2016ء میں جب ایشین بیچ گیمز کیلئے ویتنام جانے کاموقع ملا تو ویتنام بارے پہلا خیال یہی آیاکہ شاید افغانستان کی طرح جنگ سے تباہ حال ملک ہوگااورجنگ کی تباہ کاریوں سے تھکی ہاری قوم تعلیم وتربیت سے محروم غربت کی لکیر سے بہت نیچے کی زندگی گزارنے پرمجبور ہو گی۔جب تھائی لینڈ سے آگے ویتنام ایئر کے جہاز میں بیٹھے تو ہمارے خدشات کو اورتقویت ملنے لگی کیونکہ اس جہاز کی سیٹوں سے تو ہماری انٹرسٹی بس سروس زیادہ آرام دہ ہے‘ لیکن جب سمندر کنارے بسائے گئے دانانگ شہر میں اترے تو نظارے ہی کچھ اورتھے‘ ایسا محسوس ہوتاتھا کہ شاید ہمیں جہاز نے واپس تھائی لینڈ کے کسی ماڈرن شہر میں پہنچادیاہے۔ ایئرپورٹ سے ہوٹل کیلئے چلے تو راستے میں دیکھاکہ چھوٹے سے شہر میں سینکڑوں ملٹی سٹوری فور اورفائیو سٹار ہوٹل ‘ ہماری موٹروے سے زیادہ کشادہ اورصاف ستھری سڑکیں‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ اورفَر فَر انگریزی بولتے نوجوان لڑکے‘ لڑکیاں‘ ایشیا بھر سے آئی ہوئی ٹیموں کو خوش آمدید کہہ رہی تھیں۔ذہن میں محفوظ‘ جنگ سے متاثرہ ویتنام کا نقشہ کہیں غائب ہوچکاتھا اور بڑی خوشگوار حیرت کے ساتھ یہ سوال ابھرنے لگاکہ اس قوم نے جنگ کے اثرات کیسے ذائل کئے اور اتنی ترقی کس طرح کرلی۔ ایئرپورٹ سے ہوٹل جاتے ہوئے اپنی ٹیم کی میزبان رضاکار لڑکیوں سے سوال وجواب کا سلسلہ شروع کیا توانہوں نے بتایاکہ ہماری حکومت نے سیاحت کوقومی صنعت کا درجہ دے رکھاہے اور یہاں نوجوانوں کی اکثریت ٹورازم سے متعلقہ مضامین میں ہی اعلیٰ تعلیم حاصل کررہی ہے‘ تاکہ دنیابھرسے آنے والے سیاحوں کی خدمت کرسکیں۔ویتنامی نوجوانوں کااخلاق ‘ برتائو اوران کا قومی جذبہ دیکھ کر میں سوچنے لگاکہ جو ملک جنگ سے تباہ حال ہے اس کے باشندے اپنے ملک میں سیاحت کیلئے کس قدر محنت سے کشش پیدا کررہے ہیں اور ہمارا وطنِ عزیز پاکستان جو دنیا کے خوبصورت ترین خطوں میں سے ایک ہے‘ جہاں میدان‘ دریا‘صحرا‘ پہاڑ‘ جنگل‘ ندیاں‘ نالے‘ آبشاریں‘ نہریں اورسمندر سمیت ہرطرح کا ماحول موجود ہے۔ جہاں گرمی‘ سردی‘ بہار اورخزاں جیسے خوبصورت موسم ہیں‘ جس ملک میں ناران‘ کاغان‘ گلگت‘ چترال‘ سوات‘ مری‘ گلیات اور کلرکہارجیسے قدرتی نظاروں سے مالامال علاقے موجود ہیں‘جہاں کشمیر جنت نظیر اپنی مثال آپ ہے‘ جس کا صرف کراچی ہی کبھی دبئی سے زیادہ بڑا تجارتی مرکز سمجھاجاتاتھا‘ وسیع ساحل سمندر کے علاوہ گوادر جیسا سی پورٹ ہمارے پاس ہے‘ برف باری کاموسم ہو یا بہار کے مہینے‘ پاک سرزمین دنیا بھر کے سیاحوں کیلئے جنت سے کم نہیں‘ ہمارا لاہور شہر ہی دنیامیں کسی سے پیچھے نہیں‘ اولیا کی سرزمین ملتان سمیت ملک میں ہزاروں بزرگوں اوراولیا کے مزاروں سمیت سکھوں کے اہم مذہبی مقامات ہمارے ہاں موجود ہیں ‘ پھر ہم نے آج تک سیاحت کو اپنی پہلی ترجیح کیوں نہیں بنایا؟ ہماری حکومت کو تو بھاری زرمبادلہ خرچ کرنے کی ضرورت بھی نہیں ‘بلکہ ہمارے پاس قدرتی حسن سے مالامال سیاحتی مقامات کی کمی نہیں‘ کاش ہم نے بھی اس طرف توجہ دی ہوتی تو آج پاکستان دنیابھر کے سیاحوں کی توجہ کامرکزہوتا۔
پاکستان میں سیاحت کے حوالے سے غور کریں تو معلوم ہوتاہے کہ ہرحکومت اس شعبے کی ترقی اورفروغ کیلئے بڑے بڑے سیمینار کراتی ہے‘ لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے کے فنڈز خرچ کئے جاتے ہیں‘ وفاقی سطح پر پاکستان ٹورازم ڈیویلپمنٹ کارپوریشن (پی ٹی ڈی سی) کے علاوہ ٹورازم ڈیویلپمنٹ کارپوریشن آف پنجاب (ٹی ڈی سی پی) سمیت صوبائی سطح پر بہترین سہولیات سے مزین ادارے اور بھاری تنخواہیں اور مراعات لینے والا عملہ موجود ہے۔ مری ہو یاناران ‘ کاغان ‘ ہرجگہ سیاحوں کااتنا رش ہوتاہے کہ سڑک کنارے پارکنگ اورہوٹل میں کمرہ نہیں ملتا‘لیکن اس کے باوجود ہم اس شعبے میں ابھی تک بہت پیچھے ہیں اور غیرملکی سیاحوں نے پاکستان کارخ کرناہی چھوڑ دیاہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دہشت گردی نے جہاں دوسرے شعبوں میں ہمیں بہت زیادہ نقصان پہنچایا وہیں ہماری سیاحت کوبھی تباہ کیا اور اسی خطرے کے پیش نظر غیر ملکی سیاحوں نے دوسرے ممالک کارخ کرلیاہے‘ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہماری بہادر اور پیشہ ور سکیورٹی فورسز نے ملک سے دہشت گردی کوجڑ سے اکھاڑ پھینکاہے اور گزشتہ چند سالوں سے پاک سرزمین نہ صرف تجارتی سرگرمیوں اور سرمایہ کاری کیلئے موزوں ہے بلکہ کھیلوں کیلئے محفوظ ترین اور سیاحت کیلئے خوبصورت ترین جگہ بن چکی ہے‘ لیکن ہم ابھی تک سیاحوں کو واپس لانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔
موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالاتو وفاقی وزیربین الصوبائی رابطہ ڈاکٹرفہمیدہ مرزا کی زیرصدارت ملک میں سیاحت کے فروغ کیلئے کئی اجلاس منعقدہوئے جن میں تمام صوبوں کے وزرا بھی شریک ہوئے‘ پریس کانفرنسوں میں بھی بڑے بڑے دعوے کئے گئے‘ پنجاب حکومت نے ضلع راولپنڈی میں کوٹلی ستیاں سمیت کئی نئے سیاحتی مقامات کی نشاندہی کرکے فنڈز بھی مختص کئے‘ مگر اٹھارہ مہینوں میں ابھی کوئی عملی پیش رفت نظر نہیں آتی۔ دو روز قبل وزیر اعظم عمران خان نے ملک میں سیاحت کے فروغ سے متعلق اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان میں سیاحت کابے شمارپوٹینشل موجودہے ‘سیاحت کے فروغ سے ملکی معیشت کوتقویت ملے گی اور کاروبارکے بے شمارمواقع میسرآئیں گے ۔ اجلاس میں وزیر اعظم کو بتایا گیا کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں سیاحت کے حوالے سے زوننگ کا کام مکمل کر لیا گیا جبکہ گلگت بلتستان میں بھی سیاحت کے فروغ کیلئے تین زون قائم کیے گئے ہیں جن میں غذر‘ استور اور شگر شامل ہیں۔ گلگت بلتستان میں سیاحتی توجہ کا مرکز قدیم عمارات کے تحفظ اور تزئین و آرائش کیلئے آغا خان فاونڈیشن کی خدمات سے استفادہ کیا جا رہا ہے ۔ وزیر اعظم نے ہدایت کی کہ ابتدائی طور پر صوبہ خیبرپختونخوا کے چار‘ صوبہ پنجاب کا ایک اور بلوچستان کے ایک ساحلی علاقے میں سیاحت کے حوالے سے آئندہ چھ ہفتوں میں ویژن ماسٹر پلان ترتیب دینے کا عمل مکمل کیا جائے ۔ ویژن ماسٹر پلان غیر ملکی سرمایہ کاروں کو سیاحت کے حوالے سے پاکستان میں سرمایہ کاری اور انفراسٹرکچر کے قیام میں معاون ثابت ہوگا۔ اجلاس میں سیاحت کے شعبے میں حکومت کی کارکردگی کوبڑاکامیاب کرکے پیش کیاگیا اوربتایاگیاکہ موجودہ دور حکومت میں نہ صرف سفارتی سطح پر بلکہ اندرون ملک کئی شعبوں میں خاطر خواہ کامیابیاں نصیب ہوئی ہیں جن سے عالمی سطح پر ملک کا وقار بلند ہوا ہے اور اندرون اور بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنی شناخت پر فخر محسوس کرنے لگے ہیں۔
پوری دنیا ہمارے پاکستان کے قدرتی حسن کی معترف ہے اور ہمیں اس شعبے میں سرکاری خزانہ لٹانے کی ضرورت بھی نہیں بلکہ صرف بہتر حکمت کے ساتھ کام کرنے کاسچا جذبہ درکارہے‘ وزیراعظم عمران خان جنہوں نے خود دنیاکے تمام خوبصورت سیاحتی مقامات دیکھ رکھے ہیں اوراعلیٰ تعلیم کے ساتھ بہترین جذبہ بھی رکھتے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اجلاسوں میں سب اچھا کی رپورٹ پریقین کرنے کی بجائے قومی وصوبائی سیاحتی اداروں کو ٹاسک دیں اور انہیں کارکردگی کیلئے زیادہ سے زیادہ چھ ماہ کاوقت دیں ‘ سیاحتی مقامات پر نجی سرمایہ کاروں کو پرکشش مراعات دی جائیں تاکہ کاروباری پارٹیاں اس طرف زیادہ سے زیادہ راغب ہوں۔سیاحتی مقامات پر رہائش‘ کھانے پینے‘ گاڑیوں کی پارکنگ سمیت بچوں کی دلچسپی کیلئے جھولے‘ چیئر لفٹیں‘ کیبل کاریں‘ ٹورسٹ بسیں اوردیگر سہولیات مہیاکی جائیں‘ ایسے مقامات پر کاروبار کرنے والے افراد کو ٹیکس میں مراعات دی جائیں تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ ٹیکس جمع کرانے کے ساتھ سرمایہ کاری بھی کریں ۔ سیاحت کے دیگر شعبوں کے ساتھ مذہبی سیاحت پربھی خصوصی توجہ دی جائے تاکہ پاکستان ایک بارپھردنیابھر کے سیاحوں کی توجہ کامرکزبن سکے۔