سیاستدانوں ‘ بیوروکریٹس‘ ڈاکٹروں اوراساتذہ سے لے کر ایک عام مزدور تک یہ بات تو ہر کوئی جان چکاکہ پاکستان میں کورونا وائرس بڑی تیزی سے پھیل رہاہے اورہم یہ بھی جان چکے کہ اس عالمی وبا پر صرف مکمل احتیاط سے ہی قابو پایا جاسکتاہے‘ ورنہ ہمارے پاس تو اتنے وینٹی لیٹرز بھی نہیں کہ خدانخواستہ یورپ اورامریکا جیسی صورت ِ حال پیدا ہوگئی تو اپنے پیاروں کی چند گھنٹے تک مصنوعی سانس بھی بحال رکھ سکیں۔کورونا نے دنیابھر میں ایک عجیب ساخوف پیدا کردیاہے‘ سمجھدار لوگ ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے بھی احتیاطی تدابیر کا خیال رکھتے ہیں‘ لیکن یاتو ہمارے ملک میں سمجھدار لوگوں کی تعداد کم ہے یاہم جمہوریت کے اہل نہیں ‘کیونکہ حکومت نے بیماری وموت کے اس خوفناک کھیل کوروکنے اوروبا پر قابو پانے کیلئے ملک بھر میں لاک ڈائون توکر رکھاہے‘ لوگوں کے اجتماع کوروکنے کیلئے دفعہ 144کا نفاذ بھی ہے ‘ موٹرسائیکل ڈبل سواری پرپابندی ہے‘ پچاس سال سے زائد عمر کے سرکاری ملازمین کو بھی چھٹیاں دے دی گئی ہیں‘ کھانے پینے کی دکانوں اورمیڈیکل سٹوروں کے علاوہ ہرقسم کے کاروبار بھی بند کرادئیے گئے ہیں ‘ نجی کمپنیاں بھی صرف ضروری ملازمین سے کام چلا رہی ہیں؛ حتیٰ کہ روز شائع ہونے والے اخبارات اورچوبیس گھنٹے نشر ہونے والے ٹیلی ویژن بھی لوگوں کو آگہی فراہم کرنے کے ساتھ سماجی فاصلے سمیت احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہیں‘ لیکن ہماری قوم ہے کہ بالکل احساس اور احتیاط سے عاری نظر آتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتاہے کہ ملک میں لاک ڈائون نہیں‘ بلکہ شٹرڈائون ہے ‘کیونکہ کام وکاروبار تو بند ہیں ‘ لیکن لوگ گھروں تک محدود نہیں ہوئے‘ بلکہ بازاروں اورسڑکوں پر ہرروز رش پہلے سے بڑھتا چلاجارہاہے ‘جو کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلائو کا سبب بھی بن رہاہے ۔ نوجوان تعلیمی اداروں سے ملنے والی تعطیلات کے مقصد کوسمجھنے کی بجائے گلیوں ومحلوں میں کرکٹ کھیل رہے ہیں‘ راولپنڈی اورلاہور سمیت مختلف شہروں میں پتنگ بازی نے بسنت کاسماں باندھ رکھاہے‘ بزرگ شہری بھی اپنی اور خاندان کی صحت وسلامتی کو پس پشت ڈال کر تھڑے کی سیاست میں سرگرم نظر آتے ہیں۔
ہم عوام کو کیا الزام دیں‘ حکومت خود کنفیوز نظر آتی ہے۔ ایک طرف کورونا کے تیزی سے پھیلنے اور اس وبا کی طوالت کے بیانات آرہے ہیں‘ کاروبار بند کرکے دفعہ 144کی خلاف ورزی پر مقدمات قائم کئے جارہے ہیں تو دوسری جانب لاک ڈائون کے نقصانات بتاکر نرمی کی باتیں ہورہی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ لاک ڈائون کے اثرات پوری دنیا پر پڑ رہے ہیں‘ اس سے ملکی معیشت کو بھی بہت نقصان ہوا‘ اثرات بہت دیر تک رہیں گے۔ان کا کہنا ہے کہ کورونا کے صرف پانچ فیصد مریضوں کو ہسپتال جانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جتنی احتیاط کی جائے گی‘ کورونا وائرس کم پھیلے گا۔ اس وبا کے خلاف جنگ کا ساری قوم کے ساتھ مل کر ہی مقابلہ ہو سکتا ہے۔جب بھی ملک پر کوئی آفت آئی تو پاکستانیوں نے بڑھ کر مدد کی۔ابھی فنڈ اس لئے اکٹھا کیا جا رہا ہے کہ مشکل وقت میں لوگوں کی مدد کر سکیں۔وزیراعظم عمران خان نے عوام سے درخواست کرتے ہوئے کہا کہ ایک دم اتنے کیس بڑھ جائیں تو امیر ترین ملک بھی سنبھال نہیں سکتے۔ لوگ اگر احتیاط کریں گے‘ یعنی گھروں تک محدود رہیں گے تو ہم اس وبا سے نکل جائیں گے‘ یعنی جو محدود‘ وہ محفوظ ہیں۔ جتنی احتیاط کریں گے‘ کورونا کم پھیلے گا۔ کوئی نہیں کہہ سکتاکہ دوسے چھ مہینے کے بعد کیا ہوگا؟جب ملک کے وزیراعظم عمران خان خود کہہ رہے ہیں کہ آنے والے حالات سنگین ہیں اورہمیں محدود رہنے کی ضرورت ہے توپھر لاک ڈائون میں نرمی کی بات کیوں ہورہی ہے‘ ابھی تک لاک ڈائون پرمکمل عمل درآمد کی بجائے صرف شٹرڈائون ہی کیوں کیاگیاہے؟
میں اس سے پہلے اپنے ایک کالم میں چشم دیدگواہ کے طورپر اس بات کاذکر کر چکاہوں کہ 2005ء کے قیامت خیز زلزلے کی میڈیا کوریج کیلئے جب آزادکشمیر گیاتو وہاں پاکستانی سیاسی قیادت میں سے صرف عمران خان سے ملاقات ہوئی ‘جو اپنے دیرینہ کارکن زاہد حسین کاظمی کے ہمراہ امدادی کاموں کیلئے خود سروے کررہے تھے‘ اس بات میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ وزیراعظم عمران خان نے ہمیشہ مشکل کی گھڑی میں سماجی وفلاحی کاموں میں خود بڑھ چڑھ کرحصہ لیا اوروہ حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہیں ‘ اس وقت سخت فیصلے کرتے ہوئے جوانجانا سا خوف ان پرطاری نظر آتاہے‘ وہ بھی شاید قوم کی معاشی حالت اور مشکلات کے باعث ہی ہوسکتاہے ‘لیکن ہمیں انسانیت کو بچانے کیلئے مشکل فیصلے کرناہوں گے‘ اگر چھ اپریل تک لاک ڈائون پر اس کی روح کے مطابق‘ عمل ہوتا تو شاید 14اپریل تک توسیع کی ضرورت نہ پڑتی‘ لیکن اگر اب بھی ہم نے زمینی حقائق کونظرانداز کیا تو خدانخواستہ بھیانک نتائج کاسامنا کرناپڑسکتاہے ‘کیونکہ ہمارے وسائل انتہائی محدود ہیں اورہم صرف احتیاط کے ساتھ ہی اس وبا کامقابلہ کرسکتے ہیں۔
موجودہ چیف جسٹس صاحب نے بھی کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے ناکافی سہولتوں پر از خود نوٹس لے لیا ہے‘ چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بنچ آج پیر کو اس کی سماعت کرے گا۔پاکستان میں کورونا سے متاثرہ مریضوں کی تعداد قریباً پانچ ہزار کے لگ بھگ ہو چکی‘ ملک بھر میں اب تک 56ہزار سے زائد افراد کے ٹیسٹ کئے گئے۔ مجموعی طور پر 56 فیصد کیسز دیگر ممالک سے آئے اور 44 فیصد مقامی طور پر پھیلے۔اب تک سات سو سے زائدمریض صحت یاب ہوچکے ہیں‘پنجاب میں متاثرین کی تعداد سب سے زیادہ ہوچکی اوراس میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے۔ پنجاب حکومت وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی قیادت میں دن رات مصروف عمل دکھائی دیتی ہے ۔ امدادی سرگرمیاں تیزی سے جاری ہیں‘ راولپنڈی میں ڈپٹی کمشنر چوبیس گھنٹے کسی نہ کسی قرنطینہ سنٹر یا ہسپتال میں نظرآتے ہیں‘ ان کے علاوہ بھی پنجاب سمیت ملک بھرمیں افسران‘ ڈاکٹروں ‘ طبی عملے‘ رضاکاروں اورصفائی کے عملے کی حوصلہ افزائی ہمارا فرض بنتاہے‘ حکومت وانتظامیہ کی کاوشیں اپنی جگہ‘ لیکن جب تک عوام لاک ڈائون پر عمل نہیں کریں گے ‘اس وقت سوفی صد نتائج نہیں آسکتے۔وزاتِ ریلوے نے کورونا وائرس کے باعث ملک میں نافذ لاک ڈائون کی بندش کے خاتمے یا اس میں کمی کی صورت میں 24 ٹرینیں چلانے کا فیصلہ کرلیاہے۔شیخ رشید احمد کی زیر صدارت ویڈیو لنک اجلاس میں وفاقی حکومت کی طرف سے لاک ڈائون ختم ہونے کی صورت میں ریلوے کا ممکنہ لائحہ عمل تیار کیا گیا۔ لاک ڈائون ختم یا نرمی کی صورت میں وفاقی حکومت کی منظوری کے بعد چاروں صوبوں میں اپ اینڈ ڈاؤن کی 24 ٹرینیں چلائی جائیں گی‘ خصوصی ٹرینوں کے چلنے کے دوران مسافروں اور عملے کے لیے ہدایات پر عمل لازم ہوگا‘ ممکنہ طور پر لاک ڈائون کے بعد بھی ریزرویشن دفاتر بند رہیں گے۔ ٹرین آپریشن شروع ہونے کی صورت میں مسافر اپنی ٹکٹ صرف آن لائن بکنگ کے ذریعے ہی حاصل کر سکیں گے‘ساٹھ فیصد سیٹیں بک ہونے کے بعد بکنگ روک دی جائے گی‘ تاکہ سماجی فاصلہ پالیسی پر سختی سے عمل کیا جا سکے‘ ٹرینوں کی بکنگ روانگی سے 24 گھنٹے پہلے بند کر دی جائے گی‘خصوصی ٹرینیں چلنے کی صورت میں مسافروں کو ٹرین کی روانگی سے ایک گھنٹہ قبل سٹیشن پہنچنا ہوگا۔مسافروں کے پاس اپنے ماسک‘ گلوز‘ سینیٹائزر اور صابن ہونا لازم ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں ٹرانسپورٹ اورٹرینوں کی بندش سے عوام کی مشکلات میں مزیداضافہ ہوا ‘لیکن تجربہ یہ کہتاہے کہ ریلوے سٹیشنوں اورٹرینوں میں سوفی صد احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد ممکن نہیں اور اس طرح کورونا کے مریض دیگر افراد کو بری طرح متاثر کرسکتے ہیں۔ ان حالات میں حکومت کو چاہیے کہ مشکل وقت میں سخت فیصلوں سے گریز نہ کرے اورقوم کے اجتماعی مفاد کو سامنے رکھے۔