوام مہنگائی اور بیروزگاری کے ہاتھوں زندہ رہ گئے ہیں‘ کم از کم ان کی زندگیوں کو تو محفوظ بنایا جا سکے اگرچہ یہ ایک نہایت مشکل کام ہے کیونکہ بچ نکلنے والوں کی تعداد پھر بھی اتنی زیادہ ہے کہ یہ کام چڑیوں کا دودھ لانے کے مترادف ہے جبکہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ چڑیاں تو دودھ دیتی ہی نہیں ہیں حالانکہ اگر وہ گائے بھینسوں کی طرح کھاتی پیتی ہیں تو ہڈ حرامی سے کام لینے کے بجائے انہیں دودھ بھی دینا چاہیے جبکہ یہ چگنے پر آئیں تو سارا کھیت ہی چُگ جاتی ہیں اور پھر پچھتانے سے بھی کچھ نہیں ہوتا اور یہ بہت زیادتی ہے جس کا تدارک ہونا چاہیے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور، اب آخر میں مسعود احمد کی غزل:
گلاب نیند میں ہے، ماہتاب نیند میں ہے
پڑھیں تو کیسے پڑھیں، وہ کتاب نیند میں ہے
اگر تو ہوش میں آئو تو پھر سوال کرو
تمہارا سارے کا سارا جواب نیند میں ہے
خدا نے رات بنائی ہے صرف سونے کو
یہ دن کا جاگا ہوا آفتاب نیند میں ہے
کبھی اٹھا بھی تھا‘ محشر کے بعد اٹھے گا
ابھی تو یہ دلِ خانہ خراب نیند میں ہے
سمٹ بھی سکتا ہے کچے گھڑے کے پیندے میں
چناب ہے کہ سلگتا سراب نیند میں ہے
یہ اٹھ گیا تو کوئی اور گُل کھلائے گا
سکوں سے بیٹھ ابھی اضطراب نیند میں ہے
ہمارے سونے سے بیدار ہی نہ ہو جائے
ابھی وہ جاگتی آنکھوں کا خواب نیند میں ہے
ہمارے نامۂ اعمال کے خلاصے میں
گناہ جاگ رہے ہیں، ثواب نیند میں ہے
آج کا مطلع
یوں تو ہے زیرِ نظر ہر ماجرا دیکھا ہوا
پھر نہیں دیکھا ہے وہ رنگِ ہوا دیکھا ہوا