کوئی غریب بھوک سے نہ مرجائے

وزیراعظم عمران خان کی نیت اور ایمانداری پر کسی کو شک نہیں‘ لیکن اکثراوقات انہیں اپنے ناتجربہ کار و غیرسیاسی مشیروں اور خصوصی معاونین کے مشوروں پرعمل کرکے خاصی تنقید کا سامنا کرناپڑتاہے ۔ایک طرف موجودہ حکومت اوراس کی اتحادی جماعتوں کے وزراء اورپارلیمنٹیرینز میں بڑے سینئر اورتجربہ کار سیاستدان شامل ہیں‘ جو حالات کی نزاکت کے ساتھ عوام کی ضروریات کو بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں اور گاہے بگاہے عوامی مشکلات کا تذکرہ بھی کرتے رہتے ہیں تو دوسری جانب غیر سیاسی وغیرمنتخب مشیروں و معاونین کی بڑی تعداد بھی اہم حکومتی عہدوں پر براجمان ہے ‘جو نہ تو عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر اقتدار تک پہنچے ہیں اور نہ ہی وہ خود کو عام آدمی کے سامنے جوابدہ سمجھتے ہیں۔ ان میں بعض ایسے بھی ہیں ‘جنہیں نہ تو کبھی پاکستان کی عام مارکیٹ میں جانے کا موقع ملا اور نہ ہی وہ عام آدمی کی مشکلات ومسائل سے آگاہ ہیں‘ انہیں اس بات کی بھی فکر نہیں کہ موجودہ حکومت نے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے کے بعد ووٹ لینے کیلئے پھر عوام کے پاس جاناہے ‘کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ وہ پہلے بھی اپنی دولت یا اثرورسوخ سے ہی مسند ِ اقتدار تک پہنچے اور آئندہ بھی ایسے مواقع مل سکتے ہیں اور اگر حالات بدل بھی گئے تو انہیں پھر بھی فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں‘ کیونکہ دیارِ غیر کے ویزے اور دروازے تو ان کیلئے کبھی بند نہیں ہوسکتے۔ مسئلہ ہوا تو وزیراعظم عمران خان‘ ان کی جماعت یا اتحادیوں کو ہوگا‘ جنہوں نے ووٹ لینے کیلئے دوبارہ عوام کی دہلیز پر جانا ہوگا۔
کورونا وائرس سے پیداشدہ موجودہ سنگین صورتِ حال میں وزیراعظم عمران خان نے غریب خاندانوں کیلئے جوچار ماہ تک فی گھرانہ تین یا چار ہزارروپے ماہانہ(پنجاب حکومت نے یہ رقم چار ہزار روپے فی گھرانہ کر دی ہے) امداد دینے کا اعلان کیاہے ‘ اس میں بھی کچھ ایسے ہی غیر سیاسی مشیروں کی مشاورت نظر آتی ہے‘ جنہیں یہ معلوم نہیں کہ غریب خاندان بھی کسی چھت کے نیچے رہتاہے‘ بجلی اورگیس کے بل غریبوں کو بھی ادا کرنا پڑتے ہیں‘ غریب کے ساتھ بھی پیٹ لگاہوا ہے اور اس کے بچے بھی روٹی کھاتے ہیں اورعام آدمی کیلئے بھی چیزیں اتنی ہی مہنگی ملتی ہیں ‘جتنی ان دولت مند امیروں کیلئے تو پھر آخر کابینہ نے لاک ڈائون کے دوران پورا مہینہ گھر میں بے روزگار بیٹھنے والے غریب دیہاڑی دار مزدوروں کے خاندان کا مہینے بھر کی امداد صرف تین یا چار ہزار روپے کس فارمولے کے تحت منظور کی؟ تین ہزار روپے سے چھوٹے سے چھوٹے مکان کاکرایہ بھی ادا نہیں ہوتا‘ بجلی اورگیس کے کم سے کم یوٹیلٹی بل بھی تین یا چارہزار روپے سے زائد ہی ہوتے ہیں‘ پھر پانچ یا سات افراد کے کنبے کیلئے آٹا‘ گھی‘ چینی‘ پتی‘ دودھ اوردیگر بنیادی ضروریات کیسے پوری ہوں گی؟اب تو ایک عام دیہاڑی دار مزدور کی اجرت بھی ایک ہزارروپے روزانہ سے زائد ہوتی ہے اور اس میں بھی پورے خاندان کا گزارہ مشکل ہوتاہے اور گھریلونظام چلانے کیلئے خواتین اوربچوں کو بھی گھر کے سربراہ کاہاتھ بٹانا پڑتاہے ‘تب جاکر دال روٹی پوری پڑتی ہے۔ ان حالات میں عام آدمی تین یا چار ہزارروپے حکومتی امداد میں مہینہ بھر پورے خاندان کے اخراجات کیسے پورے کرے گا اور کیا گارنٹی ہے کہ اسے بچوں کاپیٹ پالنے کیلئے چوری ‘ ڈکیتی ‘ بے ایمانی یا بدعنوانی جیسے منفی ہتھکنڈوں کا سہارا نہیں لینا پڑے گا اور حکومتی امداد کے بعد کسی اورکے آگے بھیک کیلئے ہاتھ نہیں پھیلانا پڑے گا؟ 
اس تحریر کامقصد حکومت پر بلاجواز تنقید ہرگز نہیں ‘بلکہ صرف اس اہم مسئلے کی نشاندہی کرناہے‘ جس پر وزیراعظم عمران خان کو سنجیدگی سے نظرثانی کرنی چاہیے‘اسی طرح حکومت نے تین سو یونٹ تک بجلی اور دو ہزار روپے تک گیس بل تین ماہانہ اقساط میں وصول کرنے کاجو فیصلہ کیا ہے‘ اس پر بھی فوری نظرثانی کی ضرورت ہے ‘کیونکہ قسطوں کے ساتھ اگلے مہینے نیا بل بھی جمع ہوجائے گا جو پھر غریب آدمی کیلئے ادا کرنا ممکن نہیں ہوگا ‘لہٰذا وزیراعظم عمران خان موجودہ صورتِ حال‘ عام آدمی کی آمدن اور مشکلات کومدنظر رکھتے ہوئے کم ازکم دو مہینے کیلئے پانچ ہزارروپے تک یوٹیلٹی بل معاف کریں ‘ جہاں تک اپوزیشن کی تنقید کی بات ہے‘ تو حکومت نے خود ہی سیاسی مخالفین کو موقع فراہم کیا اور تین یا چار ہزارروپے امداد کی بات کرکے خود ہی اپنا مذاق بنوایا۔ باقی اپوزیشن کوچھوڑیں‘ بلکہ صرف پی ٹی آئی کی سابق اتحادی جماعت کے امیر سینیٹر سراج الحق کابیان ہی دیکھیں۔وہ کہتے ہیں کہ '' وزیر اعظم کوتین ہزارروپے ماہانہ میں گزارا کرنے کا فارمولا دینے پرنوبل انعام مل سکتا ہے ۔حکومت نے پہلے ہی معاشی پیکیج دینے میں بہت تاخیر کردی ہے ‘یہ نہ ہو کہ حکومت کی اعلان کردہ امدا د ملنے تک لوگ کورونا کی بجائے بھوک سے دم توڑنے لگیں۔ حکومت کو عالمی اداروں سے ڈیڑھ ارب ڈالر کی امداد آرہی ہے اوردرآمدی بل بھی دس ارب ڈالر کم ہونے والا ہے ‘عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی سے بھی حکومت کو فائدہ ہوا ہے ‘ ان حالات میں حکومت کا فرض ہے کہ ستر لاکھ دیہاڑی دار مزدوروں کی دل کھول کر امداد کرے ‘فی گھرانہ کم از کم 15ہزار کا گزارا الائونس دیا جائے ‘پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں پچاس فیصد کمی کی جائے اور بجلی و گیس کا دو ماہ کا بل معاف کیا جائے ‘‘سینیٹرسراج الحق نے کارکنان کو ہدایت کی کہ لاک ڈائون کی ہدایات پر سختی سے عمل درآمد کریں‘ لیکن مستحقین کی امداد خاص طور پر راشن کی تقسیم کاسلسلہ بھی جاری رکھیں۔یہ صرف ایک سیاسی جماعت کے موقف کی مثال دی ہے ‘ ملک بھر کی سیاسی‘ سماجی‘ مذہبی‘ کاروباری اور شخصیات بھی تین یا چار ہزار روپے ماہانہ امداد کوبالکل ناکافی سمجھتی ہیں اور اس پر نظرثانی کامطالبہ کررہی ہیں۔
دوسری طرف ملک بھر میں پبلک ٹرانسپورٹ کاپہیہ جام ہے‘ تعمیراتی کام ٹھپ ہوچکے ہیں‘ کاروباری مراکز بند ہیں‘ لوگ گھروں میں محصور ہیں‘ غریب آدمی تو گھر میں بند رہنے سے زیادہ کوئی حفاظتی تدابیر اختیار بھی نہیں کرسکتا اورنہ ہی اس کے وسائل اجازت دیتے ہیں تو پھر یہ حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ اسے بھوکا مرنے سے بچایاجائے اور کم ازکم دووقت کی روٹی کابندوبست کیاجائے ‘تاکہ وہ بچوں کوبھوک سے مرتا دیکھ کر کسی غیرقانونی یا غیراخلاقی فعل اورجرم کے ارتکاب سے بچ سکیں۔ ایسے حالات میں عام آدمی کام کرنا چاہے بھی تو کیاکرے؟ دیہاڑی دار مزدوری تو بہت دورکی بات ہے اب تو بڑے بڑے منافع بخش اداروں نے بھی ڈیلی ویجز ملازمین کو چھٹی دے دی ہے‘ کیونکہ جب کام ہی نہیں ہوگا تو کون سا آجر ان ملازمین کواجرت دے گا ؟ پھر حکومت کوہی عوام کاسوچناہے اورانہیں بھوک سے بچاناہے۔
بلاشبہ ملک کی معاشی صورتِ حال اورسرکاری خزانے کاحال بھی قابل رحم ہیں‘ لیکن کورونا وائرس کی عالمی وبا کے پیش نظر جوعالمی امداد آ رہی ہے‘ وہ بیرونی قرضے اتارنے یا قومی معیشت کو سدھارنے کیلئے نہیں‘ بلکہ اس وبا سے نمٹنے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی لاک ڈائون کی صورتحال کامقابلہ کرنے کیلئے ہے‘ جس میں سب سے اہم اورضروری چیز عام آدمی کے گھر کاچولہا جلائے رکھناہے ۔ غریب کو دو وقت کی روٹی بھی دینی ہے‘ لیکن اس کے ساتھ اس کی عزت نفس کا بھی خیال رکھناہے۔ وزیراعظم عمران خان اس اہم مسئلے پر فوری نظرثانی کریں ‘ غریبوں کے یوٹیلٹی بل فوری معاف کئے جائیں‘ امدادی پیکیج تین یا چارہزار کی بجائے پندرہ ہزار کیاجائے اور اس کی تقسیم کا طریقہ کار سہل اورشفاف بنایاجائے ‘ تاکہ بینظیر بھٹوانکم سپورٹ پروگرام کی طرح کہیں تقسیم کرنے والے ارباب ِاختیار یہ امداد بھی ریوڑیاں سمجھ کر اپنوں میں ہی نہ بانٹتے پھریں اورخدانخواستہ غریب عوام کورونا وائرس جیسی مہلک وبا سے تو بچ جائیں‘ لیکن کوئی بھوک سے نہ مرجائے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں