دو دہائیوں سے پاکستان میں جائیداد کی خریدوفروخت میں اضافہ ہوا تو قیمتیں بھی آسمان کوچھونے لگیں‘ پراپرٹی کی قیمتوں کو پَر لگانے میں جہاں نجی ہائوسنگ سوسائٹیوں کاکردار ہے‘ وہیں اس بات کابھی اعتراف کرنا پڑے گا کہ چند بڑی ہائوسنگ سکیموں نے ہی ملک میں ایک نیا رہائشی کلچر متعارف کرایا اور لوگوں کو شعور دیاکہ گنجان آباد شہری علاقوں پر دھاوا بولنے کی بجائے نئی بستیاں آباد کی جائیں ۔ 80کی دہائی میں دیہات سے شہروں کی طرف ہجرت کا ایسا خوفناک سلسلہ شروع ہوا تھا ‘جس سے شہری آبادی کے مسائل میں بے تحاشا اضافہ ہوا ‘ رہائشی سہولیات کم پڑنے لگیں‘ مکانات کے کرائے بڑھنے لگے‘ جائیداد کی قیمتوں میں اضافہ ہونے لگا‘ ٹریفک کے مسائل جنم لینے لگے‘ بجلی اورگیس کے استعمال میں اس قدر اضافہ ہوا کہ نوبت لوڈشیڈنگ تک جاپہنچی‘ قدم قدم پر بورنگ ہونے سے زیرزمین پانی کی سطح کم ہونے لگی اور ٹیوب ویل خشک ہونے لگے ‘ پھر 90کی دہائی میں ہائوسنگ سکیموں نے عوام کو شعور دیاکہ گنجان آباد علاقوں کے مسائل سے چھٹکارا پانے کیلئے نواحی علاقوں میں قائم ہونے والی نئی بستیوں کارخ کریں اور مسائل سے نکل کر سہولیات سے فائدہ اٹھائیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ چند معروف رہائشی سکیموں نے بلاشبہ لوگوں کو جدید ترین سہولیات فراہم کیں اور نیا رہائشی کلچر دیا‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ لاہور‘ راولپنڈی اورکراچی سمیت ملک بھر کے تمام بڑے شہروں میں ہزاروں نوسرباز اورجعل ساز بھی سرگرم ہوگئے ‘جنہوں نے پلاٹوں کے نام پر بے گھر اورسادہ لوح افراد کولوٹنا شروع کردیا۔ اس دوران قبضہ مافیا بھی سرگرم ہوگیا اور غریب و کمزور لوگوں کی زمینوں اورجائیدادوں پر غیرقانونی قبضہ کرنا شروع کردیا۔ قبضہ مافیا نے آہستہ آہستہ سرکاری اداروں میں بھی رسائی حاصل کرلی اور بدعنوان افسران واہلکاروں کی ملی بھگت سے اربوں روپے کی سرکاری اراضی پر بھی قبضے شروع ہوگئے۔
گلشن اقبال بلاک 9 کراچی سے حیدرغنی کا خط بھی ایسے ہی ایک اہم مسئلے کی نشاندہی کرتاہے۔ انہوں نے لکھاہے کہ ''ہم گلشن اقبال بلاک9 والوں کے ساتھ یہ انتہائی مجرمانہ و ظالمانہ نا انصافی ہی نہیں‘ بلکہ یہ ایک حقیقی قومی مسئلہ بھی ہے کہ کراچی شہر کو پانی سپلائی کرنے والے وسیع قطر کے پائپوں کے اوپر سینکڑوں جھگیاں قائم کردی گئی ہیں ‘ جھگیوں کے ٹوائلٹس بن گئے ہیں اور جانور بندھے ہوئے ہیں‘ جن کی وجہ سے واٹرسپلائی کے پائپوں میں سیوریج کی ملاوٹ ہورہی ہے‘ جس سے کراچی میں ہیپاٹائٹس اور پیٹ کے امراض بڑھ رہے ہیں۔ اس کا سبب قبضہ مافیاکی جانب سے کی جانے والی تجاوزات ہیں ‘ یہ کراچی نیشنل سٹیڈیم سے ڈیڑھ کلومیٹر یونیورسٹی روڈ کے متوازی وفاقی اردو یونیورسٹی گلشن اقبال بلاک 9 مسجد القدس عزیزبھٹی پارک کے عقب میں واٹر بورڈ کی زمین پرسینکڑوں جھگیاں اورکچے مکانات بنادئیے گئے ہیں ‘جن کے نیچے سے پانی کی وسیع وعریض زیرزمین پائپ لائنیں گزرتی ہیں اورپورے کراچی کا پانی انہیں کے ذریعے سپلائی ہوتا ہے۔یہ جھگیاں جرائم پیشہ افراد کا مسکن بھی ہیں‘جن کی وجہ سے گلشن اقبال بلاک 9کے بچے بوڑھے سبھی پریشان ہیں‘ کبھی یہ علاقہ بہت خوبصورت تھا اورلوگ یہاں پکنک کے لئے آتے تھے‘ جنگلی بیر‘ جامن‘ کیکر‘ آم اور امرود کے سینکڑوں درخت تھے‘ پھر ایک صبح ہم نے دیکھا کہ بلڈوزر‘ درختوں کو جڑوں سے اکھاڑرہے ہیں‘ ہم لپکے منع کیاتوواٹر بورڈکے سپروائزر نے جواب دیاکہ یہاں گرین بیلٹ بنے گی‘ گالف کورس ہوگا‘ ٹینس کورٹ بنیں گے‘مگرچند ہی دن بعد ہم کیا دیکھتے ہیں کہ راتوں رات سینکڑوں جھگیاں قائم ہوگئیں۔ کراچی واٹر بورڈ میں ایک منظم سکیورٹی کا محکمہ ہے‘ اس کے پاس جدید گاڑیاں اور تربیت یافتہ عملہ ہے ‘لیکن واٹربورڈ والے قبضہ مافیا سے جان چھڑانے کی بجائے ایک حکم امتناعی کی آڑ میں بچا رہاہے۔ حال ہی میں تجاوزات گرانے کی مہم میں 200 گز دور پری پارٹیشن کسٹم کلب اور 25 سال پرانا شادی حال گرا دیا‘لیکن یہ وسیع و عریض علاقے پرقائم غیرقانونی جھگیاں چھوڑ دیں‘‘۔ خط میں حکومت اور چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کی گئی ہے کہ تجاوزات ختم کرائی جائیں اور گلشن اقبال کے مکینوں کو اس عذاب سے نجات دلائی جائے!
چند ماہ قبل موجودہ حکومت نے ملک بھر میں سرکاری اراضی کو قبضہ گروپوں سے چھڑانے کیلئے وسیع پیمانے پرمہم شروع کی گئی جس کے خاطر خواہ نتائج سامنے آئے اور مختلف شہروں اورمقامات پر اربوں روپے مالیت کی ہزاروں کنال اراضی واگزار بھی کرائی گئی‘ قبضہ گروپوں کے خلاف مقدمات کااندراج بھی شروع ہوا ‘لیکن پھر حسب ِ روایت یہ مہم بھی کمزور پڑتی گئی اور اب قریباً ٹھپ ہوچکی۔ بے نامی جائیدادوں کا شور شرابا بھی تھم چکا اور ایسا لگتاہے کہ شاید اب مزید کہیں بھی سرکاری زمین کسی کے غیرقانونی قبضہ میں نہیں رہی ‘ کاش ایسا ہی ہوتا ‘لیکن ایک عام اَن پڑھ مزدور سے لے کر ملک کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اوراربابِ اختیار تک ہرکوئی جانتاہے کہ غریبوں اوربے کسوں کی جائیدادیں ہتھیانا تو عام بات ہے ‘ ہمارے ملک میں ریلوے‘ محکمہ اوقاف اور ہائی وے کی ہزاروں کنال قیمتی اراضی تو قبضہ مافیا نے سالہاسال سے دبارکھی ہے‘ لیکن اس کے ساتھ سرکاری سکولوں‘ کالجوں‘ ہسپتالوں ‘ قبرستانوں اورندی نالوں کوبھی قبضہ گروپوں نے نہیں بخشا ۔ کراچی‘ لاہور‘ راولپنڈی‘ ملتان ‘ فیصل آباد‘ پشاور‘ کوئٹہ اوردیگر بڑے شہروں میں سڑک کنارے سرکاری زمین پر قبضہ کرکے غیرقانونی گھر یا کمرشل تعمیرات تو پہلے سے ہی جاری تھیں گزشتہ کئی سال سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی گرین بیلٹ پر تجاوزات شروع ہوچکی ہیں۔
زیادہ پرانی بات نہیں ‘بلکہ چندسال قبل تک جڑواں شہروں راولپنڈی اوراسلام آباد کے سنگم پر سبزی منڈی موڑ کے قریب آئی الیون میں قائم کچی بستی کے بارے میں مشہور تھاکہ اس بستی کا ہر کچا گھر منشیات اور اسلحہ وبارود کاڈھیر ہے‘ یہ جرائم پیشہ افراد کی آماجگاہ ہے‘ دونوں شہروں سے جوبھی اغواء ہوتاہے‘ اسے پہلے ٹرانزٹ کیمپ کے طورپر اسی بستی میں لایاجاتا ؛ حتیٰ کہ دہشت گردوں اورتخریب کاروں کیلئے بھی یہ محفوظ پناہ گاہ سمجھی جاتی تھی‘ کوئی افسر وہاں آپریشن کرنے کی ہمت نہیں کرتاتھا اوراگر میڈیا یا کوئی ایماندار افسر اس طرف توجہ مبذول کراتا تو یہ کہہ کر خاموش کرادیاجاتا کہ یہ بستی آگ وبارود کاڈھیر ہے اور آپریشن کی صورت میں سخت ردعمل کاخدشہ ظاہرکرکے ‘ عوام کے جان ومال کی آڑ لے کر کارروائی رکوا دی جاتی تھی‘ پھر سابق دورحکومت میں جب سپریم کورٹ نے آئی الیون کچی بستی میں بلاتفریق آپریشن کرکے پلاٹ واگزار کرکے اصل مالکان کوقبضہ دلوانے کاحکم ملا تو اس وقت کے ڈپٹی کمشنر اسلام آبادنے کمال جرأت اور دلیری کامظاہرہ کرتے ہوئے آپریشن کلین اپ مکمل کیا ‘ ابتداء میں انہیں بھی انتہائی سخت مزاحمت کاسامنا کرناپرا‘ دھمکیاں بھی ملیں‘ قبضہ گروپوں کی طرف پیشکش بھی ہوئی ہو گی‘ جبکہ بااثر مافیا نے سفارشوں کے تابڑ توڑ حملے بھی ضرور کئے ہوں گے‘ لیکن اس افسر کو واقعی داد دینی چاہیے کہ جس نے نا صرف جرائم پیشہ عناصر کو وہاں سے بھاگنے پرمجبور کیا‘بلکہ وہاں قائم ہزاروں غیرقانونی گھر مسمار کرکے وہاں سے ملبہ بھی راتوں رات اٹھا کر پلاٹ اصل مالکان کے حوالے کردئیے۔
مذکور آپریشن کی کارکردگی دیکھ کر یقین ہو گیا کہ واقعی قانون کے ہاتھ بڑے لمبے ہوتے ہیں اور اگر سرکار چاہے تو کچھ بھی کرسکتی ہے ‘ لیکن مسئلہ تو یہی ہے کہ سرکار چاہے بھی تو‘ لیکن اگر وہ ادارے‘ محکمے‘ افسران یااہلکار جنہوں نے تجاوزات یاقبضہ مافیا کیخلاف کارروائی کرنی ہو اور وہ ہی مافیا کی سرپرستی کررہے ہوں تو پھر کارکردگی صفر ہی رہے گی اور تجاوزات ختم ہونے کی بجائے بڑھتی ہی جائیں گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تجاوزات مافیا کے خلاف بلاتفریق کارروائی کی جائے اور اس سلسلے میں سب سے پہلے شہروں میں قیمتی سرکاری اراضی اورگرین بیلٹس واگزار کرائی جائیں!