پنجاب میں بلدیاتی نظام: پیچیدگیاں اورتحفظات

پاکستان میں ہرمقتدر جماعت مرضی اور ضرورت کے مطابق‘ بلدیاتی نظام تبدیل کرنا اپنا پہلا حق سمجھتی ہے۔ پرویزمشرف نے اقتدار سنبھالا تو برسوں سے رائج کمشنری نظام تبدیل کرکے مقامی حکومتوں کانیانظام متعارف کرایا‘ جس کے تحت چیئرمینوں کی جگہ ضلعی ‘تحصیل‘ ٹائون اوریونین کونسل ناظمین نے سنبھالی‘اس سسٹم کو اقتدار کی نچلی سطح تک منتقلی کیاگیا ‘جس میں جنرل کونسلروں سے لے کر مخصوص نشستوں تک اضافہ ہوا۔ عوام نے اس تبدیلی کو بڑی حد تک قبول کیا اوراس کے مثبت اثرات سے استفادہ بھی کیا۔اس نظام کی سب سے بڑی خوبصورتی ضلعی وتحصیل ناظمین کے اختیارات تھے ‘جن کے ذریعے وہ عوام کے مسائل ان کی دہلیز پرحل ہورہے تھے‘ اس نظام میں ڈپٹی کمشنر کاعہدہ تبدیل کرکے ڈسٹرکٹ کوآرڈنیشن آفیسر(ڈی سی او) تعینات کئے گئے تھے‘ جو سرکاری امور نمٹانے کے ساتھ عوامی نمائندوں اورحکومت کے درمیان موثررابطے کاکام انجام دے رہے تھے‘ لیکن جب مسلم لیگ (ن )اقتدار میں آئی تو مرحلہ وار پرانا کمشنری نظام بحال کرنا شروع کردیا اور مقامی حکومتوں کے نئے وپرانے نظام کو یکجا کرکے بلدیاتی انتخابات کرائے گئے اور ناظمین کی جگہ دوبارہ میئرز اورچیئرمینوں نے لے لی۔
2018ء میں پاکستان تحریک انصاف کی تبدیلی سرکار نے حکومت سنبھالی‘ تو ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بلدیاتی نمائندوں کو اپوزیشن سے تعلق کے باعث اپنی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہوئے ہٹانے کیلئے کوششیں شروع کردیں اور مئی 2019ء میں پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019ء نافذ کرکے بلدیاتی اداروں کی بساط لپیٹ دی گئی۔ پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019ء کے تحت صوبے بھر کی 36ضلع کونسلوں کو تحلیل کر کے 148تحصیل کونسلیں بنا دی گئیں‘جبکہ شہری یونین کونسلوں پر مشتمل میٹروپولیٹن‘ میونسپل کارپوریشن اور میونسپل کمیٹیاں قائم کی گئیں ‘اس ایکٹ سے حکمران جماعت پی ٹی آئی نے اپنے راستے کے کانٹے تو صاف کرلئے‘ لیکن عوام کو مقامی نمائندگی سے محروم کردیاگیا۔ صوبے میں نافذ ہونے والے نئے بلدیاتی نظام سے بہت سی پیچیدگیوں نے جنم لیا‘ جنہیں تاحال حل نہیں کیاجا سکا۔ سب سے بڑا مسئلہ ضلع کونسلوں کے ترقیاتی فنڈز کا ہے‘ جو ان کی تحلیل کے بعد منجمد ہوگئے اور تحصیل کونسلیں ابھی تک فعال نہیں ہو سکیں اور  نہ  ہی ابھی تک فنڈز کا مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل ہوسکاہے۔گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ‘ لاہور میں پنجاب کے ارکان قومی اسمبلی کے ساتھ ملاقات کے دوران وزیراعظم عمران خان نے شیخ راشدشفیق کی جانب سے راولپنڈی کی 25یونین کونسلوں کے فنڈز کامسئلہ اٹھانے پر چیف سیکرٹری کوہدایت کی کہ صوبے بھر میں جہاں جہاں یونین کونسلوں کے فنڈز کا ایسا مسئلہ ہے‘ اسے فوری حل کیاجائے‘ جس کے بعد رواں ہفتے یہ فنڈز راولپنڈی میٹروپولیٹن کارپوریشن کومنتقل کردئیے گئے‘ یہ ایک اچھی خبرہے اور امید ہے حکومت اپنے ہی عوامی نمائندوں کی نشاندہی پردیگر بنیادی مسائل بھی اسی رفتار سے حل کرے گی۔
پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019ء کے نفاذ پر اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج کے ساتھ ساتھ خود حکومتی ارکان پارلیمنٹ اور سیاسی رہنمائوں کی جانب سے تحفظات کااظہار کیاگیا اور اس دوبارہ غور کر کے ترامیم کامطالبہ سامنے آیاہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے اپنے رکن قومی اسمبلی اور وفاقی پارلیمانی سیکرٹری نارکوٹکس کنٹرل شیخ راشدشفیق نے نئے بلدیاتی نظام  میں  پیدائش ‘ طلاق اوراموات کے اندراج کاعمل یونین کونسل سے ٹی ایم اے کو منتقل کرنے پرشدید تحفظات کااظہار کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدارکے نام تحریری مراسلہ ارسال کیا‘ جس میں مطالبہ کیا کہ وسیع تر عوامی مفاد میں اس اہم معاملے پر غورکیاجائے۔ مراسلے میں شیخ راشدشفیق نے ایک طرف صوبہ پنجاب کی تعمیروترقی میں عثمان بزدار کے کردار کو خراجِ تحسین پیش کیااور لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019ء کو ان کی لاتعداد کامیابیوں میں سے ایک‘ جبکہ شہری علاقوں میں نیبر ہڈکونسل اورپنچایت کونسل کو ایک دلیرانہ قرار دیا تو ساتھ ہی عوامی سطح پر پائے جانے والے تحفظات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ سب سے اہم معاملہ یونین کونسل کے اختیارات کی تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن کومنتقلی ہے‘ جس میں پیدائش‘ طلاق اوراموات کے اندراج کامعاملہ سرفہرست ہے‘ جس کیلئے عام آدمی کو دوردراز سے سفر کرناپڑے گا اور بعض علاقے کے لوگوں کو ان معمولی کاموں کے لئے80کلومیٹر تک کا سفر کرناپڑے گا‘ جو غریب آدمی کیلئے ایک مشکل عمل ہوگا اوراس سے رجسٹریشن میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔ انہوں نے وزیراعلیٰ پنجاب سے وسیع ترعوامی مفاد میں اس معاملے پرغورکرنے کا مطالبہ کیا۔ اس کے علاوہ بھی کئی تحفظات سامنے آئے ہیں‘ تاہم یہ مراسلہ صرف مثال کے طورپر پیش کیاگیا۔انہوں نے وزیراعظم کے سامنے بھی یونین کونسل دفاتر اور دیگر مسائل کاتذکرہ کیا‘جس پر صوبائی حکومت کو اس مسئلے کے جلد حل کی بھی ہدایت کی گئی‘ لیکن یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ جب تک پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019ء پر آئینی ماہرین کے ساتھ دوبارہ بھرپور مشاورت کے ساتھ نظرثانی کر کے اس میں ترامیم کرناہوں گی ‘ اگر صرف زبانی جمع خرچ سے کام چلایا گیا‘ تو مزید قانونی پیچیدگیاں سامنے آ سکتی ہیں‘ جن سے بچنے کیلئے حکومت سب سے پہلے اپنے ارکان قومی وصوبائی اسمبلی کی جانب سے پیش کئے گئے تحفظات پر غور کرے اورانہیں اپنی قانونی ٹیم کے سامنے رکھے‘ جو اپنی رائے دینے کے بعد ضروری ترامیم تجویز کرے ‘جنہیں فوری طور پر منظور کیاجائے۔ 
صوبے میں ارکان قومی وصوبائی اسمبلی کی موجودگی کے باوجود عام آدمی کواپنے چھوٹے چھوٹے مسائل کے حل کیلئے بھی شدید مشکلات کا سامنا کرناپڑتاہے ‘ کیونکہ غریب آدمی کی پہنچ تو ان سیاستدانوں تک صرف انتخابات سے پہلے ایک بار ووٹ مانگنے اور دینے کے مراحل کے دوران ہی ہوسکتی ہے‘ لیکن اگر بلدیاتی ادارے فعال ہوں تو عام آدمی گلی‘ محلے یا یونین کونسل میں کم ازکم کونسلر تک تو رسائی حاصل کر سکتاہے ۔ پی ٹی آئی نے جب پہلی بار خیبرپختونخوا میں اقتدار سنبھالا تو وہاں بھی بلدیاتی نظام تبدیل کرکے اقتدار کو نچلی سطح تک منتقل کرنے کی بات کو عملی شکل دینے کیلئے اقدامات کئے‘ لیکن اس کے برعکس پنجاب میں اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے بلدیاتی نمائندوں کو گھر تو بھیج دیاگیا‘ مگر نئے انتخابات اور مقامی حکومتوں کی تشکیل کے حوالے سے ابھی تک صرف بیانات اور حلقہ بندیوں کی تجاویز سے بات آگے نہیں جاسکی۔ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے ایک اہم حکومتی رکن کا کہناہے کہ اگر آج بھی بلدیاتی انتخابات ہوں‘ تو پی ٹی آئی پھر لاہور اورراولپنڈی سمیت اہم شہروں میں ہار جائے گی‘ شاید کچھ اسی قسم کے خدشات پر وزیراعظم عمران خان کی حکومت کوپنجاب میں نئے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں کوئی جلدی نہیں‘ اسی لئے تحصیل کونسلوں‘ میٹروپولیٹن و میونسپل کارپوریشنوں‘ میونسپل کمیٹیوں اور دیگر بلدیاتی اداروں میں سرکاری افسران کوایڈمنسٹریٹر لگا کر کام چلایا جارہاہے ‘جبکہ شہری ترقیاتی اداروں‘ عوامی خدمات فراہم کرنے والی کمپنیوں اور اتھارٹیز میں سابق حکومتوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے پارٹی کے سابق ارکان اسمبلی اور الیکشن ہارنے والے ٹکٹ ہولڈروں کو بطور چیئرمین اور مشیر تعینات کیاگیاہے ‘جنہیں عام آدمی کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ‘کیونکہ وہ تو ووٹ لے کر آئے ہیں اور نہ ہی عوام کے سامنے جوابدہ ہیں۔
ملک کے دیگر صوبوں میں بلدیاتی نظام قائم ودائم ہے اور مقامی نمائندے عوام کی دہلیز پر خدمت کے لئے موجود ہیں‘ لیکن ملک کے سب سے بڑے صوبے کے عوام کو مقامی نمائندگی سے محروم رکھاجارہاہے‘ جو پاکستان تحریک انصاف کے اپنے منشور اور بنیادی نعرے کی خلاف ورزی بھی ہے‘ جس پر وزیراعظم عمران خان کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ حکومت کوچاہیے کہ مقامی حکومتوں کے الیکشن جب مرضی کروائے ‘ لیکن پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019ء کی پیچیدگیاں فوری طور پر دور کی جائیں ‘یونین کونسلوں کوتحفظ دیاجائے‘ جبکہ حکومتی و اپوزیشن رہنمائوں اور سیاسی جماعتوں کے تحفظات کو بھی دور کیا جائے ‘تاکہ حقیقی معنوں میں اقتدار کو نچلی سطح تک منتقل کرکے عام آدمی کی دہلیز تک منتقل کیاجاسکے‘ اس سے نا صرف عوام کو فائدہ ہوگا ‘بلکہ پی ٹی آئی کو بطور جماعت بھی پنجاب میں گراس روٹ لیول پر مضبوط کرنے میں مدد ملے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں