بہت پرانے زمانے کی بات نہیں کرتے اورنہ ہی ہم پچھلی صدی کے تذکرے چھیڑتے ہیں‘ہم نے اسی اکیسویں صدی کے پہلے دو عشروں میں آٹھ اکتوبردوہزارپانچ کاقیامت خیز زلزلہ دیکھا جس نے کئی شہروں کو قبرستان میں تبدیل کردیا اور کئی فلک بوس عمارتوں کو مٹی کاڈھیر بنادیا‘ ہم نے درجنوں تباہ کن سیلاب دیکھے‘ جو سینکڑوں دیہاتوں‘ چلتی گاڑیوں‘ تیار فصلوں اورجنگلات تک کو بہا کر لے گئے‘ ہم نے دہشت گردی کے ایسے خوفناک واقعات دیکھے کہ پلک جھپکنے کی دیر میں ہرطرف انسانی لاشوں کے ڈھیر لگ گئے۔ قدرت کا کون سا رنگ ہے‘ جو ہم نے نہ دیکھاہولیکن ہم نے سبق نہیں سیکھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جو قومیں اپنے ماضی سے سبق نہیں سیکھتیں ‘وہ ہمیشہ تنزلی کاشکار رہتی ہیں ۔ تباہی وبربادی ان کے مقدر میں لکھ دی جاتی ہے اور وہ غلاموں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔ ہمسایہ دوست ملک چین کی مثال ہمارے سامنے ہے‘ اس قوم نے سنجیدگی ‘ ذمہ داری ‘ اتحاد اور صبر کامظاہرہ کرکے کورونا جیسی موذی وبا کو شکست دی اور پوری دنیا کیلئے مشعلِ راہ بن گئی‘ جبکہ ہم ابھی تک اس عالمی وبا کو مذاق سمجھ رہے ہیں‘ ہم روزبروز بڑھتی ہوئی مریضوں کی تعداد کے باوجود سنجیدہ نہیں ہوئے‘ اس قوم کو کورونا سے بچاتے بچاتے ڈاکٹر اسامہ ریاض خود جامِ شہادت نوش کرگیا ‘لیکن اس کے سچے جذبے کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والوں کو بھی اس تباہی کااحساس نہیں ہوا۔ آخر ہمیں کیاہوگیاہے اورہم اتنے بے حس کیوں ہوگئے ہیں کہ ہمیں آنکھوں کے سامنے آتی ہوئی موت بھی نظر نہیں آرہی ؟ حالانکہ ہمارا ایمان ہے کہ ؎
خدانے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
بیرون ملک جاکر جب ہم بڑھک مارتے ہیں کہ ''ہم دنیا کی پہلی اسلامی ایٹمی طاقت ہیں‘‘ تو ہمیں شرم بھی نہیں آتی ‘کیونکہ وہ تو ہمارے چند محب وطن لیڈروں اورمایہ ناز سائنسدانوں کاکمال ہے‘ ہم تو ابھی تک صرف تماشا دیکھتے آرہے ہیں اور کورونا کے تیزی سے پھیلتے ہوئے وائرس کو بھی ابھی تک تماشا ہی سمجھاہوا ہے۔ برادر اسلامی ملک ایران سے واپس آنے والے زائرین میں کورونا کی تشخیص کے بعد تفتان بارڈر کو بند کیاگیاتو بعض حلقے اسے زیاراتِ مقدسہ سے روکنے کی سازش قرار دینے لگے‘ سندھ حکومت نے انسدادِ کورونا کیلئے اقدامات شروع کئے تو نا صرف صوبای حکومت کے سیاسی مخالفین‘ بلکہ وفاق میں بیٹھے حکمران بھی اسے سیاسی تنقید کانشانہ بنانے لگے اور یہ بات بھول گئے کہ دنیا بھر کے قریباً دو سو ممالک کو اپنی لپیٹ مین لینے والی یہ عالمی وبا سندھ سے آگے بھی آسکتی ہے اوراس کا سامنا ہمیں بھی کرناپڑ سکتاہے۔ ہم اپنے گریبان میں جھانکیں تو حقیقت یہی ہے کہ ہم فیس بک‘ واٹس ایپ‘ ٹویٹر اور یوٹیوب سمیت سوشل میڈیا کے بہت بڑے دانشور تو بن گئے‘ لیکن ابھی تک ہم نے زندگی وموت کی کشمکش میں مبتلا مریض کو ہسپتال لے جانے والی ایمبولینس کو راستہ دیکھنا بھی نہیں سیکھا۔ ہاں البتہ ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ اپنی گاڑی کو ایمبولینس کے پیچھے لگا لیا تو ہمیں راستہ آسانی سے ملتاجائے گا اور تیز رفتاری سے منزل مقصود کی جانب بڑھ سکیں گے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب کہیں کوئی حادثہ پیش آجائے تو متاثرین کی مدد کرنے والے کم اور تماشا دیکھنے والے زیادہ جمع ہوجاتے ہیں‘ جو الٹا ایمبولنس اور دیگر ٹریفک کا راستہ روک کر مسائل کا سبب بنتے ہیں‘ بلکہ اب تو بات تماشے سے بھی آگے نکل گئی اور اگر کسی حادثے والی جگہ پر سو لوگ جمع ہوتے ہیں تو ان میں سے صرف دس امدادی کام میں مصروف ہوتے ہیں اور دیگر صرف تماشا اور فون سے ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر دعا کی اپیل کررہے ہوتے ہیں اورانہیں اتنا رحم نہیں آتا کہ سوشل میڈیا پر دعا کروانے کی بجائے اگر وہ صرف موقع سے ہٹ جائیں اوررکاوٹ نہ بنیں تو یہ زیادہ اہم ہے۔
مجھے ایک واقعہ آج بھی اچھی طرح یاد ہے؛غالباً یہ دو ہزار بارہ کی بات ہے ‘جب اسلام آباد کے نواحی علاقے حسین آباد میں مسافر طیارہ گر کر تباہ ہوا تو میں فوٹوگرافر کے ہمراہ کوریج کیلئے روانہ ہوا‘ ابتدائی اطلاع ملی کہ بینظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر طیارہ گرا‘ ہم وہاں پہنچے تو پولیس اہلکاروں نے بتایا کہ شاید کورال چوک کے قریب یہ سانحہ پیش آیا‘پھر معلوم ہوا کہ کورال سے بھی کوئی پندرہ کلومیٹر دور حسین آباد گائوں جاناپڑے گا‘ مغرب کاوقت تھا‘ ہلکی ہلکی بارش لگی ہوئی تھی‘ ہم تو ڈیوٹی پرتھے اس لئے جائے حادثہ تک پہنچنا مجبوری تھی‘ لیکن ہمارے راستے میں ہزاروں لوگ جائے حادثہ کی جانب دوڑے چلے جارہے تھے۔ میں سمجھا کہ شاید یہ وہ لوگ ہیں‘ جن کے عزیزواقارب اس بدقسمت طیارے میں سفر کررہے تھے اور اب یہ اپنے پیاروں کی خیرخبر کیلئے حواس باختہ ہوکر دوڑ رہے ہیں‘ انہیں نہ تو بارش کا خیال تھا اور نہ ہی منزل کی دوری کااحساس ‘بلکہ پھیلتے ہوئے اندھیرے اور خراب موسم سے بے نیازجب وہ جاہل پندرہ سے بیس کلومیٹر کاسفر پیدل طے کرکے جائے حادثہ پرپہنچے تو ان سے پہلے فوج نے علاقے کاکنٹرول سنبھال لیاتھا اور امدادی کارروائیاں جاری تھیں‘ وہاں پہنچنے کے بعد میں نے ان لوگوں سے بات چیت کی تومعلوم ہوا کہ ان میں سے کسی کاکوئی قریبی عزیز یا جاننے والا اس جہاز میں سوار نہیں تھا‘ بلکہ یہ لوگ صرف حادثہ (تماشا) دیکھنے کیلئے آئے تھے‘ وہاں موجود ایک سینئر افسر نے بتایا کہ پہلے جب کبھی کوئی فضائی حادثہ ہوتا تو امدادی کاموں میں کئی کئی گھنٹوں کی تاخیر ہوتی تھی اور ایسی باتیں مشہور تھیں کہ حادثے والی جگہ سے زیورات اور دیگر قیمتی اشیاء برآمد ہوتی تھیں اور یہ تماش بین بھی کچھ ایسے ہی لالچ میں یہاں پہنچے تھے۔ اس بات کامقصد یہ بتانا ہے کہ ہم لوگ ابھی زخمیوں کو فوری ہسپتال پہنچانے یا طبی امداد دینے کی بجائے لائیک اور کمنٹس کیلئے تصویریں سوشل میڈیا پرپوسٹ کرنے کوترجیح دیتے ہیں ‘ کسی سانحہ کے وقت خون کاعطیہ دینے کیلئے ہسپتال کارخ کرنے کی بجائے جائے حادثہ پر زیورات لوٹنے کی سوچ رکھتے ہیں تو ہم ترقی کیسے کرسکتے ہیں اوراللہ کی مدد حاصل ہوگی‘ اس کیلئے ہمیں خود کو بدلناہوگا‘ سنجیدگی اختیار کرناہوگی۔
سندھ کے بعد پورے ملک میں لاک ڈائون کو پانچ دن ہوگئے ‘ ملک بھر میں تعلیمی ادارے بند‘ بازار بند‘ پارک بند‘ کھیلوں کے میدان بند ‘حتیٰ کہ انٹرسٹی ٹرانسپورٹ بھی بند ہے ‘لیکن عوام کی اکثریت کہ ''اپنی ‘‘ زندگی کی حفاظت کیلئے گھر بیٹھنا بھی قبول نہیں اور اپنے ساتھ دوسروں کی زندگیاں بھی خطرے میں ڈال کر صرف تماشے کیلئے باہر گھوم رہے ہیں‘ گلیوں اورسڑکوں پر ابھی بھی لوگ جمع ہوکر خوش گپیوں میں مصروف دکھائی دیتے ہیں‘ پولیس بھگاتی ہے ‘لیکن کچھ دیر بعد پھر نوجوان علاقے میں میدان میں جمع ہوکر کرکٹ کھیلنا شروع کردیتے ہیں۔ ریسٹورنٹ بند کردئیے گئے‘ لیکن تھڑوں پربیٹھنے والے آج بھی عقل سے کام لینے پرراضی نہیں‘ معلوم نہیں کہ اس قوم کو کب عقل آئے گی؟ اگر ہم اپنی ذات کی حفاظت کیلئے بھی سنجیدہ نہیں تو پھر موت کے بعد تو موقع نہیں ملے گا‘خدا کیلئے یہی وقت ہے کہ ہم سدھر جائیں اور عالمی ادارۂ صحت وحکومت کی جانب سے جاری کردہ ہدایات پرعمل کرکے اپنی اوراپنے پیاروں کی جان بچائیں۔
وزیراعظم عمران خان کا کہناہے کہ لاک ڈائون کی آخری قسمیں کرفیو کی ہیں۔ کرفیو لگانے سے معاشرے پر بہت برا اثر پڑے گا۔ ہم نے 70 سالہ تاریخ میں سیکھا نہیں۔ یقینا وزیر اعظم عمران خان ‘جس سطح پر سوچتے ہیں‘ وہ اپنی جگہ درست ہے‘ لیکن کورونا جیسی وبا پرقابو پانے کیلئے ہمیں چین سے بھی زیادہ سخت لاک ڈائون کی ضرورت ہے‘ کیونکہ موجودہ لاک ڈائون تومحض ایک تماشا ہی ہے‘ جس میں سب کچھ بند ہونے کے باوجود لوگوں کو گھروں میں نہیں بٹھایا جاسکا۔ حکومت کو اس مرض کے خاتمے کیلئے کرفیو جیسے آخری آپشن پربھی غور کرنا چاہیے‘ کیونکہ معیشت سے پہلے انسانیت کو بچانا زیادہ ضروری ہے‘ کیونکہ بانس رہے گا توبانسری بھی بجے گی ۔