عالمی ادارۂ صحت نے دنیابھر میں کورونا وائرس کے حوالے سے ایمرجنسی ڈکلیئر کرتے ہوئے خبردار کیاہے کہ یہ ایک عالمی وباء کی شکل اختیار کر سکتی ہے‘ جس کیلئے دنیا کو بروقت حفاظتی اقدامات کرناہوں گے۔ چین میں یہ مرض پہلے ہی وبائی صورت اختیار کرکے بے قابو ہوچکا اور ہلاکتوں کی تعداد تین ہزار کے قریب پہنچ چکی‘ جبکہ بارہ ہلاکتوں کے بعد ایران میں بھی شدید خوف پھیل چکا‘ جبکہ اس وقت تک دنیا کے تیس ممالک کورونا وائرس کی زد میں آ چکے ہیں۔ جنوبی کوریا‘ جاپان اوراٹلی میں بھی کورونا سے ہلاکتیں ہوچکیں۔ کویت‘ اومان‘ بحرین‘ عراق‘ افغانستان میں کورونا کے مریض سامنے آ چکے۔ پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں بھی خطرے کی گھنٹی بج چکی اور اس وباء سے بچائو کیلئے پاکستان نے ایران کے ساتھ سرحد بند کر کے زائرین سمیت دیگر افراد کی آمد ورفت اور تجارتی سرگرمیاں معطل کردی ہیں۔بلوچستان حکومت نے کورونا وائرس کی روک تھام کیلئے تفتان بارڈر پر ایران جانے اور آنے والے زائرین اور شہریوں پر پابندی عائد کر دی ‘ جبکہ ایران میں موجود پاکستانی زائرین مارچ میں واپس آئیں گے ‘ ایران سے بات کی جائے گی کہ زائرین کو ابھی ایران میں ہی روکا جائے۔ تفتان سرحد پر مسافروں کی سکریننگ سخت کردی ہے ‘جبکہ لاہور ‘ کوئٹہ ‘ کراچی اور اسلام آباد ایئر پورٹس پر بھی سکریننگ جاری ہے ۔پنجاب میں بھی الرٹ جاری کر کے پچھلے 50 روز کے دوران ایران سے آنیوالے افراد کی سکریننگ کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔تفتان بارڈر اور ان سے منسلک پوائنٹ پر 10ہزار سے زائد ماسک ا ور دیگر ضروری آلات فراہم کر دیئے گئے ہیں۔ذرائع کے مطابق‘ایران سے سیاح یا زائرین کورونا وائرس سے کلیئر ہوکر واپس وطن آئے تو 14دن تک ان کو تفتان بارڈر پر ہی روکا جائے گا۔ایران ہمارا واحد ہمسایہ ملک ہے ‘جہاں روزانہ دو طرفہ زائرین کی تعداد سات سو کے قریب ہے‘ جبکہ گزشتہ ہفتے 1100 سے زائد افراد پر مشتمل زائرین کا ایک بڑا قافلہ ایران گیا ہوا ہے ۔حکومت زائرین کی صحت کے حوالے سے پالیسی بنارہی ہے ‘اس سلسلے میں ہمارے علمائے کرام اور قافلہ سالاروں سے مشاورت کی جا رہی ہے ‘تفتان کے راستے آنے والے زائرین کو کورونا وائرس سے محفوظ رکھنے کیلئے مشترکہ ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں۔
عالمی سطح پر کورونا وائرس سے بچائو کیلئے حفاظتی اقدمات کاجائزہ لیاجائے ‘تو ایران نے ملک کے14 صوبوں میں تعلیمی اداروں کو بند کر دیا ہے۔ فیملی و میوزک شوز اور اس طرح کے دیگر پروگراموں پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے ۔ کھیلوں کی تقریبات 10 دن کیلئے معطل کردی گئی ہیں۔کویت کی پورٹ اتھارٹی نے کورونا وائرس کے باعث اپنی بندرگاہوں میں ایرانی بحری جہازوں کی آمد معطل کردی ہے اور ایران کیلئے فلائٹ آپریشن بھی بند کردیا ہے ۔ترکی نے بھی ایران کے ساتھ سرحد عارضی طور پر بند کرنے کااعلان کیا ہے ۔ افغانستان نے ایران کیساتھ سرحد بند کرنے کیساتھ فضائی و زمینی آمدورفت پر مکمل پابندی عائد کردی ہے ۔ اردن نے ایران ‘ چین اور جنوبی کوریا کے شہریوں کی ملک میں آمد پر پابندی لگادی ہے ۔ چین میں بھی کورونا وائرس سے ہلاکتیں جاری ہیں ‘وائرس کی وجہ سے چین میں ماسک کی مانگ بھی حد سے زیادہ بڑھ چکی‘ تاہم چین نے پہلی بار ایسے این 95 ماسک تیار کیے ہیں‘ جس کی نینو ٹیکنالوجی کی وجہ سے اسے بار بار استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ چینی سفارتخانے کے مطابق‘ پاکستانی طلبا کے کورونا وائرس سے بچائو کے انتظامات کر لئے گئے ہیں‘ ووہان میں پاکستانی طلبا کی وقتی مشکلات کا بخوبی اندازہ ہے ‘ لاکھوں چینی باشندوں سمیت پاکستانی طلبا کو رکھنے کا مقصد وباء کو پھیلنے سے روکنا ہے۔پاکستان نے حفاظتی اقدامات کے باعث پی آئی اے کی بیجنگ براستہ ٹوکیو پروازیں15 مارچ تک منسوخ کردی ہیں۔چین اور ایران کے علاوہ اٹلی‘ جاپان‘ جنوبی کوریا اور لبنان میں بھی یہ وبا بے قابو ہوتی جارہی ہے ۔جنوبی کوریا میں کورونا وائرس کے اب تک چھ سو سے زائدکیسز سامنے آچکے ہیں۔جاپان میں کورونا وائرس کے مزیددرجنوں نئے کیس سامنے آ ئے ہیں‘ جاپان کو عالمی سطح پر اس سوال کا سامنا ہے کہ کیا اس کے حکام کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کیلئے مناسب اقدامات کر بھی رہے ہیں یا نہیں اور کیا رواں سال ٹوکیو میں اولمپکس مقابلے ہو سکیں گے یا نہیں۔ اٹلی میں مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے‘ اٹلی کے عوام میں خوف پایا جاتا ہے کہ جلد ہی شہروں کو بند کرنے کا اعلان کیا جاسکتا ہے اور وہ اشیا خورونوش ذخیرہ کررہے ہیں ۔الغرضکورونا وائرس کے حوالے سے عالمی صورتحال کاجائزہ لینے کامقصد صرف اورصرف قوم کو اس سنگین خطرے سے آگاہ کرناہے‘ کیونکہ بعض ذرائع نے بلوچستان میں کورونا وائرس کے داخل ہونے کے خدشات کااظہار کیاہے‘ جبکہ حکومت پاکستان نے بھی اس کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے بروقت حفاظتی اقدامات شروع کردئیے ہیں‘ تاکہ شہریوں کو اس مہلک وبا سے بچایا جاسکے۔ وزارتِ قومی صحت‘ ڈبلیوایچ او کے تعاون سے چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں محکمہ صحت کے ڈویژنل سطح کے گریڈ 17سے 20تک کے 150افسران کو کورونا وائرس کی علامات‘ تشخیص‘ حفاظتی تدابیر‘ علاج اور وبا کی صورت میں حکمت عملی کے حوالے سے ماسٹر ٹریننگ دی جائے گی۔ ماسٹرٹریننگ پروگرام کیلئے فنڈز ڈبلیوایچ او فراہم کرے گی۔ نیشنل ایمرجنسی آپریشن سنٹر میں کورونا کا باقاعدہ الگ سیل قائم کردیاگیاہے ‘جس کے بعد قومی وزارتِ صحت نے چاروں صوبوں پنجاب‘ سندھ‘ خیبرپختونخوا اوربلوچستان سے افسران کی فہرست مانگ لی ہے۔
