2018ء کے عام انتخابات میں پاکستان کی نوجوان نسل نے تبدیلی میں اہم کردار اداکیا‘ ہمارے نوجوان سمجھتے تھے کہ عمران خان کی حکومت آئے گی تو سرکاری وانتظامی امور میں سیاسی مداخلت ختم ہوجائے گی‘ سفارشی کلچر ماضی کاحصہ بن چکاہوگا‘ پولیس معاشرے کے ایک فلاحی ادارے میں تبدیل ہوجائے گی‘ سرکاری تعلیمی اداروں کا معیار بھی نجی شعبے کے مقابلے پر آجائے گا‘ اچھے کالجوں اور جامعات میں داخلے کے لیے انٹری ٹیسٹ کی بجائے کوئی آسان اور شفاف میرٹ پالیسی مرتب کی جائے گی‘ ہسپتالوں میں غریب آدمی کو ایمرجنسی میں پہنچنے کے بعد علاج معالجے اور دیکھ بھال کی ایسی بہترین سہولیات میسر ہوں گی‘ جیسی کسی امیر شخص کو جدید سہولیات سے مزین نجی ہسپتالوں میں دستیاب ہوتی ہیں‘ جونہی کوئی طالب علم اپنی تعلیم مکمل کرے گاتو مختلف محکموں کی جانب سے اس کی تعلیم اور قابلیت کے مطابق ملازمتوں کی پیش کشیں ملنا شروع ہوجائیں گی‘ بیروزگار نوجوانوں کو ٹیسٹنگ سروس کے نام پر بے جا فیسوں اور اضافی امتحانات سے جان چھوٹ جائے گی‘ انتظامی محکموں کا عملہ گلی محلوں میں جاکر تلاش کرے گا کہ علاقے میں کوئی بنیادی مسئلہ رہ تو نہیں گیا‘ ہرطرف میرٹ کابول بالاہوگا‘ ایک کروڑ نوکریاں تعلیمی قابلیت اور تجربے کے حساب سے 100فیصد پہلے آئیے‘ پہلے پائیے کی بنیاد پر ملیں گی۔نوجوانوں کی اس سوچ کو کسی بھی طورپر غلط نہیں کہاجاسکتا‘ کیونکہ وہ ہمیشہ سے یہی سنتے چلے آرہے تھے کہ سیاسی جماعتیں صرف اپنی باریاں لگا رہی ہیں‘ روایتی سیاستدان ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں‘ ایک حکمران آتاہے تو اپنے دور میں ہرجائز وناجائز طریقے سے دولت جمع کرنے میں لگ جاتاہے‘ اپوزیشن صرف سیاسی نعرے لگا کر اپنی باری کے لیے عوام کو بے وقوف بناتی اور پھر اگلے پانچ سال کے لیے یہی سب کچھ دُہرایا جاتاتھا‘ لیکن حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی باریاں تبدیل ہوجایا کرتی تھیں۔
عمران خان قومی ہیرو تو تھے ہی لیکن 1992ء کا کرکٹ ورلڈکپ جیتنے کے بعد انہوں نے جب شوکت خانم کینسر ہسپتال کی بنیاد رکھی تو وہ قوم کیلئے ایک آئیڈیل کے طور پر بھی سامنے آئے‘ پاکستانی قوم نے ان پر بھرپور اعتماد کااظہار کیا اورشوکت خانم کا خواب حقیقت بن گیا‘پھر خان صاحب پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی اورقوم کو بتایاکہ جب تک ملک میں عدل وانصاف‘ شفافیت اور ایمانداری کاراج نہیں ہوگا‘ اس وقت تک عام آدمی کااستحصال ہوتا رہے گا‘ غریب آدمی کو تعلیم وصحت کی اچھی سہولیات کبھی نہیں مل سکیں گی‘ نوکریاں رشوت اورسفارش کی بنیاد پر ہی مل سکیں گی ‘ شہریوں کی عزتِ نفس مجروح ہوتی رہے گی‘ غریب غربت کی چکی میں ہی پِستا رہے گا اور امیر دولت کے انبار جمع کرتارہے گااور یہ سب کچھ تبدیل کرنے کیلئے نوجوان قیادت کو آگے لاناہوگا ‘ روایتی سیاستدانوں اور باریاں لگانے والی پارٹیوں سے جان چھڑاناہوگی۔ اس مقصد کیلئے عمران خان نے بلاشبہ طویل جدوجہدکی اورقوم میں ایک شعور بیدار کیا‘ لیکن ڈھلتی عمر کے ساتھ شاید انہیں یہ احساس ہوا کہ وہ جس راستے پرچل رہے ہیں‘ اس کی سمت تو درست ہے‘ لیکن منزل دور دکھائی دیتی ہے اورابھی انہیں منزل مقصود تک پہنچنے کیلئے مزید پانچ یا دس سال لگ سکتے ہیں‘ لہٰذا کپتان نے حکمت عملی تبدیل کی اور اسی پرانی سیاست کے کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم تشکیل دے کر انتخابی میدان میں اتاری ‘ کپتان کایہ تجربہ کامیاب رہا اور وہ وزیراعظم پاکستان بن گئے۔
موجودہ حکومت برسراقتدار آئی تو سیاسی تبدیلی میں اہم کردار ادا کرنے والی نوجوان نسل کے ذہنوں پر بڑے بڑے خواب سوار تھے ‘کیونکہ نا صرف عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کی خوبصورت آواز میں ''جب آئے گا عمران‘‘ والے نغمے سے ان کاجوش گرمایا جاتا ‘بلکہ جلسوں میں دھواں دار تقریروں سے انہیں سابق حکمرانوں کی ناہلی‘ کرپشن‘ اقرباء پروری‘ سیاسی مداخلت‘ سفارشی کلچراور تھانے وکچہری کی سیاست کی خوفناک داستانیں سنائی جاتی تھیں‘ جنہیں سن کر ہرآدمی یہ سوچتا کہ تبدیلی واقعی ضروری ہے۔ نیاپاکستان بنے گا تو ہی عام آدمی کے سارے خواب پورے ہوں گے۔ قوم سمجھتی تھی کہ جب 100دنوں بعد ایک کروڑ بیروزگار نوجوانوں کو ملازمت مل جائے اور پچاس لاکھ خاندانوں کو اپنی چھت میسر ہوگی‘ تو ملک میں خوشحالی کادور دورہ ہوگا اورلوگ باہر سے روزگار کیلئے پاکستان کارخ کریں گے‘ لیکن یہ خواب حقیقت کا روپ نہ دھار سکے‘ نوکریاں ملنے کی بجائے مختلف سرکاری محکموں سے ڈیلی ویجز ملازمین کو گھر بھیج دیاگیا‘ بے گھر شہریوں کواپنی چھت کی جگہ پناہ گاہوں میں گزربسر کرنے کی ترغیب دی گئی۔مہنگائی کئی گنا بڑھ گئی‘ بیروزگاری میں اضافہ ہوا اور عام آدمی کی زندگی مزید مشکل حالات سے دوچار ہوچکی ہے۔
تبدیلی تو آگئی ‘لیکن ابھی تک اس کے اثرات عام آدمی پر منفی ہی پڑ رہے ہیں‘ کچھ حامی تو اب تھک چکے ہیں‘ لیکن ابھی بھی نوجوانوں کی ایک تعداد کپتان پر یقین رکھتی ہے کہ انشاء اللہ نیاپاکستان ضرور بنے گا‘ مہنگائی ختم ہوگی‘ روزگار عام ہوگااور ان کے خواب پورے ہوں گے‘ ان کا خیال ہے کہ برسوں کے مسائل حل کرنے کیلئے وقت لگے گا‘ راتوں رات حالات کو سدھارنا آسان نہیں ۔ کپتان نے انتخابی میدان کیلئے روایتی جماعتوں کے ساتھ سالہاسال سے چلنے والے تجربہ کار سیاستدانوں پر تو بھروسہ کیا اور ان کا یہ تجربہ کامیاب بھی رہا‘ لیکن اقتدار سنبھالنے کے بعد ابھی تک بیوروکریسی پر ان کامکمل اعتماد بحال نہیں ہوسکا ‘ وزیراعظم عمران خان کو ان کے مشیر شاید یہ بتاتے ہیں کہ بیوروکریسی کے سابق حکمرانوں کے ساتھ اچھے مراسم اور روابط ہیں‘ لہٰذا ایسے افسر تلاش کئے جائیں‘ جو نیاپاکستان میں ان کی پالیسیوں پر عمل درآمد کراسکیں‘ جن کا ماضی کے حکمرانوں کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق نہ ہو‘ جنہوں نے کبھی نوازشریف‘ شہبازشریف‘ آصف علی زرداری اوردیگر سابق حکمرانوں کے ساتھ کام نہ کیاہو‘ لیکن اس کیلئے کپتان کو کم ازکم پندرہ سے بیس سال انتظار کرناہوگا‘ تاکہ سارے پرانے افسر ریٹائر ہوجائیں اور موجودہ نوجوان نسل میں نئے افسر بھرتی ہوکر ان کی جگہ سنبھال لیں۔ یقینا اگلے دس برس بعد موجودہ سینئر بیوروکریسی میں سے زیادہ تر افسران گھر جاچکے ہوں گے‘ لیکن کیا گارنٹی ہے کہ عوام اس وقت تک کپتان کی باتوں پر یقین کرتے رہیں‘ روٹی اورمکان کی جگہ پناہ گاہوں پر گزارا کریں اور اگلے دو پانچ سالوں میں بھی پی ٹی آئی کو ہی ووٹ دیں‘ جس کی موجودہ حالات میں امید کم ہوتی جارہی ہے۔
ایک بار میں نے پنجاب کے ایک سینئر بیوروکریٹ سے سوال کیاکہ آپ تو شہبازشریف کے بڑے قریب رہے ہیں‘ آپ پر تو مسلم لیگ( ن) کی چھاپ لگ جائے گی‘ تو انہوں نے صاف صاف کہاکہ افسر کسی سیاسی جماعت کے نہیں ہوتے ‘بلکہ حکومت کے ساتھ ہوتے ہیں۔ ان کاکہناتھا کہ جوبھی حکومت میں ہوگا‘ افسران اس کاہی ساتھ دیں گے‘ کیونکہ ہمارے لیے ملک وقوم معنی رکھتے ہیں‘ سیاسی جماعتیں نہیں ۔انہوں نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہاکہ میری ملازمت کے دوران یہ چوتھی حکومت ہے اورمیں ہرحکومت کے ساتھ ایک جیسا ہی کام کررہاہوں۔ گزشتہ دنوں لاہور گیاتو دیکھا کہ شہبازشریف دور میں ہر وقت مستعد نظر آنے والے وہ افسر وزیراعلیٰ عثمان بزدار اور ان کی حکومت کے ساتھ پہلے سے بھی زیادہ اچھا کام کررہے تھے‘ مجھے ان کی وہ بات یاد آئی اور خیال آیاکہ اگر موجودہ حکومت اسی طرح دیگر تمام تجربے کار بیوروکریٹس پر بھی اعتماد کرے اور افسران کی تقرریاں و تبادلے صاف وشفاف میرٹ پالیسی کے تحت کئے جائیں‘ سیاسی مداخلت ختم ہوجائے اور تجربہ کار بیوروکریسی کے ساتھ ان باصلاحیت افسروں کو بھی فیلڈ میں کام کابھرپور مواقع فراہم کئے جائیں‘ جنہیں سابق دور میں کھڈے لائن لگاکر رکھاگیاتو یقینا مثبت تبدیلی سامنے آئے گی ‘ مہنگائی اور بیروزگاری کاخاتمہ ہوگا اور نا صرف عوام خوشحال ہوں گے ‘بلکہ اس سے حکومت کاگراف بھی بلندہوگا‘ لوگوں کی مایوسی ختم ہوگی اور نوجوانوں کو اپنے خواب پورے ہوتے دکھائی دیں گے‘ لیکن اس کیلئے حکومت کو بیوروکریسی پر اعتماد کرنا پڑے گا‘ چھوٹی چھوٹی باتوں پر افسران کے تبادلوں کاکلچر تبدیل ہوگا اور انہیں اعتماد ملے گا‘تو پھر ہی مثبت تبدیلی کاآغاز ہوسکے گا‘ کیونکہ کام تو انہی افسران سے ہی لیناہے۔