دیر آید‘ درست آید

8اکتوبر 2005ء کی صبح 8بج کر 50منٹ پر زلزلے کی صورت میں برپا ہونے والی قیامت صغریٰ آج بھی ایک ڈرائونے خواب کی طرح یادہے۔ ویکلی آف کے باوجود جب ٹیلی ویژن پر ہولناک تباہی کے مناظر دیکھے تو رہا نہ گیا اور چھٹی کے دن بھی اخبار کے دفتر جاپہنچا۔ پاکستان اورخصوصاََ آزادکشمیر سے تباہی وبربادی کی خبریں آرہی تھیں‘ لیکن اس وقت سوشل میڈیا کاایسا دور نہیں تھا‘ جیسا آج ہے‘ لہٰذا اس وجہ سے صحیح حالات وواقعات دو روز بعد سامنے آئے اورپھرآزادکشمیر سے سردارسکندحیات کارُلا دینے والابیان سننے کوملاکہ ''میں تواب قبرستان کا وزیراعظم رہ گیاہوں‘‘۔
دو روزبعددفتر سے حکم ملاکہ آپ اوررئیس خان نے رسالت فاضل عباسی (مرحوم) کے ہمراہ زلزلے کی رپورٹنگ کیلئے آزادکشمیرجاناہے۔ یہ رمضان کا مہینہ تھا۔ اس لئے افطاری کیلئے منرل واٹر کی بوتلیں ‘ کھجوریں اور پھل وغیرہ گاڑی میں رکھ لئے ‘ ماسک اور ڈسپوزایبل گلوز بھی خرید لیے اوراگلی صبح ہم مظفرآباد روانہ ہوگئے۔ آزادکشمیر پہنچے تو واقعی قیامت صغریٰ کامنظرتھا۔ سردارسکندرحیات کابیان حقیقت دکھائی دے رہاتھا۔ ہرطرف انسانی نعشیں بکھری پڑی تھیں‘تعفن پھیل رہاتھا‘ کوہالہ پل سے لے کر مظفرآباد شہر تک نہ توکوئی پولیس اہلکار نظرآیا اور نہ ہی کوئی انتظامی افسر دکھائی دیا۔ پاکستانی یاکشمیری حکمران تو بہت دور کی بات کوئی سیاسی یاعوامی نمائندہ بھی نظر نہ آیا۔اس سانحہ میں قریباً 87ہزار سے زائد افراد جاں بحق‘ 75ہزار سے زائد زخمی اور لاکھوں افراد بے گھر ہوئے‘ اس تباہی کو وہی سمجھ سکتاہے‘ جس نے خود یہ مناظر دیکھے ہوں۔
کوئی عمارت‘ سڑک ‘ گلی یا جگہ ایسی نہ تھی‘ جہاں انسانی نعشوں کے ڈھیر نہ لگے ہوں‘ اس وقت تک کوئی امدادی ٹیم بھی نہیں پہنچی تھی اور نہ ہی امدادی سرگرمیاں شروع ہوئی تھیں‘ راستہ بند ہونے کی وجہ سے ہمیں گاڑی شہر سے باہر ہی کھڑی کرناپڑی اورشام کو افطاری کاوقت قریب آیا تو گاڑی سے پانی لینے کیلئے سڑک کی جانب رخ کیاتو ایک گاڑی مخالف سمت سے نمودار ہوئی اورہمارے سامنے آکر رک گئی‘ یوں لگاجیسے کوئی جاننے والاہے ‘ گاڑی سے اترنے والوں میں سے ایک راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے زاہدحسین کاظمی اوردوسرے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین (موجودہ وزیراعظم) عمران خان تھے۔ زاہدکاظمی نے ہمارا تعارف خان صاحب سے کروایاتو وہ انٹرویو دینے پرآمادہ ہوگئے اور بتایا کہ وہ دو روز سے مسلسل سفر میں ہیں‘ راولپنڈی سے چلے ‘ ایبٹ آباد اوربالاکوٹ سے ہوتے ہوئے زلزلہ سے متاثرہ علاقوں کاخود سروے کرتے ہوئے یہاں تک پہنچے ہیں اور ابھی اس سے آگے بھی آزادکشمیر میں تمام متاثرہ علاقوں کاخود دورہ کرکے اندازہ کرنا ہے کہ کس کس علاقے میں کس کس چیز کی اورکتنی کتنی ضرورت ہے۔ عمران خان صاحب نے بتایاکہ جمائمہ خان بڑی تعداد میں امدادی سامان بھجوا رہی ہیں اور اس کیلئے ہم خودسروے کررہے ہیں ‘تاکہ امدادی سامان مستحقین تک صحیح پہنچ سکے۔ یہ وہ گھڑی تھی‘ جب پاکستان اور آزادکشمیر میں اقتدار کے مزے لوٹنے والے سیاستدان خواب غفلت سے بیدار نہیں ہوئے تھے اورصرف کپتان ہی تھا‘جو اپنی اپنے کارکن زاہدکاظمی کے ہمراہ ان علاقوں میں بھوکاپیاسا گھوم رہاتھا‘جو اس کی حب الوطنی کی واضح دلیل ہے۔
2005ء کے بعد کپتان کی سیاست میں کئی اتار چڑھائو آئے‘ ہزاروں لوگ چھوڑ گئے‘ لاکھوں نئے کارکن شامل ہوئے ‘لیکن زاہدکاظمی جیسے مخلص کارکنوں کوداد دینی چاہیے‘ جوآج تک کسی منصب اورلالچ کے بغیر پارٹی چیئرمین کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ پی ٹی آئی پر ایک وقت ایسا بھی آیا‘ جب دوسری جماعتوں کے قدآور سیاستدانوں کو الیکٹ ایبلز (Electables)کہہ کر پی ٹی آئی میں شامل کیاگیا‘ اس مرحلے پر عام انتخابات میں قومی وصوبائی اسمبلیوں کیلئے پارٹی ٹکٹ زیادہ تر نووارد ''الیکٹ ایبلز‘‘ لے اڑے اور پارٹی کے دیرینہ کارکنان ہاتھ ملتے رہ گئے۔ اس امر سے کارکنوں میں مایوسی بھی پھیلی کہ شاید اب پی ٹی آئی اپنے اصلی منشور سے ہٹ گئی ہے اورصرف اقتدار کوہی اپنی اصل منزل مقصود سمجھ لیاہے‘ تاہم کپتان نے سمجھایاکہ کارکن مایوس نہ ہوں ‘ مقصد میں کامیابی کیلئے اور حکومت بنانے کیلئے نمبر گیم پوری کرنا ضروری تھی‘ لیکن جونہی حالات کچھ بہتر ہوں گے تو پارٹی کے دیرینہ کارکنان کو ان کا صحیح مقام دیاجائے گا ۔چند ماہ قبل جب پارٹی کی تنظیم نو شروع ہوئی تو وزیراعظم عمران خان نے اپنے دیرینہ کارکن دوست زاہدحسین کاظمی کو پاکستان تحریک انصاف کامرکزی نائب صدر بناکر واضح پیغام دیاکہ وہ واقعی موروثی سیاست کی بجائے میرٹ پریقین رکھتے ہیں اور اب پارٹی کارکنان کو ان کا جائز مقام دیاجائے گا ‘ پھر ہم نے دیکھا کہ ملک بھرمیں قومی اورصوبائی تنظیموں میں کارکنوں کو اہم عہدے دئیے گئے۔
چند روز قبل راولپنڈی سمیت مختلف تنظیموں کا اعلان کیاگیا تو کارکنوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی‘ کیونکہ پارٹی عہدے موروثی اور کاروباری حیثیت دیکھ کر نہیں‘ بلکہ پی ٹی آئی کے حقیقی کارکنوں کو دئیے گئے۔ راولپنڈی سٹی کی تنظیم میں دیرینہ کارکنوں کو عہدے دئیے گئے‘ جن میں راجہ محمدعلی صدر‘راجہ ماجد دھنیال سنیئر نائب صدر‘ میاں عمران حیات اور چوہدری ایم نذیر نائب صدور‘ چوہدری محمدزبیر جنرل سیکرٹری‘ حافظ زاہدخان ایڈیشنل جنرل سیکرٹری‘ قاضی دوست محمد‘ اقبال سبحانی‘ شیخ فہد‘ چوہدری امجد علی انجم‘ واجد رفیق عباسی‘ اظہراقبال ستی اور چوہدری صفدر حسین ساہی ڈپٹی جنرل سیکرٹریز‘ چوہدری صغیر گجر انفارمیشن سیکرٹری اور میاں فضل ندیم کو سیکرٹری فنانس کی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں‘ حاجی گلزاراعوان کو بھی اہم ذمہ داری دی گئی‘ جس سے پارٹی کااصل سرمایہ نوجوان نسل کو نیاحوصلہ ملا اور ان کے لئے امید کی نئی کرن نمودار ہوئی کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین‘ موجودہ وزیر اعظم عمران خان کامنشور بدلا نہیں ‘کیونکہ ان میں کوئی بھی بہت بڑا لینڈ لارڈ نہیں ‘بلکہ حقیقی کارکنان ہیں اور اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ''الیکٹ ایبلز‘‘ کو صرف منزل مقصود تک پہنچنے کیلئے صرف سیڑھی کے طورپر استعمال کیاگیا اور اب وہ وقت آ گیا‘ جب پارٹی کی قیادت موروثی سیاستدانوں کی بجائے حقیقی کارکنوں کے حوالے کی جارہی ہے۔
مختلف اتھارٹیز‘ ضلعی بیت المال‘ زکوٰۃ ودیگرکمیٹیوں‘ پارٹی کے ذیلی ونگز سمیت دیگر شعبوں میں بھی زیادہ سے زیادہ کارکنوں کو ایڈجسٹ کیاگیا ہے‘جس سے یقینا پارٹی کو بلدیاتی انتخابات کے دوران راولپنڈی میں بہت فائدہ ہوگا‘تاہم پارٹی کولاہور‘ گوجرانوالہ‘ ملتان‘ فیصل آباد اورپنجاب کے دیگر شہروں سمیت خیبرپختونخوا‘ سندھ‘ بلوچستان اور گلگت بلتستان میں ہونے والی ہرقسم کی تنظیم سازی میں پارٹی کارکنان کو آگے لاناہوگا ‘تاکہ پی ٹی آئی کو گراس روٹ لیول پر مضبوط کیاجاسکے اور اسے آئندہ الیکٹ ایبلز کوسلیکٹ کرنے کی بجائے اپنے گھر سے وہ طاقت مل جائے‘ جو الیکشن میں کامیابی کی ضمانت ہوتی ہے۔ تنظیم سازی میں پارٹی کے دیرینہ کارکنوں کو زیادہ سے زیادہ اہم عہدوں پر ایڈجسٹ کرکے وزیراعظم عمران خان نے ''دیر آید‘ درست آید‘‘ کے مصداق ایک مثالی قدم اٹھایا‘ کیونکہ اس سے پہلے ایک عام تاثر ابھرنے لگاتھا کہ پی ٹی آئی شاید اپنے منشور سے ہٹ کر اب لینڈرلارڈز یا پھر صرف خان صاحب کے چند قریبی رفقاء کی جماعت بن رہی ہے‘ جس پر اکثر کارکنوں کو طعنے بھی سننا پڑتے تھے ‘ لیکن اب کارکن خوش ہیں ‘جو ایک مثبت تبدیلی ہے ‘تاہم پارٹی قیادت کو تصویر کا دوسرا رخ بھی سامنے رکھناہوگا‘ کیونکہ آج کل ایک سابق ایم پی اے کے بارے ایسی باتیں سننے کومل رہی ہیں کہ جب تک وہ رکن صوبائی اسمبلی تھے تو واقعی ایک کارکن کی حیثیت سے کام کیا‘لیکن جب اسمبلی سے فارغ ہوئے اورپارٹی نے ایک اتھارٹی میں ذمہ داری دی تو اب انہوں نے پودوں کی جگہ چائنہ کی ناقص لائٹیں لگاکراپنی حالت سدھارنے کاگُر سیکھ لیاہے‘ جو مستقبل میں پارٹی کی بدنامی کی ایک وجہ بھی بن سکتاہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں