دنیاکے ترقی یافتہ ممالک میں کورونا وائرس کی تباہ کاریاں دیکھتے ہوئے ‘ نیزوطن ِ عزیز میں ہرروز متاثرین کی تعداد میں مسلسل اضافے اور وائرس پھیلنے کے خطرات کے پیش نظرحکومت نے ملک بھر میں لاک ڈائون میں تیس اپریل تک توسیع کردی ہے ۔ وزیراعظم عمران خان نے لاک ڈائون کے ایشو پرقوم کواعتماد میں بھی لیا اورخبردار بھی کیا کہ کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد پاکستان سمیت پوری دنیا میں لاک ڈائون کا فیصلہ کیا گیا‘ ہم نے انتہائی مشکل حالات میں لاک ڈائون پر عمل کیا‘ غریب طبقے کو اس سے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا‘لیکن خوشی ہے کہ لاک ڈائون کی وجہ سے پاکستان میں کورونا وائرس اتنی تیزی سے نہیں پھیل سکا‘ تاہم اس کے باجود احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے‘ اس وبا کے پھیلنے کا خطرہ ابھی تک موجود ہے۔ ہمیں احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ہوگا‘ کیونکہ یہ وائرس کسی وقت بھی پھیل سکتا ہے۔شکر ہے کہ کورونا وائرس سے پاکستان میں اموات توقع سے کم رہیں۔ ہسپتالوں میں تمام سہولیات موجود ہیں ‘لیکن خدانخواستہ کوروناوائرس ‘اگر تیزی سے پھیل گیا توموجودہ ہیلتھ سسٹم مقابلہ نہیں کر سکے گا‘ لہٰذا ہم نے پہلے سے زیادہ احتیاط کرنی ہے۔وزیراعظم عمران خان نے قوم کو کورونا وائرس پھیلنے کے خطرات سے خطردار بھی کیا اورلاک ڈائون دو ہفتے کیلئے بڑھا بھی دیا ‘لیکن ساتھ ہی لاک ڈائون میں نرمی کرتے ہوئے متعدد کاروبار کھولنے کی اجازت بھی دے دی۔ شہروں میں تعمیراتی شعبے سمیت کئی صنعتوں کو کھول دیاگیا‘ حکومت نے ہنر سے متعلق تجارت اور کاروبار کی اجازت بھی دے دی ہے اوراب‘ درزی‘ پلمبر‘ الیکٹریشن‘ مکینکس اور حجام وغیرہ کی دکانیں کھل گئی ہیں‘ تعمیرات سے منسلک شعبے بھی کھولنے کا فیصلہ ہو گیا ہے‘ تاہم کورونا وائرس پاکستان میں باہر سے آنے والے لوگوں کی وجہ سے پھیلا‘ جس کی وجہ سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کوواپس لانے کے حوالے سے صوبوں کو کچھ تحفظات ہیں ‘اسی لئے فلائٹ آپریشن‘ پبلک ٹرانسپورٹ اور عوامی مقامات ابھی بند رہیں گے۔ کیمیکلز پلانٹ‘ سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ پروگرامز‘ سیمنٹ پلانٹ‘ مائنز اور منرل‘ لانڈریز سروس‘ نرسریاں‘ آلات بنانے والے یونٹ اور شیشہ بنانے والی صنعتوں کوبھی کام کی اجازت ہوگی اور یہ سب صنعتیں حفاظتی تدابیرکے ساتھ کھولی جائیں گی‘ریڑھی لگانے والوں کو بھی کاروبار کی اجازت ہوگی‘تمام ایکسپورٹ انڈسٹری اور سٹیشنری کی دکانوں کو بھی کھول دیاگیاہے۔ حکومت رمضان المبارک سے قبل صورت ِ حال کا جائزہ لے کرمزید صنعتوں کو بھی کھولنے یا نہ کھولنے کافیصلہ کرے گی۔ لاک ڈائون کے بعد کھلنے والے شعبوں سے متعلق رولز طے کر لیے گئے ہیں‘تاہم ابھی چونکہ کورونا وائرس کے پھیلنے کا خدشہ موجود ہے‘ اس لئے تیس اپریل تک فضائی سفر‘ پبلک ٹرانسپورٹ‘ عوامی اجتماعات‘ شادی ہالز‘ سینما اور عوامی مقامات بند رہیں گے۔
ادھرپاکستان کے جید علمائے کرام نے اعلان کیا ہے کہ اب لاک ڈائون کا اطلاق مساجد پر نہیں ہوگا۔ باجماعت نماز‘ باجماعت تروایح اور باجماعت نماز جمعہ کا اہتمام کیا جائے گا۔مفتی منیب الرحمن نے دیگر جیدعلمائے کرام کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ لاک ڈائون کریں‘ لیکن اپنے زمینی حقائق بھی دیکھیں‘ اس لیے اب لاک ڈائون کا اطلاق مساجد پر نہیں ہوگا‘ تمام مساجد میں نماز باجماعت‘ نماز جمعہ اور رمضان المبارک میں نماز تراویح اور اعتکاف سمیت تمام عبادات کا سلسلہ جاری رہے گا‘ تاہم جو بزرگ اور بیمار ہیں مسجد نہ آئیں‘ گھر پر عبادت کریں۔ امام کا کام یہ نہیں کہ لوگوں کو نماز ادا کرنے سے روکے‘انہوں نے مطالبہ کیا کہ تین ماہ کیلئے مساجد اور دینی اداروں کے بل معاف کئے جائیں۔ مفتی تقی عثمانی کا کہنا کہ پوری قوم متحد ہوکر اپنی خدمات انجام دے۔ احتیاطی تدابیر کے ساتھ مساجد کھلی رہیں اور باجماعت نماز جاری رہے۔ معمر اور جو لوگ بیمار یا وائرس سے متاثر ہیں‘ وہ مساجد میں نہ آئیں۔ مساجد سے قالین ہٹا کر جراثیم کش ادویات سپرے کیا جائے۔ مساجد کے دروازوں پر سینی ٹائزرز لگانے کا اہتمام کیا جائے۔ باجماعت نماز کے دوران صفوں میں فاصلہ ہو۔ وضو گھر سے اور سنتیں بھی گھر پر پڑھیں۔
لاک ڈائون میں وفاقی حکومت کی جانب سے توسیع کے ساتھ نرمی کے معاملے پر سندھ حکومت کے تحفظات بھی سامنے آگئے ہیں‘ صوبائی حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ وزیراعظم ایک طرف لاک ڈائون میں توسیع کرتے ہیں‘ لیکن دوسری طرف بال کٹوانے کا کہتے ہیں۔ حیرت ہوئی وزیراعظم عمران خان نے کہا بڑی کم اموات ہوئیں۔وفاقی حکومت کے فیصلہ کا احترام کرتے ہیں‘ مگر تحفظات ہیں۔ وفاق کی جانب سے جو آسانیاں دی گئیں‘ اس سے لاک ڈائون متاثر ہوگا‘ تاہم وزیراعظم عمران خان نے جن صنعتوں کو کھولنے کی بات کی ہے‘ ان کے لیے ایس او پیز بنا لیے ہیں‘ان کا کہنا تھا کہ کاروباری برداری حکومتی احکامات پر مکمل عملدرآمد کرے۔ کسی بھی مزدور کو کورونا ہوا تو ادارے کا منیجر مریض کے اخراجات اٹھائے گا۔ کشمکش والے بیانیہ کی وجہ سے پہلے والے لاک ڈائون کے مثبت اثرات سامنے نہیں آ سکے۔ ڈوبی ہوئی معیشت کو دوبارہ اوپر چڑھا سکتے ہیں‘ مگر زندگی دوبارہ نہیں دلوا سکتے‘ جبکہ سندھ کے صوبائی وزیرسعیدغنی نے بھی لاک ڈائون سے متعلق وفاقی حکومت کی ایس اوپیز پر مکمل عمل درآمد کااعلان کرتے ہوئے کہاہے کہ جوبھی فیصلے کئے گئے ہیں ان پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے گا۔ وفاقی اورسندھ حکومت کے ایک دوسرے بارے بیانات تو سیاست ہوسکتے ہیں‘ لیکن ایک عام آدمی بھی حکومت کی کنفیوژن اور آدھے تیتر ‘ آدھے بٹیر جیسے اعلانات و اقدامات سے پریشان ہے ‘کیونکہ ایک طرف وزیراعظم عمران خان کاکہنا ہے کہ لاک ڈائون کی وجہ سے پاکستان میں کورونا وائرس اتنی تیزی سے نہیں پھیل سکا‘لیکن خدانخواستہ وائرس ‘اگر تیزی سے پھیل گیا توموجودہ ہیلتھ سسٹم مقابلہ نہیں کر سکے گا ‘لہٰذا ہم نے پہلے سے زیادہ احتیاط کرنی ہے‘ تاکہ انسانیت کو بچایا جاسکے اوراسی مقصد کیلئے لاک ڈائون دو ہفتے کیلئے بڑھایا گیاہے ‘تو دوسری طرف ہم خود ہی معیشت کے سہارا دینے کیلئے انسانیت کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
پہلے صرف کھانے پینے اور ادویات کی دکانیں کھلی تھیں‘ لیکن اب درزی‘ پلمبر‘ الیکٹریشن‘ مکینک‘ حجام اور سٹیشنری کی دکانیں بھی کھولنے کی اجازت دے دی گئی ہے‘ ریڑھیاں بھی سڑکوں پر لگانے کی چھٹی مل گئی ہے‘ یعنی اب اس آڑ میں سستے بازار کھل سکتے ہیں‘ تعمیراتی شعبے سے وابستہ صنعتوں کوبھی کام کی اجازت مل گئی‘ یعنی 80فیصد کاروبار کھولنے کی اجازت دینے کے بعد حکومت کی جانب سے لاک ڈائون میں توسیع کی بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ اب‘ توگنتی کے چند کاروبار ہی رہ گئے ہیں اوررمضان المبارک سے قبل تاجر برادری کی جانب سے انہیں بھی کھولنے کامطالبہ سامنے آسکتاہے۔ اب‘ رہی تو بات فضائی سفر کی تو بیرون ملک پھنسے پاکستانیوں کو واپس لانے کیلئے خصوصی فلائٹس تو پہلے ہی آرہی ہیں‘ اسی طرح پبلک ٹرانسپورٹ تو بند ہے‘ لیکن سڑکوں پرپرائیویٹ گاڑیوں کیلئے کوئی ایس اوپیز نہیں‘ پہلے ایسے حالات میں صرف میڈیا یاسرکاری گاڑیوں کی اجازت ہوتی تھی ‘لیکن اب سڑکوں پر پرائیویٹ گاڑیوں کے ساتھ مال بردار گاڑیوں کا رش پہلے سے کسی طرح کم نہیں۔عوامی اجتماعات پر پابندی ہے اوردفعہ 144نافذ ہے ‘لیکن غریبوں کو راشن دینے کے نام پر نمودونمائش جاری ہے۔ اس طرح حکومتی لاک ڈائون میں توسیع اورنرمی کاموازنہ کرکے خلاصہ پیش کیاجائے تو شاید آئندہ ہفتے تک لاک ڈائون صرف شادی ہالز اورسینما گھروں تک محدود رہ جائے گا۔ ملکی معیشت کوبچانا بھی بلاشبہ حکومتی ذمہ داری ہے‘ لیکن اگرخدانخواستہ کورونا وائرس بے قابو ہوگیا‘تو پھر انسانیت کے نقصان کا ذمہ دارکون ہوگا؟