مہنگائی کے سونامی نے غریب کی معیشت کے ساتھ حکمرانوں کی سیاست کو بھی اس برے طریقے سے گھیر لیاہے کہ وزیراعظم عمران خان بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ''تنخواہ میں گزارہ نہیں ہوتا‘‘۔ پنجاب اسمبلی پہلے ہی مہنگائی کے پیش نظر وزیراعلیٰ‘ وزراء اور ارکان کی تنخواہوں اورمراعات میں کئی گنا اضافہ کرچکی ‘ وفاقی وزیرریلوے شیخ رشید احمد بھی گیس وبجلی کے نرخوں میں اضافے اورمہنگائی کو ہی اصل اپوزیشن قرار دے چکے‘ وفاقی وزیرترقی و منصوبہ بندی اسدعمر نے بھی اعتراف کیاہے کہ کوئی شک نہیں کہ مہنگائی سے عوام مشکل میں ہیں۔ انہوں نے ذخیرہ اندوزی اورمہنگائی کا ذمہ دار مافیاز کو قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ مہنگائی کاجتنا احساس عام آدمی کو ہے‘ اس سے کہیں زیادہ وزیراعظم کوہے‘ جبکہ اپوزیشن لیڈرکاکہناہے کہ مہنگائی میں اضافے کامطلب حکومت کی معاشی پالیسیوں کی ناکامی ہے‘ سونامی غریب کی معیشت کو کھاگئی ہے ۔
سوچنے کی بات ہے کہ جب ملک کے سربراہ کا گزارہ تنخواہ میں نہیں ہوسکتا تو اس ملک میں نائب قاصد‘ چوکیدار‘ ڈرائیور‘ مالی‘ سکیورٹی گارڈ ‘ سپاہی اور دیگر چھوٹے ملازمین کیسے گزارہ کرتے ہوں گے؟ جب بڑے بڑے بزنس مین مہنگائی اوربیروزگاری سے کاروبار ٹھپ ہونے کارونا رورہے ہیں تو وہاں پرچون فروش اور ریڑھی بان کس طرح بچوں کاپیٹ پالتاہوگا؟ ان حالات میں غریب آدمی کرپشن یا چوری ہی کرے گایاپھر خودکشی پر مجبور ہوگا‘ جب پندرہ یا سولہ ہزارروپے ماہوار تنخواہ لینے والا آدمی اپنے کنبے کیلئے 70روپے فی کلوگرام آٹا اور 85روپے فی کلوگرام چینی خریدے گاتو پھر وہ اپنے بچوں کی خواہشات تو بہت دور کی بات بجلی اورگیس کے بل بھی ادا کرنے سے قاصر ہوگا ‘کیونکہ یوٹیلیٹی بلوں میں بے تحاشا اضافے نے پہلے ہی عام شہریوں کو سخت پریشان کررکھاہے ‘ لوگ احتجاجاً بل نذرِ آتش کررہے ہیں۔حالات اس قدر سنگین ہوچکے کہ حکمران بجلی وگیس بلوں میں اضافے کو اپنی اپوزیشن تو قرار دے رہے ہیں‘ لیکن یہ سمجھ نہیں آتی کہ آخر کون ہے‘ جو عام شہری کی مشکلات کو نظرانداز کرتے ہوئے یوٹیلیٹی بلوں میں اضافہ کئے جارہاہے۔ ہمیشہ بجلی وگیس مہنگی ہونے کی خبریں ہی ملتی ہیں ‘ یوٹیلیٹی بلوں پر سبسڈی کی بجائے ٹیکسوں میں اضافہ کردیاجاتاہے توپھر کون اس مسئلے پر غور کرے گا اور حکمران کب اس ایشو کو اپوزیشن کی بجائے اپنے کارنامے میں بدلنے کاسوچیں گے؟وفاقی وزیرترقی و منصوبہ بندی اسدعمر نے بھی اس بات کااعتراف توکیاہے کہ مہنگائی نے عام آدمی کا جینا مشکل کردیاہے اوروہ یہ بھی کہتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کو اس بات کابڑا احساس ہے ‘لیکن یہ نہیں بتاتے کہ یہ مشکل کب دور ہوگی اور موجودہ حکومت جو 100دنوں میں عام آدمی کو ریلیف دینے کانعرہ لگاتی تھی‘ وہ اب 100ہفتوں بعد بھی مہنگائی وبیروزگاری کے سونامی کو سابقہ حکومتوں کے ذمے ڈال کر کیسے جان چھڑائے گی؟ قائدحزب اختلاف شہبازشریف بھی صرف سیاسی بیانات تک مہنگائی کو ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں ‘لیکن اپوزیشن کی طرف سے بھی کوئی ٹھوس بات سامنے نہیں آئی۔
عام شہری اورخصوصاً سرکاری ملازمین اس بات پر شدید حیران ہیں کہ ہر سال جب بھی سالانہ بجٹ کے موقع ان کی تنخواہوں میں اضافے کی بات آتی ہے‘ جو ان کا آئینی وقانونی حق بھی ہے‘ لیکن جب بھی چھوٹے ملازمین کی جانب سے مہنگائی کے تناسب سے تنخواہ میں اضافے کامطالبہ کیاجاتاہے تو ہر حکومت یہی جواز بناتی ہے کہ قومی خزانہ اتنا بوجھ برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتا ‘ ہمیشہ پانچ فیصد سے بارگیننگ شروع کی جاتی ہے اورپھر دس یا پندرہ فیصد پر بات ختم ہوجاتی ہے۔موجودہ پنجاب حکومت نے بھی اقتدار سنبھالا تو خزانہ خالی ہونے اورتنخواہوں کی ادائیگی نہ کر سکنے کاجواز پیش کرکے ہزاروں ڈیلی ویجز ملازمین کو فارغ کردیا اورپھر جب بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کی باری آئی تو وہی پرانی منطق پیش کی گئی کہ معاشی حالات دس یا پندرہ فیصد سے زیادہ اضافے کی اجزت نہیں دیتے‘ لیکن جب وزیراعلیٰ ‘ وزراء اورارکان پنجاب اسمبلی کی اپنی تنخواہوں میں اضافے کی باری آئی تو تنخواہوں اور مراعات میں لاکھوں روپے کا من مانا اضافہ کرلیاگیا ‘جس پر وزیراعظم عمران خان کی طرف سے تنقید بھی کی گئی اوروزیراعلیٰ پنجاب کو یہ اضافہ واپس لینے کی ہدایت بھی کی گئی‘ لیکن شاید یہ وزیراعظم کی واحد ہدایت تھی‘ جسے وزیراعلیٰ کی جانب سے کچھ خاص پذیرائی نہ مل سکی اور اضافہ واپس نہ ہوا۔ گزشتہ دنوں جب سینیٹ میں بھی ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں مہنگائی کے تناسب سے اضافے کی باتیں چل رہی تھیں‘ تو حکومتی اور اپوزیشن ارکان کی جانب سے ملا جلا ردعمل سامنے آیا۔ یوں لگتا ہے کہ تمام ارکان اپنی تنخواہوں میں کئی گنا اضافہ چاہتے بھی ہیں‘ لیکن موجودہ معاشی حالات میں عوام کے شدید ردعمل سے بھی گھبراتے ہیں۔ وفاقی وزیراسد عمر نے بھی موجودہ حالات میں ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافے کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہاہے کہ ان حالات میں بالکل بھی مناسب نہیں کہ عوامی نمائندے اپنی مراعات میں اضافہ کریں۔ سپیکر سمیت کئی دیگر حکومتی عہدیداروں نے بھی اضافے کی حمایت نہیں کی ‘لیکن پھر بھی عام شہری کو ان حکومتی تردیدوں پر کچھ زیادہ اعتماد نہیں اور غریب آدمی سوچتاہے کہ پنجاب اسمبلی کی طرح ایوانِ بالا میں بھی اربابِ اختیار اپنی معاشی حالت آج نہیں کل تک سدھار لیں گے‘ لیکن اس کے بعد اس بات کے خدشات بڑھ سکتے ہیں کہ عوامی نمائندوں کو مہنگائی اورغریب آدمی کی مشکلات بھول جائیں گے۔ حکومت کی معاشی ٹیم کے سربراہ مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ تو مہنگائی کومانتے ہی نہیں‘ ان کاکہناہے کہ صرف سبزیاں مہنگی ہوئی ہیں اور سبزیوں کی قیمتوں میں اضافہ سیزنل ہے‘ جس میں جلد کمی واقع ہوجائے گی۔ اب‘ مشیر خزانہ کوکون بتائے کہ جناب 70روپے کلو فروخت ہونے والا آٹا سبزی نہیں اور نہ ہی 85روپے کلو تک پہنچنے والی چینی کوئی پھل ہے ‘ انہیں کون عام مارکیٹ کادورہ کروائے‘ تاکہ انہیں معلوم ہوسکے کہ صرف پھل اورسبزیاں ہی نہیں ‘بلکہ ضروریاتِ زندگی کی ہرشے ہی غریب آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتی جارہی ہے۔
دوسری طرف وزیر اعظم عمران خان بھی اپنی معاشی ٹیم کی کارکردگی پر کچھ زیادہ مطمئن نظر نہیں آتے اور انہوں نے اپنی زیر صدارت سیاسی ‘ معاشی اور عوامی ریلیف سے متعلق صورتحال کے جائزہ اجلاس میں کہا ہے کہ ہم حکومت کرنے نہیں‘ بلکہ نظام بدلنے آئے ہیں‘ نظام سے کرپشن کے مکمل خاتمے تک احتساب کا عمل بھرپور طریقے سے جاری رہے گا‘ کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کی جائے گی۔ وزیر اعظم نے عوام کو مہنگائی کے عذاب سے نکالنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی ہدایت کرتے ہوئے ذخیرہ اندوزوں اورملاوٹ مافیاز کی سرکوبی اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے ہرقسم کی رکاوٹوں کو دور کرنے کے عزم کا بھی اعادہ کیا اور پارٹی کارکنوں پر زور دیا کہ وہ علاقائی سطح پر ایسے مافیاز کی نشاندہی کریں ‘تاکہ ایسے عناصر کی سرکوبی کی جا سکے‘ وزیراعظم نے مہنگائی پر بریفنگ لینے کے بعد مہنگائی کو کم کرنے کیلئے اقدامات کی ہدایت کی ‘ تاہم آٹے کی قیمتوں میں اضافے کوکنٹرول کرنے کیلئے حکومت نے گندم کی سمگلنگ کی روک تھام کے خصوصی اقدامات کئے ہیں اور گندم سمگلنگ میں ملوث کوئٹہ کسٹم کلکٹریٹ اور طورخم بارڈر پرکلکٹرز کو معطل بھی کیاگیا ہے اورانہیں او ایس ڈی بنا کر ایف آئی اے کو انکوائری سونپ دی گئی ہے ۔ حکومت نے چینی کی برآمد پر فوری طور پر پابندی لگا دی ہے‘ جبکہ گندم درآمد کرنے کی اطلاعات بھی ہیں‘ یہ سارے اقدامات اپنی جگہ‘ لیکن جب تک زمینی حقائق کومدنظر رکھتے ہوئے مقامی سطح پرٹھوس اقدامات نہیں ہوں گے‘ ذخیرہ اندوزوں اورگرانفروشوں کے خلاف بلاتفریق کارروائی نہیں ہوگی‘ پرائس کنٹرول کمیٹیاں گرانفروشی کیخلاف مہم نہیں چلائیں گی‘ اس وقت تک مہنگائی پر قابو پانا مشکل ہوگا۔