ڈبلیوایچ او کے ماہرین ان افسران کو بطور ماسٹر ٹرینر تربیت دیں گے اور پھر یہ ماسٹر ٹرینر اپنے اپنے ڈویژن میں ضلعی وتحصیل سطح پر ڈاکٹروں کو تربیت فراہم کریں گے۔عالمی ادارۂ صحت کے ذرائع نے تو اس حد تک سنگین صورتحال کاخدشہ ظاہرکیاہے کہ پاکستان کو کورونا وائرس کی روک تھام اور مکمل بچائو کیلئے کم ازکم آئندہ دو سے تین سال تک بھرپور اقدامات کرناہوں گے ‘ادھرملک بھر کے ایئرپورٹس پر کورونا وائرس سے بچا کے اقدامات مزید سخت کر دئیے گئے۔ پاکستان میں داخل ہونے کیلئے ہیلتھ ڈکلیریشن فارم پر کرنا لازمی قرار دیا گیا۔حکومتی سطح پر یہ تمام اقدامات اپنی جگہ‘ لیکن جب تک ہم بحیثیت ِقوم اپنی ذمہ داریوں کااحساس نہیں کریں گے ‘ جب تک ہم خود عالمی ادارۂ صحت اور قومی وزارت ِصحت کی جانب سے جاری کردہ ہدایات پر مکمل عمل نہیں کریں گے‘ اس وقت تک خطرہ برقرار رہے گا اور اگر خدانخواستہ ایک بار یہ وائرس یہاں پہنچ گیاتو پھر اس کاعلاج آسان نہیں ہوگا‘ ہم تو ابھی تک پولیو اور ڈینگی وائرس پر ہی قابو نہیں پاسکے تو پھر کورونا وائرس کو روکنا مشکل ہوگا۔ اس کاحل یہی ہے کہ ہم ابھی سے بحیثیت ِقوم حکومت کی جانب سے جاری ہدایات اورایس اوپیز پر سو فیصد عمل پیرا ہوں ‘ چین اورایران سمیت جن ہمسایہ ممالک میں یہ وبا پھیل رہی ہے ‘وہاں سفر سے گریز کیاجائے۔ سب سے زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ ہمیں ایران کے حوالے سے کرناہوگا‘ کیونکہ ایران میں مقدس زیارات موجود ہیں ‘جہاں زائرین کی بڑی تعداد جاتی ہے‘ یہ ہمارے ایمان کاایک حصہ ہے‘ لیکن موجودہ صورتحال میں ہمیں قیمتی انسانی جانوں کے ضائع ہونے کے خطرے کومدنظر رکھتے ہوئے عارضی طور پر ایران کے سفر سے گریز کرناچاہیے کیونکہ ہمارا مذہب بھی سب سے پہلے انسانیت کادرس دیتاہے۔
دوسری طرف بعض علمائے کرام کی جانب سے ان سفری پابندیوں پرتنقید کی گئی ہے‘ جومیرے خیال میں درست نہیں‘ کیونکہ کوئی بھی مسلمان زیارات ِ مقدسہ سے روکنے کاتصور بھی نہیں کرسکتا ‘ اگر حکومت نے عارضی طورپر پابندیاں عائد کی ہیں تو یقینا اس کامقصد اس خطرناک وبا کو روکنا ہے‘ لہٰذا اس وقت علمائے کرام پرذمہ داری عائد ہوتی ہے‘ وہ آگہی مہم میں بھر پورحصہ لیں اورقوم کووہی بتائیں‘ جو اس کے مفاد میں ہے۔